ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی 25ویں کتاب

443

ظہیر خان
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی سے کون واقف نہیں ہے ’’چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں ’ان‘ کی‘‘۔ دنیا میں جہاں جہاں اردو بولی اور پڑھی جاتی ہے وہاں وہاں ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی بھی پڑھے جاتے ہیں۔ متعدّد کتابوں کے مصنّف ہیں کتاب شائع ہونے کی رفتار کچھ اس طرح ہے…بقول غالبؔ… ’’میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے‘‘… ابھی قاری پہلی کتاب مکمل بھی نہیں کر پاتا کہ اطلاع آجاتی ہے کہ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی اگلی کتاب شائع ہوچکی ہے اور فلاں تاریخ کو شام سات بجے آرٹس کونسل آف پاکستان میں رسمِ اجرا ہے… سردار یٰسین ملک صاحب صدارت فرمائیں گے جبکہ محترمہ مہتاب اکبر راشدی مہمانِ خصوصی ہوں گی۔
ڈاکٹر صاحب کا قلم 64 سال سے متحرّک ہے ’عمر گزری ہے اسی دشت کی سیّاحی میں‘ ایک جگہ فرماتے ہیں ’’64 سال سے لکھ‘ بلکہ چھپ رہا ہوں اتنا لکھا کہ قلم کے ساتھ ساتھ دماغ بھی گھسنے لگا ہے‘‘۔ گھسنے پر میرے ذہن میں ایک بات آرہی ہے کہ لوہا جتنا گھسا جاتا ہے اتنا چکنا اور چمکدار ہوجاتا ہے اور انسان کا دماغ تو لوہے سے کہیں زیادہ مضبوط اور طاقت ور ہے اسے جتنا گھسا جائے گا پہلے سے کہیں زیادہ طاقت ور اور کار آمد ہوتا جائے گا اور جہاں تک قلم کا تعلق ہے تو کیا ہوا… ’’اور لے آئیں گے بازار سے گر……‘‘ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی ہر نئی کتاب پہلے سے زیادہ ترو تازہ، شاداب اور بارونق ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی نئی کتاب کیا آتی ہے بس یوں سمجھ لیں کہ حلقۂ علم و ادب میں موسمِ بہار آتی ہے اور جب بہار آتی ہے تو قاری کے چہرے پر نکھار لاتی ہے۔ نئے مضامین‘ نئے لطیفے‘ نئے پُر لطف واقعات‘ حالاتِ حاضرہ کے عین مطابق سیاسی حالات کی بدحالی کی نشان دہی‘ اس پر بے لاگ تبصرہ جس میں شگفتگی کے ساتھ طنز بھی شامل ہوتا ہے۔ اس طرح ڈاکٹر صاحب اپنا فرض ادا کردیتے ہیں مگر ہمارے سیاست دانوں کی حالت ویسی ہی ہے نہ بدلی ہے، نہ بدلے گی‘‘ وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب مزاح لکھتے ہیں، ایسا مزاح جسے پڑھکر قاری کے لبوں پر مسکراہٹ تو آتی ہے مگر اسے کچھ سوچنے پر مجبور بھی کرتی ہے۔ مزاح میں ایسی ایسی پتے کی بات لکھ جاتے ہیں جو قاری کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتی۔ تحریر اتنی شگفتہ اور دلچسپ کہ قاری جب تک ان کی کتاب مکمل نہ کرلے اسے چین نہیں پڑتا۔
پچھلے دنوں ڈاکٹر صاحب کی ایک نئی کتاب جو ترتیب کے حساب سے ان کی ۲۵ ویں کتاب ہے‘ منظرِ عام پر آئی ہے۔ یعنی ان کی کتابوں کی سلور جوبلی مکمل ہوگئی، بس تھوڑا سا انتظار فرمائیے انشاء اﷲ بہت جلد گولڈن جوبلی کی اطلاع بھی آپ حضرات تک پہنچ جائے گی‘ اپنی نئی کتاب کا عنوان ڈاکٹر صاحب نے ایک ایسے فقرے پر رکھا ہے جو پہلے سے ہی عوام میں کافی مقبول ہے انڈین فلم ’’شعلہ‘‘ کا مکالمہ ’’کتنے آدمی تھے؟‘‘ یہ ہے ڈاکٹر صاحب کی اس نئی کتاب کا عنوان۔ اب ڈاکٹر صاحب نے یہ عنوان کیوں رکھا ہے۔ یہ تو کتاب پڑھنے کے بعد ہی پتا چل سکتا ہے۔ لیکن کتاب پڑھنے سے قبل قاری کے ذہن میں کئی باتیں آسکتی ہیں مثلاً وہ یہ سوچتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ فلم ’شعلہ‘ کی طرح اس کتاب میں بھی کسی ڈاکو وغیرہ کا تذکرہ ہو یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب پر خدا نخواستہ کوئی مصیبت آن پڑی ہو اور انہوں نے اس کتاب میں اس کا تذکرہ کیا ہو… مثلاً ڈاکٹر صاحب تنہا گھر سے باہر پیدل نکلے ہوں ہوا خوری کے لیے اور راستہ میں رہزنوں سے ملاقات ہوگئی ہو (جیسا کہ کراچی میں عام ہے) اور جب رپورٹ درج کرانے تھانے گئے ہوں تو پولیس والوں نے پہلا سوال کیا ہو کہ بتائو ’کتنے آدمی تھے؟‘ اور پھر ڈاکٹر صاحب نے انہیں اپنی مکمل روداد سنائی ہو…
