خشیت الٰہی کی اہمیت

5182

معصومہ ارشاد سولنگی
عبادت کی لغوی معنی کسی کی تعظیم کے غرض سے عاجزی اختیارکرنا ہے۔عبادت کا تعلق ہمارے دل ،زبان اور ہمارے اعضا سے ہے۔عبادت ہر اس عمل کو کہتے ہیں جو ہم رضائے الٰہی کے لیے کرتے ہیں۔عبادات کی ساری اقسام زبانی ،مالی و جسمانی سب کی سب صرف اللہ رب العالمین کے لیے مختص ہیں۔ ان عبادات میں روزہ، نماز، حج، زکوٰۃ اور دوسرے کئی ایسے عوامل پر دل و جان سے عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے جن کی تعلیم ہمارے نبیؐ نے دی ہے۔ جیسے کہ جہاد، امانت داری، زبان و قول کی پاسداری، اچھے کاموں کی ترغیب دینا، برے کاموں سے روکنا، اللہ رب العالمین کی دی گئی نعمتوں کا شکر ادا کرنا جیسے عمل بھی شامل ہیں۔ جو صرف اللہ رب العالمین کی خوشنودی و رضا کے لیے کیے جائیں اور جو کام اللہ کی خوشنودی و رضا کے لیے کیا جائے اس میں تقویٰ، اخلاص اور خشیت الٰہی کاشامل ہونا نہایت ضروری ہے۔
جو انسان اپنے اندر خشیت الٰہی پیدا کرتا ہے۔ اخلاص اور اس کے تقویٰ کا معیار اسے اللہ رب العالمین کے اور زیادہ قریب کردیتا ہے۔ یہ وہ اعمال ہیں کہ جن کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سختی سے حکم دیا ہے۔ فرمان ربانی ہے ’’سب سے زیادہ جنت میں لے جانے والا عمل تقویٰ ہے‘‘۔ اس لیے ہر معاملے میں تقوی اختیار کریں۔خشیت و تقوی کی لغوی معنی کسی چیز سے دور رہنا ہے اور اسلامی لحاظ سے ہر اس کام سے خود کو باز رکھنا ہے جو اللہ کی ناپسندیدگی کا سبب بنے۔ تقویٰ اور خشیت الٰہی کہلاتا ہے۔ تقوی و خشیت الٰہی کی خوبی انسان کو اللہ کے بہت زیادہ قریب کر دیتی ہے۔
سورہ آل عمران میں اللہ رب العالمین فرماتے ہیں’’اے ایمان والو! دل میں اللہ کا ویسا ہی خوف رکھو جیسا خوف رکھنا اس کا حق ہے‘‘۔سورہ النساء میں فرمایا ’’ہم تم سے پہلے اہل کتاب کو بھی اور تمہیں بھی یہی تاکید کرتے ہیں کہ اللہ سے ڈرو‘‘۔سورہ طلاق میں فرمایا ’’اور جو شخص اللہ سے ڈرے گا، اللہ اس کے لیے مشکل سے نکلنے کا راستہ پیدا کر دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوگا، بے شک اس رب زوالجلال کا ڈر دنیا و اخرت میں کامیابی کا ضامن ہے اور باقی ہر ڈر سے نجات دلانے والا ہے‘‘۔ ایک اور مقام پر فرمایا’’اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہیں(حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی(بصیرت )عطا فرما دے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے گااور تمہیں بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے‘‘۔
ہماری عبادت میں اگر خشیت و تقوی شامل رہے تو ہم ہر برائی سے دور کردیے جاتے ہیں ۔ سورہ انفال میں اللہ رب العالمین فرماتے ہیں کہ ’’اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو ایک خاص امتیاز عطا فرمائے گااور تمہارے گناہ تم سے دور کر دے گا اور تمہاری مغفرت فرمائے گا‘‘۔ایک اور مقام پر فرمایا ’’مومن تو وہ ہی ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر ہوتا تو ان کے دل اس کی عظمت و جلالت اور خشیت سے کانپ اٹھتے ہیں‘‘۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ ’’اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت کا، پرہیزگاری (تقویٰ) کا، پاک دامنی کا اور لوگوں سے بے نیازی کا سوال کرتا ہوں‘‘۔ (مسلم)
جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو وہ انسان کبھی کسی گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا۔ وہ اپنی زندگی کو خالص اللہ کی عبادت کے لیے وقف کرتا ہے۔ اپنی عبادت کو دنیاوی دکھاوے یا ریاکاری سے پاک رکھتا ہے۔ فرمان ربانی ہے کہ ’’اور انہیں حکم دیا گیا تھاکہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں‘‘۔ ایک اور جگہ فرمایا ’’کہہ دو کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کی میں خلوص (نیت)کے ساتھ اللہ کی عبادت کروں‘‘۔
ان آیت کریمہ کی روشنی میں واضح ہے کہ کس بھی عبادت کے لیے نیت کا خالص ہونا کتنا ضروری ہے۔ صحیح بخاری و مسلم میں نبی آخر زماں کا فرمان ہے۔ ’’اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے اور ہر فرد کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے نیت کی‘‘۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہر عمل کے لیے نیت کا صاف ہونا بہت ضروری ہے۔ جب نیت ہی صاف نہیں ہوگی تو یقینا ہمیں وہ قرب الٰہی نہیں ملے گا جس کی تمنا ہر مومن کے دل میں ہوتی ہے۔
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ ایک شخص کو اللہ وعزوجل نے مال و علم عطا کیا ہوتا ہے، وہ اپنے مال سے خرچ کرتا اور علم سے فائدہ دیتا ہے اور وہ دوسرا شخص بھی ہوتا جس کے پاس یہ دونوں چیزیں نہیں ہوتیں تو وہ کہتا کاش اللہ نے مجھے دیا ہوتا میں بھی اس طرح خرچ کرتا تو اللہ تعالیٰ اس کی نیت کے حساب سے اسے وہ اجر عطا کرتا ہے‘‘۔ اس حدیث سے واضح ہے کہ صرف خالص نیت کرنے سے ہی انسان کو وہ اجر عظیم مل جاتا ہے۔
صحیح بخاری و مسلم کی ایک حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’بے شک اللہ تمہاری صورتوں اور حالتوں کو نہیں دیکھتا، بلکہ وہ صرف تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے‘‘۔یہاں دلوں سے مراد انسان کی نیت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک جگہ اور ارشاد فرمایا ہے کہ ’’جس نے کسی نیکی کا ارادہ کیا اور کسی وجہ سے اس کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکا تو اس کے لیے نیکی لکھ دی جائے گی‘‘۔
انسان کی پیدائش بھی اللہ رب العالمین کی عبادت کے لیے کی گئی اور کوئی بھی عبادت تقویٰ، اخلاص اور خشیت الٰہی کے بغیر نامکمل ہے۔ اللہ رب العالمین ہم سب کو تقویٰ اخلاص و خشیت الٰہی کے ساتھ عبادت کرنے کی توفیق عطا کرے ، آمین یا رب العالمین۔

حصہ