قاضی مظہر الدین طارق
پانی میں زندگی خشکی سے پہلے موجود تھی، اس میں غذا کے انتظام کا خاص نظام موجود بھی تھا، اگریہ نہ ہوتا تو سمندروں میں بسنے والی اِتنی کثیر تعداد میں اَنواع و اَقسام کی حیات کیسے پرورش پاتی؟ ہرجاندار کو بنیادی غذا کی ضرورت پڑتی ہے، یہ بنیادی غذا بنانے والے زمین پر ہر طرف موجود ہیں، پانیوں میں بھی، سمندری پودوں کے علاوہ اربوں کی تعداد میں واحد خَلوی جاندار، پانی، کاربن، آکسیجن، ہائڈروجن، نائٹروجن اور دیگر معدنیات کوکام میںلاتے ہوئے سورج کی روشنی سے توانائی لے کرضیائی تالیف (Photo Synthesis) کے ذریعہ بنیادی غذا، نشاستے (Carbohydrates) ، لحمیات (Protiens) اور چکنائیاں (Fats) بناتے ہیں ، اِس بننے والی بنیادی غذا کو ایک کے بعد ایک بحری حیات کھاتی جاتی ہے، اس طرح سے ایک غذائی زنجیر
(Food Chain) بنتی جاتی ہے۔ مگریہ غذائی زنجیر اتنی سادہ بھی نہیں ہے، کھانے والوں اور کھائے جانے والوں کا ایک جال ہے ، سب جانداروں کی غذا کا دارومدار ایک دوسرے کو کھانے پرہے، یہ سب ایک دوسرے کے مرحونِ منت (Interdependent) ہیں۔
جو بنیادی غذائیںواحدخَلوی خوردبینی پودے نباتی پلینکٹنز (Phyloplanktons) ضیائی تالیف (Photo Synthesis)کے ذریعہ بناتیں ہیں ان کو سمندر کے ہر حصہ میں بسنے والے جانداروں تک پہنچانا ایک بڑا اور ضروری کام ہے، اس کام کیلئے ایک زبردست اِنتظام کیا گیا ، ایک اور خورد بینی مخلوق حیوانی پلینکٹن (Zooplankton) کو اس کام پر لگایا گیا،یہ اپنے اَطراف جیلی نما ایک گھر(Gelatinous house) بناتی ہے، مکڑی کے جال کی طرح۔پھر یہ اپنی چند دن کی زندگی میں ایسے جیلی نما گھروندے چالیس۴۰ چالیس۴۰کی تعداد میں بناتیں ہیںاور سمندر میں چھوڑ دیتیں ہیں، ان گھروندوں کے اندر بنیادی غذائیں بنانے والے ’نباتی پلنکٹنز‘
(Phylo planktons)اپنی بنائی ہوئی غذا کے ساتھ چپک جاتے ہیں اور اربوں کی تعداد میں سمندر کے اندر اُترتے اور پھیلتے چلے جاتے ہیں،یہ منظر’سمندرمیںبرف کا طوفان ‘سالگتا ہے ،یہ ایک مکعب فٹ میں تقریباً ایک ہزار ہوتے ہیں،اس طرح سمندروںکی گہرائیوںتک بنیادی غذائیں پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
سمندروںکی مختلف گہرائیوں میں مختلف اَنوع واَقسام کی مخلوقات رہتی ہیں، ان سب کوبنیادی غذا کی ضرورت پڑتی ہے ، سمندر کی گہرائیوں میں ایک حد کے بعد اِتنا اَندھیرا ہوتا ہے کہ وہاں ضیائی تالیف نہیں ہو سکتی ، اس لئے وہاں ایسے پودے اور جاندار نہیں رہ سکتے جو ضیائی تالیف کرکے بنیادی غذا خود بنا سکیں،گہرائی کے حساب سے سمندر کو پانچ خطوں(Zones) میں تقسیم کیا جاتا ہے:
