کراچی کی آواز کی تعارفی تقریب

401

ڈاکٹر نثار احمد نثار
ادارہ تہذیب کراچی کے زیر اہتمام اسکائوٹ آڈیٹوریم کراچی میں ممتاز شاعر و صحافی عارف شفیق کے کالموں پر مشتمل کتاب ’’کراچی کی آواز‘‘ کی تقریب منعقد ہوئی جس کی صدارت ڈاکٹر علامہ سید ضمیر اختر نقوی نے کی۔ انور سن رائے مہمان خصوصی تھے‘ راشد نور نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ دیگر مقررین میں پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی‘ علاء الدین خانزادہ اور جلیس سلاسل شامل تھے۔ ادارۂ تہذیب کے روح رواں کشور عدیل جعفری نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہ اکہ ان کا ادارہ اردو ادب کی ترویج و اشاعت کے علاوہ پبلی کیش میں بھی دلچسپی لے رہا ہے اس ادارہ اردو ادب کی ترویج و اشاعت کے علاوہ پبلی کیشن میں بھی دل چسپی لے رہا ہے اس ادارہ کے تحت عارف شفیق کی کتاب شائع کی گئی‘ ہم اس میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں اس کا فیصلہ آپ کریں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ کتاب کراچی کی ادبی تاریخ ہے اس کا مطالعہ ہمارے علم میں اضافے کا باعث ہوگا۔ علاء الدین خانزادہ نے کہا کہ عارف شفیق نے اپنے کالموں میں کراچی کے مختلف ادوار کو قلم بند کرکے ایک قابل ستائش کارنامہ انجام دیا ہے یہ کوئی آسان کام نہیں ہے کہ انھوں نے کراچی کے عروج و زوال پر خوب صورت اندازِ فکر میں دعوتِ فکر دی ہے کہ ہم بھی کراچی کی ترقی میں بھرپور حصہ لیں کیونکہ یہ شہر ہم سب کا ہے انھوں نے مزید کہا کہ اب کتب بینی کا شعبہ کمزور ہو رہا ہے اس پُر آشوب دور میں انھوں نے کتاب کلچر کو پروموٹ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جن اخبارات میں ان کے کالم چھپتے ہیں وہ بھی مبارک باد کے مستحق ہیں اس موقع پر انھوں نے کراچی کے حوالے سے ایک خوب صورت نظم بھی پیش کی۔ جلیس سلاسل نے کہا کہ وہ عارف شفیق کے دوستوں میں شامل ہیں جس کی بنیاد پر وہ یہ بات کہتے ہیں کہ عارف شفیق ایک کھرے انسان ہیں انھوں نے اپنے الفاظ بیچے نہیں بلکہ معاشرہ کو آئنہ دکھایا ہے۔ یہ کتاب اردو ادب میں گراں قدر سرمایہ ہے۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ عارف شفیق کے یہاں مزاحمتی شاعری پائی جاتی ہے ملی تصورات کے بعد علاقائی یونٹ ہوتا ہے لیکن جہاں جہاں زندگی ہوتی ہے وہاں ادب ہوتا ہے عارف شفیق نے اپنے علاقائی یونٹ کی بھرپور نمائندگی کی ہے انھوں نے کبھی مصلحت سے کام نہیں لیا۔ ان کے کالموں کا مجموعہ سچ کا اشتہار ہے۔ ان کی بنیادی وجۂ شہرت ان کا مستند شاعر ہونا ہے ان کا ایک شعر آج بھی زبانِ زد عام ہے:

