ڈاکٹر نثار احمد نثار
شکیل احمد ذوالنورین‘ رہیس مہندس میکانیکی و برقیات کراچی پورٹ ٹرسٹ نے 21 جولائی 2018ء کو سمندری مشاعرے کا اہتمام کیا جس میں پروفیسر جاذب قریشی‘ شکیل احمد‘ اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ سلیم فوز‘ رشید خان رشید محمد علی گوہر‘ ڈاکٹر نثار‘ اکمل نوید‘ محمد علی اشرف‘ علی کوثر‘ عاشق شوکی اور غلام حبیب اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ اس مشاعرے کے شعرا کو کیماڑی کراچی سے بذریعہ لانچ منوڑہ لے جایا گیا جہاں مہمانوں کی خدمت میں شان دار ظہرانہ پیش کیا گیا۔ اس موقع پر شکیل احمد ذوالنورین کی تکمیل مدت ملازمت کے حوالے سے کراچی پورٹ ٹرسٹ ورکرز یونین سی بی اے کے جنرل سیکرٹری ارشد انور کی قیادت میں ایک وفد نے شکیل احمد ذوالنورین کے ساتھ ایک بھرپور ملاقات میں ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے انھیں تحائف بھی پیش کیے۔ مشاعرے کی صدارت پروفیسر جاذب قریشی نے کی۔ شکیل احمد ذوالنورین مہمان خصوصی تھے۔ سلمان صدیقی ناظم مشاعرہ تھے جنھوں نے کہا کہ پروفیسر جاذب قریشی کی پچاس سالہ ادبی خدمات ہمارے سامنے ہیں‘ ان کی بے شمار کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ انھوں نے شعر و ادب کے چار دور دیکھے ہیں۔ موجودہ دور کی اہم ادبی شخصیات کے ساتھ انھوں نے بھی زبان و ادب کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا ہے‘ ان کا شمار آج کے سینئر شعرا میں ہوتا ہے‘ یہ اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ شکیل احمد ذوالنورین نے کہا کہ جاذب قریشی سے ان کی ملاقات 1988ء میں ہوئی تھی یہ بہت بڑے آدمی ہیں ان کی خدمت میں رہ کر ہمیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ انھوں نے اردو ازبان و ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں خاص طور پر نوجوان قلم کاروں کی حوصلہ افزائی میں بھرپور حصہ لیا۔ انھوں نے ہر صنفِ سخن میںبہت اچھا کہا ہے۔ ان کی شاعری میں امیجری ہے‘ گہرائی و گیرائی ہے‘ جدید لفظیات و استعارے ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سلیم فوز نے کہا کہ پروفیسر جاذب قریشی ایک عہد ساز شخصیت ہیں بہت سے اہم ادیبوں اور شعرا نے ان پر سیر حاصل مضامین لکھے ہیں جو کہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ جاذب قریشی ایک اہم لکھاری ہیں۔ انھوں نے اردو ادب میں نئے نئے استعارے ایجاد کیے جن میں پرچھائیں‘ پرندہ‘ عکس‘ کبوتر‘ شام اور دیگر استعارے شامل ہیں۔ شروع شروع میں یہ استعارے جب سامنے آئے تو لوگوں نے انھیں قبول نہیں کیا‘ ان پر طرح طرح کے اعتراضات اٹھائے گئے لیکن وقت و حالات کے بدلتے ہوئے ادبی منظر نامے میں ان استعاروں نے جگہ پائی اور خوب داد وصول کی۔ آج کے ان کے ایجاد کردہ استعارے ہر شاعر استعمال کر رہا ہے ان کی شاعری نئے شعور کی عکاس ہے‘ تازگی اور نفاست ان کے کلام کا خاصا ہے جدید لب و لہجے اور نئے اسلوب کے ساتھ ان کی شاعری پروان چڑھ رہی ہے۔ انھوں نے بہت سے الفاظ کو نئے ڈھنگ اور نئی کیفیات میں استعمال کیا ہے۔ صاحبِ صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج کا مشاعرہ اس حوالے سے بھی یادگار ہے کہ آج شکیل احمد ذوالنورین اپنی سرکاری مصروفیات اور ذمے داریوں سے فارغ ہو رہے ہیں جب کہ آج کی نشست میں بہت اچھی شاعری سامنے آئی ہے۔ شکیل احمد ذوالنورین بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں ان کی شاعری کی ایک کتاب ’’مٹی سے مکالمہ‘‘ 10مارچ 1998ء کو شائع ہوئی تھی جس میں نثری نظمیں تازہ ترین لفظیات و مکالموں کے ساتھ جلوہ افروز ہیں۔ شکیل احمد ہمارے عہد اور شہر کی ایک تروتازہ آواز ہے ان کی تخلیقی شعریت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کوئی نثری نظم نہیں بلکہ کوئی غزل پڑھ رہے ہیں۔ واجد صاحب نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم نے کراچی کے چند نمائندہ شعرا کے ساتھ ایک نشست کی ہے ہمیں بہت لطف آیا اور ہماری معلومات میں اضافہ ہوا‘ ہم ان شعرا کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ انھوں نے ہماری دعوت قبول کی۔ انھوں نے مزید کہا کہ شکیل احمد ذوالنورین نے اپنی سرکاری ذمے داریاں احسن طریقے سے انجام دیں ان کے بتائے ہوئے اصول و ضابطے ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