٭۔پہلا ،روشن خطہ(Sunlit Zone):سطح سمندر سے چھ سو [۶۰۰] فِٹ کی گہرائی تک ہوتا ہے، اس خطہ میں سورج کی روشنی اور گرمی اچھی طرح موجود رہتی ہے، صرف اِس ہی خطہ میں ’ضیائی تالیف‘
(Photo Synthesis)کر کے بنیادی غذا بنانے والے بحری پودے(Sea Weeds) ،کائی(Algae) اور مختلف جاندار رہتے ہیں، ان میںفائلوپلینکٹنز(Phylo planktons) ،بھی بہت بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں، یہ نباتی پلینکٹنز ضیائی تالیف کے ذریعہ نامیاتی غذا(Organic Food) بناتے ہیں اور پھر ظاہر ہے اِن کی بنائی ہوئی نامیاتی غذا کو کھانے والے حیوانی پلنکٹنز (Zooplanktons) اور ان دونوں کو کھانے والی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں (Anchoes) اور جیلی مچھلیاں (jelly fishes) بھی موجود ہوتیں ہیں،چھوٹی مچھلیوں کو ان سے بڑی مچھلیاں کھاتی ہیں،بڑی مچھلیاں ان ’فائلو پلنکٹنز‘اور ’زُوپلنکٹنز‘ کو بھی کھاتی ہیں ۔
٭۔دوسرا، مدھم روشن خطہ(Twilight Zone): چھ۶۰۰ سو فِٹ کی گہرائی سے تین ہزار تین سو۳۳۰۰ فِٹ کی گہرائی تک جاتا ہے،اس خطہ میں ہلکی ہلکی روشنی ہوتی ہیںاور درجۂ حرارت پانچ درجہ سنٹی گریڈ 5oC تک رہتا ہے ، یہاں چھوٹی مچھلیوں کو کھانے والی ان سے قدرے بڑی مچھلیاں بھی ہوتیں ہیں، ان میں ’بحری اسکوئرٹس‘ (Sea Squirts) ، اور’اُور فِش‘ (Ore fish) ، اور’ وائیپرِفِش (Wiper fish) اور’ضوفشانی مچھلیاں‘(Bioluminecent glittring fishes) بھی موجود ہوتی ہیں، ان میں ’دیوقامت اسکویڈز‘ (Giant Squids) پائے جاتے ہیں یہ دنیا کے سب سے بڑے ’غیرفقاریہ‘ (Invertebrate) حیوان ہوتے ہیں جن کی لمبائی چھیاسٹھ۶۶ فٹ تک ہوسکتی ہے، سب کے علاوہ ’اِسپرم وہیل‘ (SpermWhale)بھی اپنے شکار کی تلاش میںیہاں آتی جاتی رہتی ہے۔
٭۔تیسرا،تاریک خطہ(Dark Zone):
یہ خطہ،سطح سمندر سے تین ہزار تین سو ۳۳۰۰ فٹ سے تیرا ہزار دو سو۱۳۲۰۰فٹ تک ہوتا ہے، یہاں پانی کا دبائو سطح سمندر سے ایک ہزار۱۰۰۰ گنا زیادہ رہتا ہے اور پھر یہاں بہت کم غذائی اجزاء پائے جاتے ہیںاور کم ہی جاندار یہاں بستے ہیں۔
٭۔چوتھا،عمیق خطہ(Abyssal Zone):
یہ خطہ،تیرا ہزار دو سو۲۰۰,۱۳فِٹ سے انیس ہزارآٹھ سو۸۰۰,۱۹فِٹ تک گہرا ہوتا ہے، یہاں سمندر کی گہرائیوں میںمسطح خطے ہوتے ہیں ان کو (Abyssal Plains) کہتے ہیں، ان میدانوں میں نرم ریت ہو تی ہے،ٹھنڈ اورمکمل اندھیراہوتا ہے، اس خطہ میں بھی زندگی کم ہی ہوتی ہے، مگر کیونکہ یہاں آکسیجن نہیں ہوتی، سخت دباؤہوتا ہے، روشنی بھی نہیں ہوتی۔
٭۔پانچواں قطہ:
