پچیس جولائی ، یومِ حساب

295

تنویراللہ خان
گزشتہ پچاس برسوںسے پیپلز پارٹی اور ستر برس سے مسلم لیگ مختلف شکلوں میں برسراقتدار رہی ہیں، ان جماعتوں کا کوئی نمائندہ اگر وزیراعظم یا وزیراعلی کی کرسی پر براہ راست نہ ہو تو بھی یہ اپنے مقرر کیے ہوئے وفادار سرکاری ملازمین کے ذریعے اقتدار میں ساجھے دارضروررہتی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے بانی جناب ذوالفقاربھٹو نے روٹی کپڑا مکان کا خواب دکھایا اور بغیر منصوبہ بندی چند ایک روٹی پلانٹ روٹی کارپوریشن آف پاکستان (RCP) بھی لگائے لیکن عوام کو روٹی پھر بھی نہ مل سکی اور روٹی پلانٹ آج بھی کھنڈر بنے عوام کا منہ چڑا رہے ہیں جب کہ بقیہ دو وعدوں پر کام کی کوئی علامت زمین پر نظر نہیں آتی، بعد کی پیپلزپارٹی نے عوام کوزندگی کا سامان فراہم کرنے کے بجائے سارا زوربھٹو کو زندہ رکھنے پر لگایا ہوا ہے۔
ایسا ہی حال مسلم لیگ کا رہا انھوں نے کوئی ایسا بڑا نعرہ یا وعدہ کرنے کی کوشش بھی نہیں کی بلکہ دوسروں کے کیے کام پر جھنڈے گاڑنے کو ہی کافی سمجھا اور فضول تقریروں سے ہی عوام کا دل بہلاتے رہے۔
کراچی میں الطاف حسین کو جیسا مطلق، بے لگام، بے حیا، اندھا حکومتی، عوامی اختیار و اقتدار ملا اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
جناب عمران خان سے توقع تھی کہ وہ ان سے مختلف ہوں گے لیکن وہ بھی وہی کچھ کررہے ہیں جو پہلے سے موجود سیاست دان کرتے رہے ہیں، جتنی غلاظت اب تک کے حکمرانوں نے کل ملا کر کھائی اور پھیلائی ہے عمران خان آنے والے الیکشن کو جتنے کے لیے گند کھانے اور پھیلانے میں ان سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے لیکن نہ جانے کیوں جناب عمران خان کا اصرار ہے کہ اُنھیں سب سے مختلف سمجھا جائے، نہ ان کی زبان اچھی، نہ ان کا کردار اچھا، عمرے کے لیے وہ بھی اوروں کی طرح اپنا جہاز لے کر جاتے ہیں، بہت بہادر سمجھے جاتے ہیں لیکن جب تک ایم کیو ایم کراچی پر راج کرتی رہی عمران نے کراچی کی طرف دیکھا بھی نہیں، اُن کی ایک واحد اچھی برائی یہ ہے کہ اُنھوں نے نوازشریف کا اصل اس طرح دکھایا ہے کہ عوام اور ادارے سوچنے اور کچھ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں لہٰذا عمران کو مستقبل میں بھی حکومت کرنے کے بجائے حکمرانوں کی چوکی داری ہی کرنی چاہیے، یہی کام ان پر جچتا ہے۔
آج کی پیپلزپارٹی جو دراصل زدراری صاحب کا نک نیم ہے، زرداری صاحب نہ شکل سے نہ عقل سے نہ اپنی باتوں سے حکمران کہنے کے لائق ہیں، جو آدمی وعدے کو زبان کی ناجائز اولاد سمجھتا ہو وہ کسی بھی طرح لیڈر کہلائے جانے کا حق دار نہیں ہے، لیڈر کے پاس زبانی وعدوں اور خواب دکھانے کے سوا اور ہوتا ہی کیا ہے؟ْ زرداری صاحب کے بارے میں سنا تھا کہ وہ سگریٹ بھی مانگ کر پیتے تھے آج ان کا شمار دنیا کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے اس کا حساب ریاستی اداروں کے سر بھی آتا ہے، جب چند ہزار کی چوری حکومتی اداروں کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتی تو اربوں روپے کے ڈاکے ڈالنے والے اب تک کیوں بچے رہے ہیں۔
