زاہد عباس
’’ماں جی، سنا ہے پنڈ کا چودھری بہت بیمار ہے؟‘‘
’’ہاں پتر، طبیعت زیادہ ہی خراب ہے اُس کی۔‘‘
’’ماں جی، اگر پنڈ کا چودھری مر گیا تو کون چودھری بنے گا؟‘‘
’’پتر، اُس کے بیٹوں میں سے ہی کوئی بنے گا اور کس نے بننا ہے!‘‘
’’ماں جی، اگر وہ بھی مر گئے تو پھر کون بنے گا؟‘‘
’’اُس کے بھائیوں یا رشتے داروں میں سے کوئی بھی بن جائے گا۔‘‘
’’ماں، اگر وہ بھی مر گئے تو پھر؟‘‘
ماں انتہائی غصے سے بولی ’’کم بخت! اگر سارا پنڈ بھی مر جائے تب بھی تُو پنڈ کا چودھری نہیں بن سکتا، جا دفع ہو، جاکر کوئی کام کر، سارا دن گھر میں بیٹھا دماغ کھاتا رہتا ہے۔‘‘
ویسے تو یہ چٹکلا ہم بچپن سے ہی سنتے آرہے ہیں، لیکن اگر دیکھا جائے تو بات سو فیصد درست ہے۔ آپ کچھ بھی کرلیں، پڑھ لکھ کر اعلیٰ منصب پر فائز ہوجائیں، یا پردیس میں ساری زندگی لگاکر روپیہ پیسہ کمالیں، جائدادیں بنالیں، چاہے جتنی مرضی زرعی زمین کے مالک بن جائیں، آپ کا شملہ ان گھرانوں سے اونچا تو درکنار برابر بھی نہیں ہوسکتا۔ یہ حسب نسب اور خاندانی حیثیت گنے چنے گھرانوں کی ہی میراث ہے۔ ایک تانگہ ہانکنے والا فقط برادری کے باعث ہی اچھے خاصے پڑھے لکھے اور اعلیٰ منصب پر فائز شخص سے خود کو محض اس لیے افضل قرار دیتا ہے کہ اس کا تعلق جاٹ، کشمیری، بٹ، راجپوت، چٹھہ یا مغلوں سے ہے، خالی جیب ہونے کے باوجود وہ اس میں ہی خوش رہتا ہے کہ اس کے علاقے سے منتخب ہونے والا اس کی ذات برادری کا ہے… یہ الگ بات ہے کہ ایوان میں پہنچنے والا شخص چاہے اس کو جانتا تک نہ ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاست کے نام پر ہمیشہ لسانیت کو ہوا دی گئی، زیادہ تر سیاسی جماعتوں نے وفاقی طرزِ سیاست کے بجائے برادریوں، قبیلوں اور صوبائیت کے نام پر قوم کو ایسا تقسیم کرڈالا کہ آج وہی چند گھرانے جن کے ظلم سے آزادی حاصل کرنے کے لیے مملکتِ خداداد پاکستان بنائی گئی، حکمرانی کرتے نظر آتے ہیں۔
خاندانی سیاست دانوں نے ہر دور میں تبدیلی کا نعرہ لگایا، اور ہر مرتبہ نئی جماعت کے کپڑے پہن کر نئے نکور ہوکر تقاریر میں اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم ملک سے جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام کے ساتھ ساتھ خاندانی سیاست کے تسلط کا بھی خاتمہ کریں گے۔ تاہم ان کی جانب سے کیے جانے والے دعووں کی ’’سچائی‘‘ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مختلف جماعتوں میں ہونے کے باوجود یہ آپس میں رشتے داریوں کی ایسی مضبوط ڈور سے منسلک ہیں کہ ان کی موجودگی میں سیاسی کلچر میں تبدیلی کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ اب تبدیلی کا نعرہ بلند کرنے والی جماعت تحریک انصاف کو ہی دیکھ لیجیے، عمران خان کے انتہائی قریبی اور پارٹی کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود کے بہنوئی ہیں، جبکہ جہانگیر ترین کی اہلیہ سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کے سینئر وائس چیئرمین یوسف رضاگیلانی اور فنکشنل لیگ کے سربراہ پیر پگارا پیر صبغت اللہ راشدی کی بھی فرسٹ کزن ہیں، یوں تحریک انصاف کے جنرل سیکریٹری ان دونوں رہنمائوں کے رشتے میں بہنوئی ہیں۔ پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود تحریک انصاف کے مرکزی رہنما مخدوم شاہ محمود قریشی کے سمدھی ہیں، ان کی صاحبزادی جو یوسف رضا گیلانی کی رشتے میں بھتیجی لگتی ہیں وہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے مخدوم زین قریشی جو آج کل سوشل میڈیا کی زینت بنے ہوئے ہیں، کی اہلیہ ہے۔ اسی طرح سابق وفاقی وزیر تسنیم نواز گردیزی، یوسف رضاگیلانی کے سگے پھوپھی زاد ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے مرکزی رہنما سابق صوبائی وزیر سید افغان شاہ جو حجرہ شاہ مقیم کے گدی نشین ہیں، وہ بھی یوسف رضا گیلانی کے فرسٹ کزن ہیں۔ اسی طرح پیپلز پارٹی دور کے سابق وزیر مملکت برائے خارجہ امور، سابق صدر سردار فاروق احمد خان لغاری اور گلگت بلتستان کے سابق گورنر پیر کرم علی شاہ کے قریبی عزیز ہیں۔ سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی سندھ میں پیپلزپارٹی کے سب سے بڑے مخالف جی ڈی اے کے صدر پیر پگارا کے بہنوئی ہیں۔ ہمایوں اختر، تبدیلی کی ٹرین میں سوار عمران خان کے دستِ راست جہانگیر ترین کی سگی خالہ کے بیٹے ہیں۔ اٹک سے تعلق رکھنے والے پیر مکھڈ عباس محی الدین، یوسف رضا گیلانی، مخدوم احمد محمود اور پیرپگارا کے فرسٹ کزن ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سابق چیئرمین سینیٹ فاروق ایچ نائیک، نون لیگ کے خواجہ آصف کے خالہ زاد بھائی اور برادر نسبتی ہیں۔ قاف لیگ کے احسان الحق پراچہ، سابق وفاقی وزیر داخلہ اور سیاسی اصولوں پر مسلم لیگ (ن) سے علیحدہ ہونے والے چودھری نثارعلی خان کے ہم زلف اور پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنما آمنہ پراچہ کے بہنوئی ہیں۔ سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار میاں نوازشریف کے سمدھی ہیں۔ اسی طرح تحریک انصاف کے چودھری شفقت محمود مسلم لیگی سینیٹر جعفراقبال اور ان کی اہلیہ عشرت اشرف دونوں کے پھوپھی زاد بھائی ہیں، جبکہ آصف علی زرداری کے دستِ راست سابقہ چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ ذکا اشرف بھی پی ٹی آئی کے شفقت محمود کے فرسٹ کزن ہیں۔ نون لیگ کے چودھری جعفر اقبال، ذکا اشرف کے بہنوئی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی خاتون سابقہ ایم این اے یاسمین رحمان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے پرویز ملک اور سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کی بہن ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چودھری احمد مختار میاں نوازشریف کے دستِ راست سید مہدی کے سمدھی ہیں۔ سیاست میں جانا پہچانا نام نواب زادہ غضنفر گل کے بیٹے حیدر مہدی مسلم لیگ (ن) کے سابق ایم پی اے اور پارلیمانی سیکریٹری تھے۔ اسی طرح ان کے بھائی نواب زادہ مظہر مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے، اور میجر (ر) معین نواز مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے رہے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ رشتہ داروں کو پارلیمنٹ میں لانے کا سلسلہ بھائیوں، بہنوئیوں اور بہنوں تک چلتا ہے۔ جے یو آئی (ف) کے سربراہ اور ایم ایم اے کے صدر مولانا فضل الرحمن ہر مرتبہ رکن قومی اسمبلی، جبکہ ان کے بھائی عطاء الرحمن سینیٹر ہیں۔ اسی طرح سابق وزیراعظم نوازشریف کے بھائی شہبازشریف وزیراعلیٰ پنجاب، بھتیجا حمزہ شہباز، داماد کیپٹن (ر) صفدر اور بیمار اہلیہ تک رکن اسمبلی رہے ہیں۔ اسی طرح سابق وفاقی وزیر رانا تنویر حسین کے چھوٹے بھائی رانا افضال بھی مسلم لیگ (ن) سے رکن قومی اسمبلی رہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے بہنوئی منور تالپور، بہن فریال تالپور رکن قومی اسمبلی اور دوسری بہن ڈاکٹر عذرا پیچوہو (مخصوص نشستوں) سے رکن قومی اسمبلی رہے۔ رشتے داریاں یہیں ختم نہیں ہوتیں، ان کے علاوہ سید قائم علی شاہ کی بیٹی نفیسہ شاہ، پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الٰہی، چودھری شجاعت حسین کے بھائی چودھری وجاہت حسین، انور چیمہ کے بیٹے عامر سلطان چیمہ اور ان کی بہو تنزیلہ چیمہ، مخدوم امین فہیم (مرحوم) کا سارا خاندان، ڈاکٹر ارباب عالمگیر خان، ان کی اہلیہ عاصمہ ارباب، ذوالفقار مرزا، فہمیدہ مرزا اور ان کے بیٹے، سیدہ عابدہ حسین زوجہ فخر امام، ناہید خان زوجہ صفدر عباسی، غزالہ سعد زوجہ خواجہ سعد رفیق، ان کے بھائی سلمان رفیق سمیت بڑی تعداد میں رشتے دار اراکین اسمبلی رہے۔
واضح رہے یہاں تبدیلی کے نام پر سیاسی اڑان بھرنے والوں کے زیادہ تر ناموں سے چشم پوشی کی گئی ہے، وگرنہ مزید لمبی چوڑی فہرست مرتب کرنے کی ضرورت پڑ سکتی تھی۔ ویسے تو ہم نے ہندو بنیے اور انگریز سے آزادی حاصل کرلی لیکن ستّر برس گزرنے کے باوجود پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان نہ بنا سکے۔ ملک میں رائج انتخابی طریقہ کار کے نتیجے میں منتخب ہوکر آنے والوں کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ جو چند خاندان پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے کسی نہ کسی صورت اقتدار میں رہے، وہی ہم پر آج بھی مسلط ہیں۔ یہ بظاہر تو الگ الگ سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہوتے ہیں، لیکن حسب نسب کے اعتبار سے ایک ہی ہوتے ہیں۔