’’احوالِ واقعی‘‘ میں ڈاکٹر صاحب نے سیاسی جماعتوں کی دروغ گوئیاں‘‘ ان کے بڑے بڑے جھوٹے دعوؤں کا پول بڑی خوبصورتی سے کھولا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ہر کتاب کا سر ورق بے انتہا دلچسپ اور معنی خیز ہوتا ہے۔ بظاہر تو یہ ایک کارٹون کی شکل میں ہوتا ہے مگر جو مقصد اور پیغام اس میں پوشیدہ ہوتا ہے وہ حیرت انگیز ہوتا ہے۔ یہی حال اس کتاب کا بھی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پنج آب کی طرح اس کتاب کو پانچ حصّوں میں تقسیم کیا ہے پہلے حصّہ کا عنوان امیر منائی کا ایک مصرعہ ہے یعنی ’’سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘‘۔
اس میں بہت سارے درد کا ذکر ہے… گدھوں سے بھی ڈاکٹر صاحب کو ہمدردی ہے ان کے درد سے بھی خوب واقفیت ہے اسلیے ایک مضمون لکھ ڈالا ’جس گدھے میں جان ہوگی وہ گدھارہ جائے گا‘ ایک بات ذہن میں رکھیے گا کہ ڈاکٹر صاحب نے دو پائوں والے گدھوں کا ذکرِ خیر کیا ہے۔ چار پائوں والے گدھوں سے تو ہر کوئی واقف ہے۔
دوسرا حصّہ ’اُمورِ سیر‘ کے نام سے ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو سیّاحی کا بے انتہا شوق ہے اس شوق نے انہیں دنیا کے بیشتر ممالک کی سیر کرائی ہے۔ اس سے قبل ایک طویل سفر نامہ لکھا جا چکا ہے کتاب کا نام ہے ’پورب سے یورپ تک‘ اگر کہیں سے کتاب ہاتھ آجائے تو ضرور پڑھیے گا مزہ آجائے گا۔
’اُمورِ سیر‘ میں ڈاکٹر صاحب نے اسپین کا مختصر سفر نامہ لکھا ہے جو قارئین کے لیے بے انتہا معلوماتی ہے۔ اندازِ بیان اس قدر دلچسپ ہے کہ ایسا لگتا ہے قاری ڈاکٹر صاحب کے ساتھ محوِ سفر ہے۔ اسپین کی تاریخ، مسلم حکمرانوں کا عروج و زوال، یہ ساری باتیں مختصراً کتاب کے اس حصّہ میں درج کی گئی ہیں۔
علّامہ اقبال کا یہ مصرعہ تو آپ کے ذہن میں ہوگا ’یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے‘ بس اسی میں تھوڑی سی تحریف کرکے ڈاکٹر صاحب نے کتاب کے حصّہ سوئم کا عنوان دے ڈالا۔ عنوان ہے ’یہ خاکے اپنی فطرت میں نہ ہلکے ہیں نہ بھاری ہیں‘ ڈاکٹر صاحب نے چھ خاکے لکھے ہیں۔ ان میں سے پانچ وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کا ہماری قوم، ہمارے ملک اور ہمارے ادب پر احسانِ عظیم ہے۔سیّد ضمیر جعفری‘ انور مسعود‘ مہتاب اکبر راشدی‘ جمیل الدین عالی‘ سحر انصاری اور سب سے دلچسپ خاکہ ’’مسٹر ویل‘‘ کا ہے۔ بقول ڈاکٹر صاحب یہ ’ایک غیر معمولی شخصیت‘ ہے دراصل یہ ڈاکٹر صاحب کے گھرانے کے سب سے چھوٹے فرد ہیں عمر تین سال، نام ولید انہیں سب پیار سے ’’ویل‘‘ کہتے ہیں، ڈاکٹر صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹے فہیم قریشی کے صاحب زادے ہیں یعنی ڈاکٹر صاحب کے پوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ان سے کتنا پیار کرتے ہیں۔ اس بات سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے سیّد ضمیرجعفری اور مہتاب اکبر راشدی جیسی شخصیات کے لیے اگر دس صفحات لکھے ہیں تو مسٹر ویل کی شخصیت بھی کچھ کم نہیں ہے ان کی تعریف اور ان کی شخصیت پر روشنی ڈالنے کے لیے ڈاکٹر صاحب نے دس صفحات ہی استعمال کیے ہیں۔
اب آتے ہیں حصّہ چہارم کی طرف…’دیکھنا تقریر کی دہشت‘ اس حصّہ میں ڈاکٹر صاحب کے وہ مضامین ہیں جو انہوں نے کتابوں کی تعارفی تقاریب میں پڑھے ہیں۔ مرزا غالب کا مصرعہ ہے ’دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اس نے کہا‘ مجھے تو ڈاکٹر صاحب کے ہر مضمون میں لذّت ہی لذّت نظر آتی ہے کتاب چاہے کتنی ہی سنجیدہ کیوں نہ ہو ڈاکٹر صاحب کا قلم اس میں بہر حال شگفتگی پیدا کر ہی دیتا ہے۔ رحمان کیانی (مرحوم) کی کتاب ’’اذان‘‘ کی رسمِ اجرا میں پڑھے گئے مضمون کی شروعات ہی اتنی دلچسپ اور شگفتہ ہے کہ تحریر کیے بغیر رہا نہیں جارہا…لکھتے ہیں…’عام خیال کے مطابق فوجیوں کا ادب سے اتنا ہی دور کا تعلق ہے جتنا سیاست دانوں کا اپنے حلقے کے عوام سے‘ جتنا پاکستانی مولانا ڈیزل کا کینیڈین شیخ الاسلام سے یا جتنا محترمہ وینا ملک کا لباس سے!‘‘ بس اسی سے اندازہ کرلیجیے کہ ڈاکٹر صاحب کی اور تحاریر کیسی ہوں گی… کتاب کا آخری حصّہ پنجم ’’اردو ہے جس کا نام…‘‘ ڈاکٹر صاحب نے ان اشعار کا انتخاب کیا ہے جس میں شعرا کرام نے ایسے اشعار کہے ہیں جس سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ وہ مر بھی چکے ہیں اور کفن کے اندر سے یا قبر میں لیٹے لیٹے اشعار بھی کہہ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر۔

