بیٹیاں باعثِ رحمت یا باعثِ زحمت؟۔

1844

افروز عنایت
پچھلے دنوں ایک افسوس ناک خبر نظروں سے گزری کہ خاتون کی پہلی بیٹی کی ولادت سے ہی سسرالیوں اور شوہر کا رویہ تلخ ہوتا گیا۔ دوسری بیٹی، پھر تیسری بیٹی… اس طرح سسرالیوں کے ساتھ ساتھ شوہر کا رویہ بھی مزید تکلیف دہ اور پُرتشدد ہوتا گیا۔ آخر ان تین معصوم بیٹیوں کی ماں نے موت کو گلے لگالیا اور وہ معصوم کلیاں ماں کی آغوش سے محروم ہوکر دنیا کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئیں۔ اس نوعیت کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ آئے دن اس قسم کے واقعات ہمارے اردگرد بازگشت کرتے ہیں، جن کی بھینٹ یہ مائیں اور معصوم کلیاں چڑھ جاتی ہیں۔ چند دن زبانوں پر افسوس اور پھر خاموشی… اور سب سے زیادہ افسوس کرنے والی خواتین نظر آتی ہیں کہ ظلم ہوگیا، لیکن بغور دیکھا جائے تو ان واقعات کے پیچھے اکثر خواتین کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ سچ کہا ہے کسی نے کہ عورت پر عورت ہی ظلم زیادہ روا رکھتی ہے۔ اس موضوع پر طبع آزمائی کے لیے ایک بچی نے ہی کہا کہ آنٹی آپ معاشرے کی اصلاح پر قلم اٹھاتی ہیں، اس موضوع پر بھی ضرور لکھیں۔
یہ بچی (29/28سالہ) تین خوبصورت پیاری بیٹیوں کی ماں ہے۔ یہ گڑیا جیسی شہزادیاں 2، 4، 6 سالہ ہیں، جنہیں دیکھ کر غیروں کو بھی پیار آجاتا ہے، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ تعلیم یافتہ اور پوش ایریا میں رہائش پذیر اس فیملی کی ماں اکثر بہو کو طعنے دیتی ہے کہ تُو بیٹا جننے سے قاصر ہے، صرف بیٹیاں تیرے مقدر میں ہیں، تم چاروں ماں بیٹیاں میرے بیٹے کا خون چوس رہی ہو۔ اس قسم کی گفتگو کا مظاہرہ وہ اکثر و بیشتر کرتی رہتی ہے (کچھ اور باتیں بھی اس بچی نے بتائیں جنہیں میں یہاں بیان نہیں کرسکتی)۔ اس بچی نے کہا ’’آنٹی اس میں میرا کیا قصور ہے کہ میں تین بیٹیوں کی ماں ہوں! یہ تو اللہ کے کام ہیں‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آئی نمی نے مجھے بھی غمزدہ کردیا۔
اسی طرح ایک اور بچی نے بتایا کہ جب میرے یہاں دوسری مرتبہ بھی بیٹی کی ولادت ہوئی تو میرا شوہر اپنی والدہ کو بچی کو دکھانے کے لیے زبردستی اسپتال لے کر آیا۔ میری والدہ نے میری بیٹی کو اُٹھا کر انہیں دینے کی کوشش کی تو بڑی ناگواری سے کہا کہ بیٹی پیدا ہوئی ہے، اب تو بیٹا ہونا تھا۔ جبکہ موصوفہ (ساس) پانچ بیٹیوں کی پیدائش کے بعد بیٹے کی ماں بنی تھیں۔ مذکورہ بالا دونوں واقعات نہایت پڑھی لکھی، معزز خاندانوں کی بہوئوں نے شیئر کیے۔ کہتے ہیں کہ تعلیم انسان کو شعور اور آگہی سے بہرہ ور کرتی ہے، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہم آج بھی پڑھے لکھے جاہل ہیں۔ دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں تو اکثر و بیشتر ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن کی وہاں پر مقیم خواتین عادی ہوچکی ہیں، جبکہ اُن علاقوں میں سسرالیوں کا ردعمل نہایت اذیت ناک دیکھا گیا۔ بیٹوں کی پیدائش پر خوشی کے شادیانے، جبکہ بیٹیوں کی پیدائش پر ماتم و سوگ کا سماں نظر آتا ہے۔ باشعور اور دینی رجحان کے حامل لوگ بیٹیوں کو گھر کی رحمت تصور کرتے ہیں۔ دینِ اسلام میں بھی بیٹی کو گھر کی رونق و رحمت کہا گیا ہے۔ احادیثِ نبویؐ میں بیٹیوں کی ولادت کو باعثِ رحمت اور جنت کی بشارت کہا گیا ہے۔
