حذیفہ عبداللہ
ذیشان اور فیضان دونوں بھائی موسم گرما کی تعطیلات کے دن گن رہے تھے کہ کب اسکول کھلیں گے لیکن ان کی سوچ میں فرق تھا ذیشان اسکول کھلنے کے انتظار میں تھا کہ اسکول کھلیں اور پڑھائی کا سلسلہ ہو جبکہ فیضان کو یہ پریشانی تھی ابھی ہوم ورک مکمل بھی نہیں ہوا اور چھٹیاں گزر گئیں جبکہ ذیشان نے اپنا ہوم ورک مکمل کر لیا تھا اسے اس حوالے سے اسے کوئی پریشان نہیں تھی ذیشان نے اپنے چھوٹے بھائی کی توجہ کئی مرتبہ اسکول کی جانب سے دیے جانے والے ہوم ورک کی دلائی کہ اپنا اسکول کا کام کر لو لیکن فیضان کو اپنی شرارتوں سے ہی فرصت نہیں تھی کہ وہ اس جانب توجہ دے اس نے اپنے بڑے بھائی کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کھیل کود اور شرارتوں میں اپنا وقت صرف کیا۔
انتخابات کے سلسلے میں اسکولوں کی تعطیلات کو چند دن کے لیے بڑھا دیا گیا جب سے چھٹیوں میں اضافے کا اعلان ہوا تو فیضان خوشی سے جھوم اٹھا جبکہ ذیشان افسردہ ہو گیا اس کی سوچ تھی کہ اس طرح چھٹیوں میں اضافے سے تعلیم کا حرج ہوتا ہے جو کہ نہیں ہونا چاہیے ذیشان نے فیضان سے کہا کہ پیارے بھائی تم بہت خوش ہو رہے ہو تم کو موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنے ہوم ورک پر توجہ دینا چاہیے اور جلد سے جلد کام کر لو تاکہ اسکول میں ملنے والی سزا سے بچ جائو ان کے امی اور ابو نے بھی فیضان کو سمجھایا کہ اگر آپ کا کام مکمل نہیں ہے تو فوری طور پر توجہ سے کام مکمل کر لو بلکہ یہ جو اضافی چھٹیاں مل گئیں ہیں اس کا فائدہ اٹھائو وقت بہت قیمتی چیز ہے اس کو گنوانا بہت بڑی حماقت ہے آپ کو چاہیے کہ اس سے گریز کریںفیضان نے اپنے ابو اور امی سے وعدہ تو کر لیا کہ وہ اسکول کھلنے سے پہلے کام مکمل کر لے گا لیکن عملی طور پر ایسا نہیں کر سکا جب اسکول کھلنے میں دو دن رہے گئے اور ذیشان اسکول جانے کے لیے اپنے اسکول بیگ تیار کرنے لگا تو فیضان کو فکر ہوئی کہ دو ہی دن رہے گئے ہیں اسکول جانے میں وہ فوری طور پر اپنے کام پر متوجہ ہوا لیکن جب اس نے جائزہ لیا تو کام بہت تھا اور وقت کم، وہ پریشان ہوا اور ذیشان سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا ذیشان نے کہا کہ تم نے کھیل کود اور اپنی شرارتوں میں وقت ضائع کر دیا کھویا ہوا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا اس کی قدر کرنا چاہیے ذیشان نے فیضان کو ہوم ورک کرانے میں مدد بھی کی لیکن مکمل نہیں ہو سکا۔
اسکول کھل گئے بچے اپنی کلاسوں میں موجود تھے کلاس ٹیچر نے بچوں سے ہوم ورک کے متعلق معلوم کرنا شروع کیا۔ کام مکمل کرنے والوں کو شاباش اور نامکمل بچوں کو سزا دی ذیشان شاباش پانے والے بچوں میں شامل تھا جبکہ فیضان ان بچوں کے ساتھ تھا جو سزا کے مستحق ٹھہرے۔
کلاس ٹیچر نے بچوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ بچے قابلِ مبارکبارد ہیں جنہوں نے وقت کی قدر کی اور یہ اپنا ہوم ورک کیا اپنی تعلیم پر توجہ دی اور سزا پانے والے بچوں کو سوچنا چاہیے کہ وقت کی ناقدری کتنا بڑا جرم ہے جس کی انہیں سزا ملی کلاس کے سب بچوں نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ وقت کی قدر کریں گے۔