دین مائینس سیاست

386

(تیسرا اورآخری حصہ)
ان بیان کردہ احکامات خداوندی کو اگر سامنے رکھا جائے تو خلاصہ کچھ یوں نکلتا ہے۔
1۔ ریاست کا ادارہ انسانی سماج کی ایک بنیادی ضرورت ہے اور اس کے بغیر منظم اجتمائی زندگی کا تصور مشکل ہے۔
2۔ اسلام انسان کی پوری زندگی کی لیے ہدایت ہے اور اس نے اجتماعی زندگی کی لیے بھی واضح رہنمائی فرمائی ہے۔
3۔ اسلام دین و سیاست میں کسی تفریق کا روادار نہیں۔ وہ پوری زندگی کو خدا کے قانون کے تابع کرنا چاہتا ہے اور اس مقصد کی لیے سیاست کو بھی اسلامی اصولوں پر مرتب کرتا ہے اور ریاست کو اسلام کے قیام اور اس کے استحکام کی لیے استعمال کرتا ہے۔
4۔ یہ روش دنیا اور آخرت دونوں میں عتاب الٰہی کی موجب ہے کہ کچھ احکام الٰہی کو تسلیم کر لیا جائے اور کچھ دوسرے احکام سے صرف نظر اور روگردانی اختیار کی جائے خواہ خواہش اور نفس کی اندرونی کیفیت کی بناپر یا کسی بیرونی دباؤ یا مرعوبیت کی وجہ سے۔
5۔ دین اور ریاست و حکومت کا اتنا قریبی تعلق ہے اور ایک دوسرے سے اس طرح وابستہ ہے کہ اگر ریاست و حکومت اسلام کے بغیر ہوں تو ظلم اور بے انصافی کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں چنگیزیت رو نما ہوتی ہے اور اگر اسلام ریاست و حکومت کے بغیر ہو تو اس کا ایک حصہ معطل ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ریاست کو اسلامی بنیادوں پر قائم کیا جائے۔ حکومت اسلام کی پابند ہو اور اس کے قیام و استحکام کی لیے سرگرم عمل رہے۔
علامہ اقبال کی سوچ و فکر کو میں آخری اور حتمی تو نہیں مانتا کیونکہ میں خیال کرتا ہوں کہ اسلام میں “سیاست” یعنی جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی، دروغ کوئی، بے ایمانی اور وحشت و بربریت کی ذرہ برابر بھی آمیزش نہیں۔ سیاست جس کا تعلق امور مملکت و ریاست کو چلانے سے ہے وہ آج کل کی دنیا میں انھیں ساری صفات بد کا حامل ہو کر رہ گیا ہے۔ اسلام نے جن جن اصولوں کو بیان کردیا ہے اور اللہ نے جن جن احکامات کا پابند ایک مسلمان کو کردیا ہے اس میں کوئی تبدیلی کی ہی نہیں جا سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے احکامات بدلا نہیں کرتے وہ اٹل ہوتے ہیں۔ وہ جو سیاست کا مفہوم “مصلحت” کے معنوں میں لیتے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن میں “سورہ کافرون” میں کیا کہا گیا ہے یہی ناں کہ اسلام کے احکامات میں کسی بھی قسم کے سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں۔ کافروں (تم کو) کو کافروں کا طور طریق مجھکو (مسلمانوں کو) ہمارا طور طریق یا اس کے علاوہ بھی اور کچھ کہا گیا ہے؟۔ جب صورت حال یہ ہو تو پھر میں پورے تیقن اور اطمنان کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ سیاست کا اسلام سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔ اس کے برعکس اسلام ایک مکمل دین ہے جس کو من و عن اسی طرح نافذ کرنا مسلمانوں پر فرض ہے جس طرح اس کے نافذ کئے جانے کا حق ہے وہ بھی بنا کسی سمجھوتہ و لچک کے۔
لفظ “دین” کوئی بہت عام سا لفظ نہیں۔ یہ اپنے اندر بہت جامعیت رکھتا ہے۔ بے شک اس کے عام معنیٰ مذہب، مسلک، دھرم اور ایمان ہی کے ہیں لیکن سب سے اہم جوبات ہے وہ یہ ہے کہ اس میں کسی بھی معاملے میں ذرہ برابر بھی کھوٹ نہیں ہے، کجی نہیں یا ٹیڑھ پن نہیں ہے بلکہ دین یہ ہے کہ جو اصول و قوائد طے کر لیے جائیں وہ ہر امیروغریب، چھوٹے بڑے اور عام و خاص کی لیے ہوں اور ان پر عمل درآمد نہایت دیانتداری اور بلالحاظ و امتیاز کیا جاتا ہو۔ اگر وضع کردہ اصولوں میں کہیں بھی اس کے حق سے ہٹ کر کام کیا جائے تو پھر وہاں دین ختم ہو جائے گا اور دین”چنگیزیت” کا روپ دھار لیگا۔
پوری دنیا میں یہی وہ اصول (دین) ہے جس پر چل کر دنیا جنت نظیر بنائی جا سکتی ہے یا پھرجہنم کا نمونہ ۔ یہاں اگر ہم تھوڑی دیر کی لیے اسلام سے صرف نظر کرتے ہوئے اس بات کا جائزہ لیں کہ دنیا میں زیادہ امن، خوشحالی اور انسانوں کوزیادہ خوش اور مطمئن کہاں دیکھ رہے ہیں اور کہاں وحشت و بربریت نظر آرہی ہے تو اس بات کو سمجھ لینے میں کچھ تامل نہ ہوگا کہ جہاں لوگوں نے اپنے ہی بنائے ہوئے اصول و قوائد پر سختی سے عمل کیا ہوا ہے وہاں تو چہارسو اطمنان و سکون کی حکمرانی ہے لیکن جہاں جہاں یا تو اصول و قوائد وضع ہی نہیں کئے ہوئے ہیں یا اصول و قوائد بنائے ہوئے تو ہیں لیکن ان پر عمل ہی نہیں کیا جاتا یا کیا تو جاتا ہے لیکن امتیاز و لحاظ کے ساتھ کیا جاتا ہے وہاں بے سکونی ، ابتری، افرات و تفریت اور نفرت و بدنظمی کا راج ہے اور زندگی جہنم کا نمونہ بنی ہوئی ہے۔