حضرت ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی دو بیٹیاں ہوں اور وہ ان کے جوان ہونے تک ان کو کھلاتا پلاتا رہے تو وہ اس کو جنت میں لے جائیں گی (ابن ماجہ)۔ اس حدیث سے اندازہ لگائیں کہ دو بیٹیوں پر جنت کی خوش خبری ہے تو زیادہ پر اُن کے والدین کے درجات کتنے بلند ہوں گے۔ ایک اور جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’جس کی تین بیٹیاں ہوں وہ اُن کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے‘‘۔ عرض کیا گیا ’’اور دو ہوں؟‘‘ تو آپؐ نے فرمایا ’’دو ہوں تب بھی‘‘۔ پھر عرض کیا گیا ’’اگر ایک ہو تو؟‘‘ آپؐ نے فرمایا کہ ’’اگر ایک ہو تو بھی‘‘۔
غرض کہ دینِ اسلام میں بیٹی کا بہت اعلیٰ مقام ہے کہ جب وہ بیٹی ہوتی ہے تو باپ کے لیے جنت کا دروازہ کھلواتی ہے، بیوی ہوکر شوہر کا آدھا دین مکمل کرواتی ہے، اور سبحان اللہ جب ماں بنتی ہے تو جنت اس کے قدموں تلے رکھ دی جاتی ہے۔ زمانۂ جہالت میں عورت کی کوئی قدر و منزلت نہ تھی۔ چاہے وہ بیٹی ہو، بیوی یا ماں… ہر صورت میں عورت کو حقارت سے دیکھا جاتا۔ یہ واحد دینِ اسلام ہے جس میں عورت کو ہر صورت میں عزت و تکریم سے نوازا گیا ہے۔ مکہ مکرمہ میں جب مقبرہ شبکیتہ کی زیارت کا ہم سب کو موقع ملا تو مولانا صاحب (معلم) نے ان زندہ درگور بیٹیوں کے چند واقعات گوش گزار کیے جنہیں سن کر ہم سب کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور تصور میں وہ واقعات ذہن کے پردوں پر نمایاں ہوتے گئے جب ان کے باپوں نے انہیں زندہ اس زمین میں گاڑ دیا تھا۔ چند صحابہ کرام جن سے زمانۂ جہالت میں یہ گناہ سرزد ہوا تھا (بیٹیوں کو زندہ گاڑنے کا) وہ اکثر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے اس گناہ پر روتے اور اللہ سے معافی و توبہ استغفار کرتے تھے۔
آپؐ، صحابہ کرامؓ اور تابعین کے اپنی بیٹیوں، بہنوں، مائوں اور بیویوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کے واقعات ہم سب کے لیے روشن دلیل ہیں کہ اسلام میں عورت کا کیا مقام ہے۔ آپؐ کا اپنی بیٹیوں کے ساتھ حُسنِ سلوک اور ان کو احترام و عزت دینا آج کے مسلمانوں کے لیے روشن دلیل و سبق بھی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج بھی ہم میں سے اکثریت جہالت کے دور کو تازہ رکھے ہوئے ہے۔ آخرت کے اجر و ثواب کے علاوہ بیٹیاں تو اِس دنیا کی زندگی کے لیے بھی ماں باپ کے لیے باعث ِسکون و راحت اور رحمت کا سرچشمہ ہیں۔ اکثر والدین بڑے فخر سے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں بیٹی کی پیدائش پر گھر میں خوشحالی، برکت و رونق آگئی۔ میرے گھر میں جب دو بیٹوں کے بعد بیٹی کی پیدائش ہوئی تو جو خوشگوار تبدیلیاں گھر میں رونما ہوئیں وہ قابلِ تحسین اور قابلِ ذکر ہیں۔ گھر، گھر بن گیا، رزق میں اضافہ ہوگیا، گھر کے در و دیوار بھی کھلکھلا اُٹھے۔ عفت (بیٹی) کی شادی کے چھے مہینے بعد عدینہ (پوتی) کی پیدائش پر میرے سُونے گھر میں پھر سے بہار آگئی۔ عدینہ نہ صرف دادا، دادی کی آنکھوں کا تارا ہے بلکہ اپنے دونوں چچائوں کی بھی لاڈلی ہے۔ بھائی کی پیدائش کے بعد بھی عدینہ کا گھر میں وہی مقام ہے، وہی مرتبہ ہے جو اس کی پیدائش پر تھا۔ میں وہ لمحے نہیں بھول سکتی جب عدینہ کی پیدائش سے چند دن پہلے بیٹے (عدینہ کے والد) نے آفس سے فون کرکے خوش خبری سنائی کہ نہ صرف اس کا پروموشن ہوگیا ہے بلکہ تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اُس وقت میں نے اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ ربّ العالمین کے کرم دیکھو کہ بیٹی کی پیدائش سے پہلے ہی تم پر دنیاوی انعامات کی بارش شروع ہوگئی ہے، اور آخرت کے انعامات اس کے سوا ہیں۔
ان سطور کے ذریعے میں اُن لوگوں سے جو بیٹیوں کو باعثِ زحمت و شرم سمجھتے ہیں، کہنا چاہوں گی کہ یہ بیٹیاں تو ’’رحمت‘‘ ہیں۔ دنیا و آخرت کی تسکین کا باعث ہیں۔ ان کی صحیح تعلیم و تربیت کرنے سے آپ کی زندگی باعثِ مسرت بن سکتی ہے۔ یہ آپ کو راحت اور سکون دینے کا باعث بن سکتی ہیں۔ ابھی پچھلے ہفتے میری ایک کولیگ (دوست راحیلہ) سے ملاقات ہوئی جس نے بتایا کہ اس کی والدہ کا مرنے سے پہلے کافی وقت اس کے گھر میں رہنے کا اتفاق ہوا۔ سخت علالت کے باعث والدہ بستر پر تھیں، راحیلہ نے اس دوران اُن کی بے انتہا خدمت کی۔ میں نے راحیلہ سے کہا کہ تمہاری ماں کی خوش نصیبی ہے کہ بڑھاپے میں سخت بیماری میں بیٹی کی وجہ سے انہیں سکون اور آرام ملا اور تمہاری خوش نصیبی کہ تم نے ماں کی خدمت کرکے جنت کمالی۔
یہی بیٹیاں آپ کے لیے بیٹوں سے بڑھ کر ہوسکتی ہیں اگر ان کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کی جائے۔ اپنے دلوں کو کشادہ کریں اور بیٹوں کی پیدائش کے ساتھ ساتھ بیٹیوں کی پیدائش پر بھی اپنے ربّ کا شکر ادا کریں کہ ربّ العزت نے آپ کو اولاد سے نوازا ہے۔ وہ بڑا کارساز ہے، ربّ کی دی ہوئی کوئی نعمت بندے کے لیے زحمت نہیں ہوسکتی، جب تک بندے کا اس سلسلے میں اپنا کردار و عمل منفی نہ ہو۔
آپؐ کو اولادِ نرینہ نہ ہونے کی وجہ سے کفار طعنہ دیتے تھے کہ آپؐ کا نام و نشان تک نہ رہے گا، کیونکہ آپؐ بیٹے کی اولاد سے محروم ہیں، لیکن آج آپؐ کا نام کائنات میں روشن ہے، سبحان اللہ۔ لوگوں کے دلوں میں آپؐ کی بیٹیوں اور نواسوں کو عزت و احترام کا مقام حاصل ہے۔ میرا ربّ بڑا کارساز ہے، اس کی تقسیم اور اس کی مصلحتیں وہی جانے، ہمیں ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا لازم ہے۔ جیسا کہ ربّ العزت کا فرمان ہے:
’’آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کے لیے ہے۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے، یا بیٹے اور بیٹیاں ملے جلے (عطا فرماتا ہے) اور جسے چاہتا ہے بانجھ بنادیتا ہے۔ یقینا وہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز پر مکمل قدرت رکھنے والا ہے‘‘۔ (سورہ الشوریٰ آیت 49۔50)
اللہ ہم سب کو صبر و شکر کی توفیق عطا کرے اور خدا کی مصلحت و حکمت کو دل سے تسلیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

حصہ