غریب شہر تو فاقوں سے مر گیا عارفؔ
امیر شہر نے ہیرے سے خود کشی کرلی

ان کی شاعری طقباتی سماج کا وہ سچ ہے جس کو ہم مزاحمتی شاعری کہتے ہیں انھوں نے بڑی مشکل زندگی گزاری ہے لیکن انھوںنے پامردی سے تمام حالات کا مقابلہ کیا ان میں مشاہدات کی قوت زیادہ ہے انھوں نے معاشرتی رویوں کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ان کے کالموں میں کراچی کا نوحہ ہے انھوں نے آشوبِ شہر لکھ کر نام کمایا۔ انور سن رائے نے کہا کہ عارف شفیق کے کالموں میں زندگی رواں دواں ہے ان کی تحریروں میں صحافیانہ مہارت اور دانش وارانہ بصیرت موجود ہے۔ انھوں نے کراچی کے مختلف گوشوں کو عیاں کیا ہے۔ ان کے کالموں میں لالو کھیت کراچی کی بستی کی آواز نمایاں ہے کہ ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے کہ یہ علاقہ مرکز اردو ادب تھا۔ انھوں مزید کہا کہ جب میں ان کے کالم پڑھتا ہوں تو میرے سامنے کراچی کا ایک ایک منظر ابھر کر سامنے آجاتا ہے اور میں ان کی تحریر کے ساتھ ساتھ سفر کرنے لگتا ہوں‘ ان کی تحریروں میں ان کے کالموں میں میرا پورا وجود نظر آتا ہے۔ کراچی کے بارے میں اب اتنی کتابیں آچکی ہیں کہ کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس نے تمام کراچی پڑھ لی ہیں تاہم عارف شفیق کی کتاب ان سب میں منفرد اہمیت کی حامل ہے کہ انھوں نے کراچی کے زخم زخم موسموں کو للکارا اور کراچی کی پُر بہار زندگی بھی بیان کی۔ یہ ایک غیر متعصب شخصیت ہیں کہ انھوں نے سندھی مفکرین کے خیالات بھی قلم بند کیے‘ ان کی شاعرانہ بصیرت اور صحافتی تجربہ کو میں سلام عقیدت پیش کرتا ہوں۔ صاحبِ اعزاز عارف شفیق نے کہا کہ وہ 1990ء سے کالم نگاری کر رہے ہیں سب سے پہلے انھوں نے قومی اخبار کے لیے کالم لکھنا شروع کیا اس کے بعد روزنامہ جرأت‘ ایکسپریس اور ہفت روزہ اخبار جہاں میں بھی کافی عرصے تک کالم نگاری کی۔ کالم نگاری اور شاعری ان کی زندگی کا مقصدِ حیات ہے۔ صاحب صدر نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ اسلام کی تاریخ ہجرت سے شروع ہوتی ہے۔ مہاجر خوب صورت لفظ ہے اس کو تعصب کی بنیاد نہ بنایا جائے۔ عارف شفیق نے ہندوستان سے پاکستان آنے والے لوگوں کی مشکلات کا اظہار کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ عارف شفیق کی کتاب کا آغاز لالو کھیت سے ہوا ہی اس کتاب میں مختلف شخصیات پر بھرپور اور مدلل بحث کی گئی ہے‘ ان کا اندازِ بیاں دل چسپ اور متاثر کن ہے اس کتاب میں افسانوں جیسا مزا بھی ہے اور سچی کہانیوں کا لطف بھی ہے۔ عارف شفیق ایک دیانت دار قلم کار ہیں ان کی تحریروں میں کراچی کا درد نمایاں ہے یہ اپنے قاری کو تلخ باتیں سنا کر نمناک کر دیتے ہیں اور کبھی کبھی ان کی تحریروں سے چہروں پر مسکراہٹ آجاتی ہے یہ کتاب زندگی کے مختلف رویوں کی عکاس ہے۔ انھوں نے کبھی بھی سچائی کا سودا نہیں کیا۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنی رحمتوں سے نوازے اور وہ مزید عزت و شہرت کمائیں۔ تقریب اجرا کے موقع پر شاندار مجلہ بھی جاری کیا گیا جس میں ڈاکٹر شاداب احسانی‘ نذیر لغاری‘ فاضل جمیلی اور احمد عزیز کے مضامین شامل ہیں۔ ناظم تقریب راشد نور نے کہا کہ عارف شفیق ایک سینئر شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ تجربہ کار صحافی بھی ہیں‘ ان کی شاعری عوامی ہے‘ ان کی کتاب عوامی حلقوں میں ضرور پزیرائی حاصل کرے گی تاہم یہ کتاب اربابِ قلم کی لیے ایک بہترین دستاویز ہے۔ ییہ کتاب ہماری زندگی کے بہت سے معاملات سامنے لارہی ہے ہمارے سماجی‘ سیاسی اور ادبی روّیوں پر عارف شفیق نے بہت لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت‘ عزت اور شہرت سے ہم کنار فرمائے‘ آمین۔

