بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیں

1984

حسنین معاویہ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کائنات میں ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے۔جن کو شمار کرنا ستارے گننے کے مترادف ہے۔ان نعمتوں میں سے ایک نعمت بچے ہیں۔یہ نعمت جس کو بھی حاصل ہوتی ہے وہ خدا کے حضور ہر وقت شکر کرنے میں مگن رہتا ہے۔جس کو حاصل نہیں ہوتی وہ رب تعالیٰ سے مانگنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو جنت کے پھول قرار دیا ہے۔اس پھول کی پرورش اور نشوونما صحیح طور پر کرنا ہر والدین کی ذمے داری ہے۔اس تربیت کو معمولی نہ سمجھا جائے۔معمولی کوتاہی اس پھول کو مرجھا نے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
بچے کی پیدائش سے ہی اس کی پرورش کی ذمے داریاں اس کے والدین پر آجاتی ہیں۔بچہ وہی بولتا اور وہی دیکھتا ہے جو اسے سکھایا اور بتایا جاتا ہے۔ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے’ ’کسی باپ نے اپنی اولاد کو کوئی عطیہ اور تحفہ حسن ادب اور اچھی سیرت سے بہتر نہیں دیا‘‘۔ اس حدیث شریف میں بچوں کی تربیت کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔بچے کی تربیت بہت ہی اہم اور نازک فریضہ ہے۔
اسلام نے بچے کی تربیت اور پرورش کی زیادہ تر ذمے داری اس کے والد پر ڈالی ہے۔اگرچہ ماں کے ساتھ بچہ والد کی بانسبت زیادہ مانوس ہوتا ہے۔ ماں کے ساتھ زیادہ رہتا ہے۔اس کی ہر بات اور حرکت کو نقل کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے لیکن باپ کی حیثیت اپنی جگہ ہے۔باپ کا سایہ شفقت بچے کے لیے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔
ایک بہت ہی اہم مسئلہ جو ہمارے معاشرے میں عام ہے۔اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔وہ یہ ہے کے والدین گھروں میں اپنے بچوں کو بہت ہی کم وقت دیتے ہیں۔ان سے باتیں کم کرتے ہیں۔گھر کے ماحول کی طرف کم دھیان دیتے ہیں۔ اپنے بزنس اور دفتری کام میں مگن رہتے ہیں۔ بچوں کو اپنی پرورش میں رکھنے کے بجائے خادمہ کے حوالے کرجاتے ہیں۔جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کے بچے بگڑ جاتے ہیں۔عربی کا ایک شعر ہے جس کا ترجمہ ہے کہ ’’یتیم وہ نہیں جس کے ماں باپ مر جاتے ہیں بلکہ یتیم وہ ہے جو علم اور عمل سے محروم رہ جائے‘‘۔جن ماؤں کو اپنے بچوں کی تربیت کا سلیقہ نہ آتا ہو اور ساتھ ہی باپ کے پاس بھی اتنا وقت نہ ہوکہ وہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت کر سکے تو وہ بچے یتیم ہوتے ہیں۔ ایک پڑھی لکھی ماں اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرسکتی ہے۔
بعض گھروں میں میاں بیوی کے جھگڑے ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔یہ جھگڑے نقصان کا باعث اس وقت بنتے ہیں جب جھگڑے بچوں کے سامنے ہوتے ہیں۔اس سے بچوں کے اندر چڑچڑا پن پیدا ہوتا ہے۔والدین کی عزت واحترام میں کمی آجاتی ہے۔بچوں کے مزاج میں سختی پیدا ہوتی ہے۔بچوں کے دل میں والدین کے لیے نفرت بھر جاتی ہے۔ان کے ذہن منتشر ہوجاتے ہیں۔ گھر میں سکون نہ ملنے پر وہ بری محفلوں میں چلے جاتے ہیں اور بری صحبتیں اختیار کرتے ہیں۔جس سے بچے بگڑ جاتے ہیں۔
آج کل موبائل اور کمپیوٹر کا دوردورا ہے۔بچے والدین کے سامنے ان کے موبائل پر گیم کھیلتے ہیں،والدین بھی بڑے شوق سے اجازت دے دیتے ہیں۔اس بات سے بہت خوش ہوتے ہیں کہ بچے ان کے سامنے ہیں اور محفوظ ہیں۔اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچے جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں۔جسمانی کھیلوں کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔نظر اور سردرد کے مسائل جنم لیتے ہیں۔
والدین کو چاہیے،اپنے بچوں کی تربیت پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کریں۔اس کی صحیح طرح سے پرورش کریں۔اس کی چال ڈھال پر نظر رکھیں۔اس کے دوستوں اور محفلوں کی کڑی نگرانی کریں۔بچوں سے شفقت سے پیش آئیں۔اچھے کاموں پر ان کی حوصلہ آفزائی کریں۔بچوں پر اعتماد اور ان کی عزت کریں۔بچوں کے درمیان فرق نہ کریں۔بچوں کے دل میں خوف پیدا نہ کریں۔بچوں کو بے عزت اور شرمندہ نہ کریں۔اپنے ذہنی دباؤ کا غصہ ان پر نہ نکالیں اور نہ ہی ان پر جسمانی تشدد کریں۔
ان کے ہاتھوں میں موبائل فون پکڑانے کے بجائے قلم اور کتاب دیں۔اپنے بچوں کی تربیت کا بیڑا خود اٹھائیں۔بچوں کے جسمانی اور ذہنی کھیلوں پر خصوصی توجہ دیں اور نہ بچوں کے سامنے آپس میں جھگڑیں۔سب سے اہم یہ کہ ان کو عصری تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم لازمی دلوائیں۔اگر ہوسکے تو حافظ قرآن بنائیں۔ یہ مفت کا صدقہ جاریہ ہے۔ دنیا وآخرت میں فائدے ہی فائدے ہیں۔المختصر کہ بچے جنت کے پھول ہیں۔ان کی تربیت اور پرورش سے ان کو تازہ دم رکھیں۔ان پھولوں کو مر جھانے نہ دیں۔ورنہ یاد رکھیے ان کا وبال آپ پر ہی ہوگا۔بچے مستقبل کا سرمایہ اور معمار ہیں۔ اس سرمایہ اور معمار کو سنوایے تاکہ بہتر سے بہترین معاشرے کی بنیاد کھڑی ہو۔

حصہ