۱۹۸۰۰فِٹ سے ۰۰۰,۳۰تیس ہزار فِٹ کی گہرائی تک ہو سکتا ہے،جہاں سمندر کی تہہ میں دراڑیں (Vents) ہوتے ہیں اور ان سے لاوا اُبل رہا ہوتا ہے وہاںساڑھے تین سو سنٹی گریڈ تک سخت گرمی ہوتی ہے اتنی حرارت کہ’سیسہ‘ (lead)اور’ قلعی‘(tin) بھی پگھل جائے، تیل بھی اُبل جائے ایسے مقام پر ایسی’ خُردبینی ‘ (microscopic)مخلوق’آرکیہ‘ ہوتی ہیں جو آکسیجن کے بجائے گندھک کے مرکبات استعمال کرتی ہیںاور یہ دیگر سختیاں دبائو گرمی اور اندھیرا بھی برداشت کرنے کے قابل ہو تیںہیں،اگر یہ’آرکیہ‘ نہ ہوتے تو کیا ہوتا،سمندر گندھک کے زہریلے مادّوں سے بھر جاتا اور زندگی کے قابل نہ رہتا۔
مگریہاں یہ اکیلی نہیں ہوتیں بلکہ جس کیمیائی عمل سے وہ گندھک کو ہضم کرتے ہیں اس سے ایک اورزہریلا کیمیائی مرکب بنتا ہے ، جس کو کھاکر صاف کرنے والی بہت سی عجیب و غریب مخلوقات پائی جاتیں ہیں ۔ ان میں سے ٹیوب وارمز تو تیس تیس فِٹ تک لمبے ہوتے ہیں جن کے علاوہ دو خولی سیپیاں اور جانے کیا کیا جاندار پائے جاتے ہیں۔
یہ سب حقیقتیں ہیں،کیا یہ حقیقتیں واضح اشارہ نہیں دے رہیں ہیںکہ کوئی قوّت ہے جس نے اس سارے کام کی منصوبہ بندی کی ہے کہ کیسا جاندار کس مقام پر ہو اور اس کوکس طرح کی غذا کی ضرورت پڑے گی ، اس کا انتظام اور پھراس غذا کے استعمال کرنے والوں کی تخلیق۔
غور کریں!کیسا زبردست انتظام ہے ، سمندر کے کسی بھی حصہ میں کسی بھی گہرائی میںکوئی بھی جاندار غذا کی کمی کا شکار نہیں ہوتا، غذا سمندر کے ہر خطے میں پہنچتی ہے اور سمندر کی تہوں میںبھی پھیل جاتی ہے،جہاںرزق نہیں پہنچتا وہیں رزق کاانتظام رازق و ربّ خود کرتا ہے۔
ہر خطے میں اس کے ماحول کے مطابق جاندار پائے جاتے ہیں، اندھیرے میں رہنے والے، بہت زیادہ دبائو برداشت کرنے والے، پھر ایسے بھی جوآکسیجن کے بغیربھی زندہ رہ سکیں۔
خالق اور ربّ ہی کو معلوم ہے کہ غذا حاصل کرنے کیلئے اس جاندار کی جسمانی ساخت کیسی ہونی چاہئے اس کے کھانے کے اعضاکیسے ہونا ضروری ہیں،منہ میں دانت ہوں یا نہ ہوں،دانت ہوں تو کیسے ہوں،منہ چونچ دار نوکیلا ہو یا نہیں،کسی کو آری جیسا منہ دیا،کسی کو ہتھوڑے جیساسر، اس کے ماحول میں اُس کی جان اُس کو کھانے والوں سے محفوظ رکھنے کا انتظام بھی اِسی نے کیا اوریہ بھی کہ کتنا محفوظ رکھنا ہے کہ کھانے والے بھی بھوک سے نہ مریں اور کھائے جانے والوں کی نسل بھی ختم نہ ہو جائے، اُس قوّت نے نہ صرف اس کا منصوبہ بنایا ہے بلکہ ہر وقت اِس کے مطابق عمل کا اہتمام کر رہا ہے، پھر ہرلمحہ اِن سب کاموں کی باریک بین حساب کے ساتھ نگرانی بھی کر رہا ہے۔
٭…٭…٭