انجم عثمان کے شعری مجموعہ ’’العطش‘‘ کی تعارفی تقریب

انجم عثمان کثیر المطالعہ خاتون ہیں ان کا شاعرانہ مزاج دوسری شاعرات سے الگ ہے‘ ان کے یہاں تجسس کا عنصر‘ شاعرانہ حسن و جمال‘ فنی نزاکتیں‘ مضمون آفرینی کے علاوہ مشاہدات و تجربات بہ درجہ اتم موجود ہیں۔ ’’العطش‘‘‘ ان کا بہاریہ مجموعۂ کلام ہے جس کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ وہ دیگر شعرا کے علاوہ مرزا غالب سے زیادہ متاثر ہیں ان کے اشعار میں فارسی کا استعمال نظر آتا ہے جو کمالِ ہنر مندی کا ثبوت بھی ہے اور شاعری کا حسن بھی۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر سحرانصاری نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی ادبی کمیٹی کے زیراہتمام انجم عثمان کے شعری مجموعہ ’’العطش‘‘ کی تعارفی تقریب کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ العطش کا استعمال صرف کربلا تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ تشنگیٔ آب کے ساتھ ساتھ محرومیوں‘ خواہشات کی عدم تکمیل اور ناانصافیوں کا استعارہ ہے۔ انجم عثمان کی شاعری میں رومانیت بھی ہے‘ شگفتگی بھی اور آلامِ روزگار کی کسک بھی۔ مجموعی طور پر یہ کتاب تجربات و محسوسات کا تنوع ہے اس میں کیفیتوں کی یکسانیت نہیں ہے ابھی ان کی ترقی کا سفر جاری ہے امید ہے کہ یہ مزید عزت و شہرت پائیں گی۔ ڈاکٹر عالیہ امام نے کہا کہ انجم عثمان غزل کی شاعرہ ہیں وہ سادہ لوح شخصیت ہیں‘ انھوں نے اپنی زندگی اعلیٰ نظریات‘ تلاش و جستجؤ حق‘ ایثار اور قربانی کے لیے وقف کردی ہے۔ وہ استقامت کے ساتھ میدانِ شاعری میں کھڑی ہیں ان کی شاعری علم و آگہی کا صحیفہ ہے۔ انھوں نے اندھیروں میں جگنو اتارے ہیں۔ بادِ صبا کی تازگی‘ چاندی کی ٹھنڈک اور محبوب کی ادائوں کو پانے کی انجم عثمان نے بھی کوشش کی ہے۔ محمود شام نے کہا کہ انجم عثمان لب و لہجے‘ زبان و بیان اور ذخیرۂ الفاظ کے تنوع سے ایک بہترین شاعرہ قرار پاتی ہیں ان کے کلام میں شعریت‘ مضمون نگاری اور پختگی نظر آرہی ہے‘ ان کی غزلیں بنی سنوری ہوتی ہیں جو ہمیں اپنی طرف راغب کرتی ہیں۔ انھوں نے سائنسی نظریات پر بھی بات کی ہے اور تصوف پر بھی اشعار کہے ہیں۔ الفاظ کے استعمال میں نئی تراکیب نظر آرہی ہیں ان کے یہاں تفکرانہ جذبات اور وجدانی کیفیت بھی ہے اور سیاسی نظریات بھی۔ انھوں نے اردو کے اہم ذخیرۂ الفاظ کے استعمال سے اردو کے زرین باب کا اعادہ کیا ہے ان کی شاعری عمومی طرز کی شاعری نہیں ہے۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ فارسی الفاظ سے مزین شاعری نے انجم عثمان کو اپنی ہم عصر شاعرات سے جداگانہ حیثیت دی ہے۔ یہ مشکل پسند شاعرہ ہیں۔ مضمون آفرینی اور خیال آفرینی ان کا یہاں پائی جاتی ہے ان کی شاعری میں کسی سے مستعار لیے ہوئے الفاظ و استعارے نہیں ہیں ان کی اپنی زبان ہے۔ انھوں نے دوسروں کے خیالات نہیں چرائے ان کے یہاں ردیفوں کا استعمال خوب صورت ہے کہیں بھی ردیف قافیے سے الگ نہیں ہوئی ان کے یہاں روایتی مضامین بھی ہیں اور جدید اندازِ فکر بھی۔ انھوں نے فارسی‘ اردو کے ساتھ ساتھ پوربی زبان کا استعمال بھی کیا ہے ان کی ردیفوں کے تنوع نے ان کی شاعری کو یکسانیت کا شکار نہیں ہونے دیا۔ فصاحت اور بلاغت کے ساتھ مختلف ڈکشن کی غزلیں ان کی شاعری کا محور ہیں۔ ماریہ عثمان نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہر مرد کی ترقی میں عورت کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن میری والدہ کی ادبی ترویج و اشاعت میں میرے والد کا اہم کردار ہے۔ میری والدہ نے گھریلو ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ اپنی شاعری کو بھی پروان چڑھایا اور ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں کہ آج ہماری تقریب میں بہت اہم صاحبانِ عقل و دانش شریک ہیں۔ سلمان صدیقی نے نظامتی فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ انجم عثمان کے بارے میں کہا کہ وہ شاعرات کی صف میں اہم اضافہ ہیں جو کہ نہ صرف کلاسیکی روایات کے تہذیبی آداب سے بہ خوبی واقف ہیں بلکہ شعری منظر نامے میں بھی نمایاں جگہ بنانے میں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہیں ان کی شاعری ان کی ہنر مندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ڈاکٹر نزہت عباسی نے انجم عثمان کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ انجم عثمان نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ کئی غزلیں‘ نظمیں اور سلام سنا کر خوب داد حاصل کی۔

حصہ