نعیم الرحمٰن
محمدالیاس 1980ء کے عشرے میں منظرعام پرآنے والے اہم افسانہ نگاروں کی صفِ اوّل میں شامل ہیں۔ تین دہائیوں سے زائد مدت میں محمد الیاس اردو ادب کا دامن کئی بے مثال افسانوں سے مالامال کرچکے ہیں، جن میں ’’دوزخ میں ایک پہر‘‘، ’’تحفہ‘‘، ’’سانولی سلونی‘‘ اور ’’دعا‘‘ جیسے افسانے شامل ہیں۔ ان کے 9 افسانوی مجموعے قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی بھرپور تسکین کرچکے ہیں جن میں’’منظر پسِ غبار‘‘، ’’صدیوں پر محیط اک سفر‘‘، ’’مور پنکھ پر لکھی کہانیاں‘‘، ’’دوزخ میں ایک دوپہر‘‘، ’’لوحِ ازل پر لکھی کہانیاں‘‘، ’’آئینے میں گم عکس‘‘، ’’کٹڑیاں اور چوبارے‘‘، ’’اندھیروں کے جگنو‘‘ اور ’’گلیوں اور بازاروں میں‘‘ شامل ہیں۔
کئی افسانوی مجموعوں کے بعد محمد الیاس کے قلم نے ناول کی جولان گاہ میں قدم رکھا اور یکے بعد دیگرے ناول تحریر کرکے اپنی دھاک بٹھا دی۔ محمد الیاس کا پہلا ناول ’’کہر‘‘ تھا، پھر انھوں نے ’’برف‘‘ تحریرکیا۔ ان کا تیسرا ناول ’’بارش‘‘ کے نام سے منصۂ شہود پر آیا۔ پھر انہوں نے ’’دھوپ‘‘ اور ’’پروا‘‘ بھی تخلیق کیے۔
محمد الیاس کے ناولوں کے موضوعات، کردار، فضا اور کہانی ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں، لیکن ان کے بعض پہلو اور مرکزی کرداروں میں کسی حد تک مماثلت نظر آتی ہے۔ ناول نگار کا بنیادی موضوع مذہبی انتہا پسندی کے مختلف روپ، مذہبی اور جاگیرداری سماج کے استبداد کی بیخ کنی اور تمام انسانوں کی برابری اور اتحادِ بین المذاہب کی تلقین ہے۔ ناول ’’کہر‘‘ کا مرکزی کردار خان اسلم اور زرینہ کا مہاجر خاندان اور ان کا اکلوتا کمسن بیٹا اکرم ذوالقرنین عرف نین ہے۔ ناول کی اصل کہانی نین اور اس سے سات سال بڑی عیسائی میگی کی انوکھی داستانِ عشق پرمبنی ہے۔ ناول ’’برف‘‘ کا مرکزی کردار صوم وصلوٰۃ کے پابندکپڑے کے متمول تاجر شیخ نورالاسلام کی بیٹی اور چار بھائیوں کی اکلوتی بہن فخرالنسا عرف بی بی جان ہے۔ کہانی فخرالنسا اور ظفر کے ملکوتی اور بے مثل پیار کی ہے، جب کہ ناول ’’بارش‘‘ کا ہیرو وسیع جاگیر اور جائداد کی مالک بیگم تاجور سلطانہ کا پوتا اور اکلوتا وارث شہریار عرف شہری ہے۔ اس کی کہانی بھی شیری اور شہری کی منفرد قسم کی بچپن کی محبت کے گرد گھومتی ہے۔ تینوں مرکزی کردار معاشی طور پر مضبوط اور امیر خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بارے میں بجا طور پرکہا جاسکتا ہے کہ وہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے۔ لیکن رواداری پر مبنی اور مختلف سوچ کے حامل ہونے کی وجہ سے اپنوں ہی کے نادانستہ فیصلوں اور تغافل کا شکار بن جاتے ہیں اور تمام عمر اُن کے اپنے بھی انھیں نہیں سمجھ پاتے، اور وہ انہی کے ستم کا نشانہ بنتے ہیں۔ محمد الیاس کی فکر اورکسی حد تک ناول کے موضوع کا اندازہ ہر ناول کے ابتدائیے اور انتساب ہی سے بہ خوبی ہوجاتا ہے۔ ’’کہر‘‘ کا ابتدائیہ کچھ یوں ہے:
’’ابتدا! علیم وخبیرکے نام سے، جو جانتا ہے کہ زمین پر ظالم کی رسّی دراز ہے‘‘۔ ناول کا انتساب ہے ’’ان انسان دوستوں کے نام… جنھوں نے اپنی زندگیاں محروم طبقات کو غصب شدہ حقوق دلانے کے لیے وقف کردیں۔‘‘
’’برف‘‘ کا پہلا ورق الٹتے ہی قاری کی نظر ان الفاظ پر پڑتی ہے: ’’ابتدا! اللہ کے نام سے، جو بندے کا ذہن اور دل اپنے نور سے منور کرتا ہے‘‘۔ اور انتساب ہے ’’اللہ کے اُن چنیدہ بندوں کے نام جو زمین پر محبت کی فصل بوتے ہیں۔‘‘
’’بارش‘‘ کے پہلے ورق پر تحریر ہے ’’ابتدا اللہ کے نام سے جو بکھرے ہوؤں کو یک جا کرنے والا ہے‘‘۔ اورانتساب ہے’’غلام نسلوں کی نمائندہ انسان نما مخلوق ہاریوں، مزارعوں، چوہڑوں، بھکاریوں اور کسبیوں کے نام… جن کے خون پسینے کی کمائی، بھیک اور خرچی پر حکمراں اور مراعات یافتہ طبقے عیش و عشرت کی زندگی بسرکرتے ہیں۔‘‘
محمد الیاس کا قلم ظلم اور ناانصافی کے خلاف شمشیرِ برہنہ بن جاتا ہے۔ اپنا نقطۂ نظر واضح کرنے کے لیے لکھتے ہیں:
’’جس معاشرے کو ظالموں نے یرغمال بنا رکھا ہو، مجھ جیسا کوئی بھی بے نوا ادیب سارا سچ لکھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ظلم اور جبر کے نطفے سے منافقت اور ریاکاری جیسی فاحشہ اولادیں جنم لیتی ہیں۔ ایسے ماحول میں بہت سی نیکیاں بھی معاشرتی جبرکے تحت کی جاتی ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں راہ بنانے کے لیے طالع آزماؤں نے چور راستے کھوج نکالے ہیں۔ جنت میں جانے کے لیے بھی شارٹ کٹ اختیار کرنے کی جستجو لگی رہتی ہے۔ دینی اور دنیاوی معاملات میں یکساں جارحانہ رویّے اپنانے کا چلن عام ہے۔ ایسے سماج میں سچ بولنے والے کو جہنم رسیدکرنے کے لیے رضاکار ہمہ وقت کمربستہ رہتے ہیں، جن کاایمان ہے کہ ایک ’’نابکار‘‘ کی لاش کے فاصلے پر جنت کا دروازہ ان پرکھل سکتا ہے۔‘‘
’’کہر‘‘ کا آغاز کشمیر، پوٹھوہار اور پنجاب کے وسط میں کہیں آباد ایک چھوٹے سے قصبے سے ہوتا ہے، جہاں قیامِ پاکستان کے بعد آگ اور خون کے دریا سے گزر کر آنے والے ضلع امرتسرکے زمیندار گھرانے کو جائداد الاٹ ہوئی ہے۔ میاں بیوی اپنے کمسن بچے کے ساتھ ایک صبح ٹرین سے قصبے پہنچتے ہیں۔ سردی کی اس صبح مقامی دکان دار حافظ برخوردار خان اسلم اور زرینہ کو اپنے گھر لے جاتا ہے۔ خان اسلم اور زرینہ کو ابتدا میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور الاٹ شدہ جائداد اور زمین کا مکمل قبضہ حاصل کرنے اور قصبے میں اپنے قدم مضبوطی سے جمانے کے لیے مضبوط سہارا درکار ہوتا ہے۔ اسی مقصد کی خاطر خان اسلم اور زرینہ اپنی ہی زمینوں پر کچے گھروں میں آباد عیسائی گھرانے کے ایک فرد پاکھڑا پہلوان سے رشتہ استوارکرتے ہیں۔ پاکھڑا کی بیٹی میگی، جو اکرم سے سات سال بڑی ہے، اس سے بے حد پیار کرتی ہے اور اسے نین کے نام سے پکارتی ہے۔ بچہ پیارکا بھوکا ہوتا ہے۔ اس لیے نین بھی میگی کا دیوانہ بن جاتا ہے اور اس کے بغیر پل نہیں گزارتا۔ اپنی ضرورت کے تحت زرینہ کو پاکھڑا پہلوان میں اپنا بچھڑا بھائی نظر آتا ہے، لیکن جائداد پر مکمل قبضے کے بعد اسلم اور زرینہ کو عیسائی خاندان سے ملنا جلنا ناگوار گزرنے لگتا ہے۔ زرینہ تہجد گزار اور عبادت گزار ہونے کے ساتھ بے حد توہم پرست اور وہمی خاتون ہے۔ نمازی پرہیزگار خان اسلم بیوی کی ہر بات پر آمنا صدقنا کرنے کا عادی ہے۔ مطلب براری کے بعد زرینہ کو غیر مذہب سے میل جول سے اپنا اور بچے کا ایمان خطرے میں نظر آتا ہے۔ اس قسم کے مواقع سے فائدہ اٹھانے والے تو عموماً آس پاس ہی ہوتے ہیں جو زرینہ کے خیال کو مزید پروان چڑھاتے ہیں۔ زرینہ کو غیر مسلم خاندان سے دور رہنے کے لیے الہام بھی ہونے لگتے ہیں، جب کہ نین کسی صورت بھی میگی سے دور ہونے کو تیار نہیں۔ اس کا اسکول میں بھی میگی کے بغیر دل نہیں لگتا۔ بچے کی اس ضد کو جادو کا شاخسانہ قرار دیا جاتا ہے۔
اس کے بعد ناول کا پورا پلاٹ نین اور میگی کی روز بہ روز پروان چڑھتی محبت اور خان اسلم اور زرینہ کی اپنے بیٹے کو میگی کے سحر سے بچانے کی کش مکش کے گرد گھومتا ہے۔ میگی اور نین کا لگاؤ رنگ، نسل، مذہب اور سماجی حیثیت سے ماورا ہے۔ وہ ایک دوسرے کو ہی اپنا سب کچھ سمجھتے ہیں۔ اس انوکھے عشق کی اصل نوعیت کا قدرے بڑی عمرکی میگی کو بھی علم نہیں۔ وہ نین کو اپنا دوست، بھائی، بیٹا، باپ، محبوب اور شوہر سب کچھ مانتی ہے۔ نین کو بھی اس میں حقیقی ہمدرد، دوست، محبوبہ اور بیوی نظرآتی ہے۔ انسانوں کے درمیان مذہبی دیواریں حائل کرنے کے خلاف محمد الیاس نے ان کرداروں کی تشکیل کمالِ مہارت سے کی ہے اور ان کی وساطت سے اپنا پیغام قاری تک بہ خوبی پہنچایا ہے، اور معاشرے کے تضادات اور فرسودہ روایات کا پردہ چاک کیا ہے۔
محمد الیاس کو کردار نگاری پر عبور حاصل ہے۔ ان کا قلم جو کردار بھی تشکیل دیتا ہے، کردار کا حلیہ، قدوقامت، رنگ ڈھنگ اور سراپا اس مہارت سے صفحۂ قرطاس پر بکھرتا ہے کہ پڑھنے والے کے سامنے جیتی جاگتی شخصیت آجاتی ہے۔ ’’کہر‘‘ میں بھی کرداروں کی ایک کہکشاں ہے جو زندگی کے مختلف روپ اور انداز آشکار کرتے ہیں۔ نصیرالاسلام اور اس کی بیوی حسینہ بیگم بھی دو ایسے ہی کردار ہیں، اور ان کے حوالے سے انوکھا کردار حضرت صاحب کا بھی سامنے آتا ہے۔ حضرت صاحب دراصل چودہ، پندرہ سالہ گونگا اور ذہنی طور پر معذور لڑکا بگا ہے جو پاکپتن میں نصیر اور حسینہ کے ہاتھ لگ گیا۔ بگا کے بال پیدائشی طور پر سفید اور چہرہ دودھیا گلابی ہے۔ روشنی میں اس کی آنکھیں پوری طرح نہیں کھلتیں۔ دونوں میاں بیوی نے بگا کو پیرکے روپ میں پیش کررکھا ہے اور بڑی تعداد میں خواتین اولاد اور دوسری منتوں کے لیے پیر صاحب کے پاس آتی ہیں۔ حسینہ ان عورتوں کو نشہ آور مٹھائی کھلا کر بلیک میلنگ کے لیے ان کی برہنہ تصویریں لیتی ہے۔ نصیر ان کی آبروریزی بھی کرتا ہے۔ یہی حسینہ مکمل پردے میں حضرت صاحب کا پیغام لے کر زرینہ کے پاس بھی جاتی ہے اور اسے عیسائی خاندان کی قربت کے سنگین نتائج سے آگاہ کرکے خاصا پیسا بھی اینٹھتی ہے۔ بے شمار وارداتوں کے بعد یہ دونوں میاں بیوی قانون کی گرفت میں آجاتے ہیں اور بگا اپنے والدین کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ بگا کا باپ اور چچا بھی دولت کی لالچ میں اپنے بیٹے کو بوستان نامی مجرم کو ٹھیکے پر دے دیتے ہیں جو اسے لے کر پیر خانے کا نیا کاروبار شروع کرتا ہے، اور جب بگا کے والدین کے مطالبات بڑھنے لگتے ہیں تو اسے گلا گھونٹ کر قتل کردیا جاتا ہے، کیوں کہ زندہ پیر کے مقابلے میں مُردہ پیر سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔
اکرم کے دوست جلال خان کا باپ حضرت گُل بھی ’’کہر‘‘ کا دل چسپ کردار ہے۔ حضرت گُل کبھی خرکار تھا اور اُس نے لوٹ مار اور اس قسم کے کاموں سے خاصی دولت جمع کرلی ہے۔ اس نے کشمیر کے جہاد میں حصہ لیا تھا، جہاں چودہ سالہ بملا کماری کی آنکھوں کے سامنے اس کے والدین کو ان کا سونا چھین کر قتل کیا اور اسے بوری میں ڈال کر ساتھ لے آیا، اور روتی پیٹتی لڑکی کو مسلمان کرکے اپنی بیوی بنا لیا۔ نکاح کے وقت وہ بملا کماری سے کہتا ہے کہ اللہ کا شکرکرو تم کو مسلمان کردیا، روز گوشت کھاؤ اور موج اڑاؤ۔ رو مت، اللہ ناراض ہوجائے گا۔
عمدہ پلاٹ، شان دار اسلوب اور زندۂ جاوید کرداروں سے مزین ناول ’’کہر‘‘ شروع سے آخر تک انتہائی دل چسپ ہے، جس کا شمار بجا طور پر اردو ادب کے بہترین ناولوں میں کیا جاسکتا ہے۔
محمد الیاس نے اپنے ناولوں میں طبقاتی تقسیم کے خلاف آواز بلند کی ہے اور انسانی مساوات پر زور دیا ہے۔ ان ناولوں کی موجودگی میں اردو ادب کو اچھے ناولوں سے تہی دامن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اردو ادب کے قارئین کو محمد الیاس کے مزید ناولوں اور افسانوں کا بھی انتظار ہے۔
ملک کا ہم نظام بدلیں گے
اشرف طالب
پھر اکھاڑا سجا سیاست کا
پھر سے عیار لڑنے آئے ہیں
پھر بہاریں چمن میں آئیں گی
پھر تعلق خزاں سے ٹوٹے گا
پھر سے فتنہ نیا اچھالیں گے
پھر سے مشکل میں ہم کو ڈالیں گے
ایک لیڈر تو یہ بھی کہتا ہے
راج خوشیوں کا ہر طرف ہوگا
لوڈ شیڈنگ کا یہ جو رونا ہے
چھے مہینے میں ختم کر دیں گے
کرکے چائنا کٹنگ وہ بھول گئے
اک سیاسی گروہ کہتا ہے
ووٹ اس بار پھر ہمیں دے دو
روٹی‘ کپڑا‘ مکان ہم دیں گے
اب قلم اور کتاب ہم دیں گے
کس قدر کھوکھلا یہ نعرہ ہے
یعنی ہم بے وقوف ہیں سارے
اب نہ مانیں گے بات ہم پیارے
جو بھی ہم کو دکھائو نظارے
وعدہ کرتا ہے اس طرح کوئی
ملک کا ہم نظام بدلیں گے
بھوک اور پیاس ہم مٹائیں گے
یہ زمانے کو کر دکھائیں گے
ایک لیڈر یہاں پہ ایسا ہے
کہ ہے جس کی زبان بے قابو
ملک کو کیسے وہ سنوارے گا
قوم کو کس طرح پکارے گا
کام بگڑے وہ کیا بنائے گا
کیسے گلشن کو وہ سنوارے گا