سورت العصر میں پورے گروہ انسانی کو دو واضح دھڑوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک دھڑا وہ ہے جو سراسر خسارے میں ہے اور دوسرا دھڑا وہ ہے جو خسارے میں نہیں ہے۔ جو خسارے میں نہیں ہیں وہ ایمان والے ہیں، ان کے سارے کے سارے اعمال صالح اور نیک ہیں، وہ نیک اعمال و افکار اپنانے کی مسلسل تاکید کرتے رہتے ہیں اور اپنے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے والوں پر آنے والی ہر آزمائش پر صبر کی تاکید بھی کرتے ہیں اور خود بھی صبر اور استحکام کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ گویا ثابت ہوا کہ انسانوں کے گروہ دو ہی ہیں مگر خسارہ نہ اٹھانے ولالا وہی ہے جس نے اپنے آپ کو خود اچھا رکھنے اور اوروں کو بھی اچھائی پر قائم رکھنے پر کمربستہ ہے۔ باالفاظ دیگر ایک گروہ “دین” پر قائم ہے اور دوسرا گروہ “چنگیزیت” پر ڈتا ہوا ہے۔
یہاں اس بات کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے کہ آخر “دین” کس طرح چنگیزیت کا روپ دھار لیتا ہے۔ اس کو سمجھنا بہت ہی آسان ہے۔ اگر لوگ حق پر قائم ہیں اور اپنے ذاتی اور اجتمائی معاملات میں احکامی الٰہی کے پابند ہیں تو گویا وہ لوگ اور وہ معاشرہ “دین” پر ہے لیکن اگر وہ اس کے برعکس اپنی ذاتی یا اجتمائی زندگی گزار رہے ہیں تو وہ بہر صورت چنگیزیت کے علاوہ کچھ نہیں۔ سچ دین ہے، جھوٹ چنگیزیت ہے، اخلاق دین ہے بداخلاقی چنگیزیت ہے، کسی سے محبت سے ملنا دین ہے، دل میں میل رکھ کر ملنا چنگیزیت ہے، پورا تولنا دین ہے اور ڈنڈی مارنا چنگیزیت ہے۔ عدل دین ہے اور ظلم چنگیزیت ہے۔ اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق اپنی زندگی گزارنا دین ہے اور طاغوت کی پیروی کرنا چنگیزیت ہے۔ یہی امور ذاتی ہوں تب بھی یا اجتماعی ہوں تب بھی، دین وہی ہے جس کے گزارنے کے طور طریق اللہ اور اس کے رسول (ص) نے بتائے ہیں اور وہ زندگی، اجتماعی و انفرادی، جو اللہ اور اس کے رسول (ص) کے احکامات کے بر خلاف گزرے یا گزاری جائے چنگیزیت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
اگرکوئی بھی حکومت اور اس کا حکمران عدل سے کام نہیں لیگا، انصاف میں امتیاز و لحاظ رکھے گا، اپنے عوام کی فلاح و بہبود کا خیال نہیں رکھے گا۔ ان کی حفاظت اور ان عزت و آبرو کا محافظ نہیں ہوگا تو وہ کس طرح ایک خوش حال ریاست کا حکمران کہلائے گا۔
حکومت تو بڑے بڑے فرعونوں اور شیطانوں نے چلائی ہے۔ بڑے بڑے جابر اور ظالم بادشاہ انسانوں پر حکومت کرتے رہیں ہیں لیکن تاریخ نے کبھی انھیں اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا ہے کیونکہ ان کی حکومت انسانوں کے جسموں پر تو رہی ہے ان کے سینوں مین دھڑکنے والے دلوں میں وہ حکومت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کیوں؟، اس لیے کہ چنگیزیت کیونکہ اپنی خواہش نفس سے آگے کی سوچ ہی نہیں رکھتی اس لیے اس کے اقتدار کے نزدیک کسی کی بھی عزت و توقیر کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی۔
جس دین سے اخلاق، کردار، شرافت، سچ، وفاداری، ایمان، یقین، اللہ کا خوف، عدل، عوام کی فلاح و بہبود، اپنے آپ کو اللہ کے آگے جواب دہ ہونے کا تصور اور اقتدار کی طاقت و قدرت ، جس کو علامی محمد اقبال (رح) نے “سیاست” کا نام دیا ہے، نکل جائے تو آپ خود ہی سوچ لیں کہ اس میں “چنگیزیت” کے علاوہ اور کیا باقی رہ جائے گا۔
ہم پوری دنیا کا کا جائزہ لیں تو دنیا کا امن و سکون وہاں وہاں کسی حد تک نظر آئے گا جہاں جہاں اللہ کے احکامات کے مطابق قوانین بنائے گئے ہیں اور ان پر اسی طرح عمل بھی کیا جارہا ہے خواہ وہ ممالک کافروں اور ملحدوں کے ہی کیوں نہ ہوں اور وہ سارے ممالک جہاں کے عوام اور صاحب اقتدار و اختیار افراد اللہ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ قوانین پر عمل کرنے کی لیے تیار و آمادہ ہی نہ ہوں وہاں فتنہ و فساد کے علاوہ اور کچھ بھی نظر نہیں آرہا ہوگا۔ اسی لیے اقبال اپنے ہی کئے گئے شکوے :

قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملے حور و قصور
اور بے چارے مسلماں کو فقط وعدہ حور
پر شرمندہ ہو کر جواب شکوہ میں فرماتے ہیں
کیا کہا بہر مسلماں ہے فقط وعدہ حور
شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
عدل ہے فاطر ہستی کا ازل سے دستور
مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور
تم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں
جلوہ طور تو موجود ہے موسیٰ ہی نہیں

جنت اور دوزخ کے فیصلے تو قیامت کے روز ہونگے اور وہاں ہر انسان اپنی اپنی ذمہ داریوں کی کارکردگیوں کی بنیادپر جزا و سزا کا مستحق ہوگا لیکن دنیا میں بھی ہر فرد و ملت و ریاست کو اس بنیاد پر امن و سکون و اطمنان نصیب ہوگا کہ وہ اپنے قوانین، آئین اور دساتیر کو اللہ کے مقرر کردی حدود کے مطابق بناتا ہے اور ان پر خود بھی عمل کرتا ہے اور معاشرے کو بھی پابند کرتا ہے یا محض اللہ سے بغاوت پرہی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ ہم میں سے ہر فرد کو چاہیے کہ وہ دنیا کی بد حالی و خوشحالی پر غور کرے اور پھر خود ہی اپنے دل اور ضمیر کو قائل کرے کہ وہ کس گروہ میں ہے اور کیوں ہے۔ خسارے والے (چنگیزی والے) میں ہے یا ایمان و یقین والوں میں۔ جب وہ اس پر غور کریگا تو اپنی ناکامی و کامیابی کا سبب بھی اسے خود ہی سمجھ میں آجائے گا۔

حصہ