حامد علی سید کے نعتیہ مجموعہ کلام کی اشاعت
معروف شاعر حامد علی سید کا نعتیہ مجموعہ کلام ’’روشنی کو چراغ لکھا ہے‘‘ شائع ہو گیا ہے جس میں حمد‘ سلام اور منقبتیں بھی شامل ہیں۔ حامد علی سید کے غزلوں کے مجموعے ابھرتا ڈوبتا سورج اور شکستہ آئینہ خانے شائع ہو چکے ہیں جب کہ نعتیہ مجموعہ مئی 2018ء میں اشاعت پزیر ہوا ہے۔ ان کی شاعری سماجی‘ معاشی‘ معاشرتی اور سیاسی رویوں کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ غزل کے روایتی مضامین سے بھی مربوط ہے۔ ان کی پوری عملی زندگی اور ادبی سرگرمیاں ان کے بھرپور اور توانا کمٹمنٹ کا ناقابل ِ تردید ثبوت ہے۔ ادب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے یہ مختلف ادبی اداروں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں تاکہ ادب کی ترقی میں اپنا حصہ شامل کرتے رہیں ان کی تخلیقات میں فکری جدت ہے اسلوب کی تازگی بھی ہے جس کے سبب یہ مسودہ پزیرائی کا مستحق ہے۔ حمد ہو یا نعت یا سلام و منقبت ان تمام اصنافِ سخن میں ان کی نیت کی صفائی‘ عقیدت کی توانائی‘ محبت کی فراوانی‘ قوتِ ایمانی اور جذبوں کی سرشاری نمایاں ہے۔ ان خیالات کا اظہار معروف شاعر شفیق احمد شفیق نے حامد علی سید کے لیے سجائی گئی ایک نشست میں اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ صفدر علی انشاء نے کہا کہ حامد علی سید بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں ان کے یہاں داخلی اور خارجی محرکات بہ درجہ اتم موجود ہیں۔ انھوں نے زندگی کے رویوں کو محسوس کیا اور تازہ رنگ و ادب میں ڈھال کر شاعری بنا کر پیش کیا۔ انھوں نے سماجی جبر و استحصال کو بے نقاب کیا اور زمینی حقائق بیان کیے جہاں تک ان کے نعتییہ مجموعہ کلام ہے تو حامد علی سید نے اپنے دل کی گہرائیوں سے اپنی کتاب میں شانِ رسالت‘ فضائل و شمائل نبویؐ کے ساتھ ساتھ احوالِ امت محمدیؐ بھی لکھا ہے کہ اسوۂ رسول کی پیروی میں ہمارے مسائل کا حل موجود ہے۔ احمد سعید فیض آبادی نے کہا کہ 13 اکتوبر 1956ء کو لیاقت آباد کراچی میں پیدا ہونے والے حامد علی سید خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ نامساعد حالات اور ذمے داریوں کے باوجود حامد علی سید نے اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا اظہار کرکے ادبی منظر نامے میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ انھوں نے 1974ء سے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ان کا کلام ملک کے معتبر جرائد و اخبارات میں شائع ہوتا رہتا ہے انھوں نے خود بھی کئی ادبی رسائل میں صحافتی خدمات انجام دی ہیں ان کی شاعری میں ندرت خیال‘ شعری محاسن پوری توانائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ عقائد کے حوالے سے وہ فرقہ پسندی کے خلاف ہیں سچے عاشقِ رسول ہیں انھوں نے اپنی نعتیہ شاعری میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کا پرچار بھی کیا ہے۔ ان کی کہی ہوئی نعتیں‘ نعت کے مروجہ روّیوں کی عکاس ہیں۔ انھوں نے عبد و معبود کے فرق کو برقرار رکھتے ہوئے نعتیہ اشعار کہے ہیں۔ ان کا یہ شعری مجموعہ نعتیہ ادب میں گراں قدر اضافہ ہے صاحبِ اعزاز حامد علی سید نے کہا کہ وہ سلمان صدیقی کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ جنھوں نے ان کے اعزاز میں یہ شعری نشست ترتیب دی انھوں نے مزید کہا کہ نعت رسولؐ کہنا‘ سننا اور پڑھنا عین عبادت ہے۔ نعت کا سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے جاری ہوا ہے اور تاقیامت جاری رہے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو بلند کیا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں نیک ہدایات عطا فرمائے۔ پروگرام کے دوسرے دور میں شفیق احمد شفیق‘ احمد سعید فیض آبادی‘ حامد علی سید‘ یامین اختر‘ سلمان صدیقی‘ ڈاکٹر نثار‘ صفدر علی انشا‘ سہیل راشد‘ عارف شیخ‘ عبدالمجید محور‘ گلفام سید اور عابد علی نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