میرے کفن کے بند نہ باندھو ابھی مجھے
ملنا ہے ایک شخص سے بانہیں نکال کے

کفن اور قبر کا موضوع ایک سنجیدہ موضوع ہے مگر ڈاکٹر صاحب کی شوخیٔ تحریر نے اسے مزاح میں تبدیل کردیا۔ آخر میں ڈاکٹر صاحب نے قارئین کی معلومات میں اضافہ کے لیے وہ اشعار قلم بند کیے ہیں جو عموماً غلط پڑھے اور لکھے جاتے ہیں ڈاکٹر صاحب نے ان کی تصحیح کی ہے… مثلاً… مرزا غالب کا ایک شعر جسے غلط پڑھنے سے مفہوم ہی تبدیل ہوجاتا ہے…

دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصوّرِ جاناں کیے ہوئے

مصرعۂ اولیٰ میں فرصت کے رات دن سے مفہوم یہ نکل رہا ہے کہ چچا غالب کو فرصت کے رات دن درکار ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے چچا کو فرصت کے رات دن درکار نہیں ہیں بلکہ وہ فقط فرصت کے خواہاں ہیں۔ فرصت ہوگی تو رات دن تصوّرِ جاناں میں گزار دیں گے (واہ رے چچا…جواب نہیں…کیا بات کہہ گئے) درست شعر اس طرح ہے۔

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت، کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصوّرِ جاناں کیے ہوئے

فرصت کے بعد کاما ہے اس کے بعد ’کہ رات دن‘ ہے ایک بات اور عرض کرتا چلوں کہ کچھ احباب مصرعۂ اولیٰ میں ’دل ڈھونڈتا ہے…‘ پڑھتے اور لکھتے ہیں‘ یہ غلط ہے‘ صحیح مصرعہ اس طرح ہے… ’جی ڈھونڈتا ہے…‘
مزاح لکھنا، چاہے نثر ہو یا نظم آسان نہیں ہے مشکل ہے بلکہ مشکل ترین ہے کچھ احباب مزاح لکھنے کے چکّر میں اوٹ پٹانگ لکھ جاتے ہیں اور اپنے آپ کو مزاح نگار سمجھنے لگتے ہیں یہ ان کی خام خیالی ہے ڈاکٹرایس ایم معین قریشی کا اندازِ تحریر اوروں سے مختلف ہے جب وہ کسی کتاب پرتبصرہ کرتے ہیں تو اس کتاب کے سنجیدہ جملوں میں سے مزاح کشید کرلیتے ہیں بس یہی تو ان کا کمال ہے‘ بے شمار کتابوں پر تبصرہ کرکے سامعین اور پھر قارئین کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر چکے ہیں‘ بے شمار اس لیے کہ ڈاکٹر صاحب کو خود ان کا شمار یاد نہیں ہوگا۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی جیسی ہستی ہمارے درمیان موجود ہے اور ہم سب ان کی پُر لطف تحریروں سے فیض یاب ہورہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ان کی عمر دراز کرے…
’’تم سلامت رہو ہزار برس‘‘

حصہ