ایک زمانے میں سندھ میں بچوں، خواتین اور سید کا اس قدراحترام تھا کہ ڈاکو بھی ایسی گاڑی کو چھوڑ دیتے تھے جس میں ان تینوں میں سے کوئی سوار ہوتا تھا آج پیپلزپارٹی کی فریال تالپور جس کا بے نظیر صاحبہ سے بیر یعنی نند کا رشتہ ہے وہ مرحومہ بی بی کا نام لے لے کر اپنے ہی ووٹرز کو دھمکیاں دیتی ہے،کوئی کتنا ہی بڑا چور ڈاکو کیوں نہ ہو وہ اپنی ماں بہن بیٹی کواپنے دھندے سے دور رکھتا تھا آج ہمارے لیڈاران میں سے کسی نے اپنی بہن کو اور کسی نے اپنی بیٹی کو سیاسی دھندے بازی پر لگایا ہوا ہے، سیاست میں ایسا کیا ہے کہ ٹبر کا ٹبر دل وجان سے اس پر فریفتہ ہے اگر انہیں عوام کی خدمت کا اتنا ہی شوق ہے تو وہ جب حکومت میں نہیں ہوتے تو عوام کو کیوں بھول جاتے ہیں؟ اس وقت وہ اپنی جائیدادیں بیچ کر یا دنیا کے سامنے جھولی پھیلا کر عوام کی مدد کیوں نہیں کرتے؟ْْ
سوائے جماعت اسلامی کے پاکستان میں کوئی ایک بھی جماعت سیاسی کہلانے کے لائق نہیں ہے، تمام جماعتوں میں سربراھی وراثتی ہے،کسی جماعت میں کوئی حقیقی مشاورتی ادراہ نہیں ہے، کسی جماعت میں احتساب کا کوئی شائبہ تک بھی نہیں ہے۔
عدلیہ، انتظامیہ، فوج میں داخلے کا کوئی نہ کوئی نظام موجود ہے جس کی پابندی بھی کی جاتی ہے لیکن سیاست ایک واحد شعبہ ہے جس کے کوئی اصول ضوابط ہی نہیں ہیں، الیکشن کمیشن کا کام صرف اتنا ہی نظر آتا ہے کہ وہ الیکشن کے سامان کی ترسیل کرتے ہیں اور وہاں عملہ بٹھا دیتے ہیں اور بس! الیکشن جیتنے کے لیے کون جھوٹے اور ناقابل عمل وعدے کررہا ہے اس کا کوئی حساب نہیں ہے۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کو کو ئی نیا انتخابی منشور دینے کا حق نہیں ہے، ان جماعتوں سے حساب لینا چاہیے کہ کہ اب تک انھوں نے جو وعدے اور دعوے کیے تھے کئی کئی باریاں لے کر وہ کس حد تک پورے کیے جو آئندہ پانچ برس کی حکومت لے کر کردیں گے۔
پیپلزپارٹی نا اہلی اور مالی بدعنوانی کا دوسرا نام ہے لیکن وہ بھی ڈھٹائی کے ساتھ پچھلے حساب کے بجائے اگلی حکومت مانگ رہی ہے۔
ریاستی سطح پر کوئی ایسا میکنزم ہونا چاہیے کہ لیڈاران الیکشن کے لیے جو وعدے کررہے ہیں اُن سے پوچھاجائے کہ وہ ان وعدوں کو کیسے پورا کریں گے یہی سوال اکثر لیڈاران کو جھوٹا ثابت کردے گا اور صادق اور امین کے کسوٹی پر وہ کھوٹے ثابت ہوں گے۔
بعض لوگ مسلسل الیکشن کو تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں ممکن ہے ایسا ہی ہو، لیکن جب تک گاڑی کا رخ منزل کی طرف نہیں ہوگا اس وقت تک سفر منزل سے قریب کرنے کے بجائے دور کرے گا، اب تک کے الیکشن کا یہی نتیجہ ہے کہ پیپلزپارٹی اپنی تمام تر بدعنوانیوں اور نااہیلوں کے باوجود سندھ میں الیکشن وننگ پارٹی ہے، مسلم لیگ خواہ وہ ن ہو یا ق ہو یا ج ہو وہ اپنے تمام تر لوٹے پن اور لوٹ مار کے بعد بھی پنجاب میں جیتتی ہے ۔
ان جماعتوں کے لیے پچیس جولائی یومِ انتخاب کے بجائے یوم حساب ہونا چاہیے، مسلم لیگ، پیپلزپارٹی، ایم کیوایم کو مستقبل کے سہانے خواب دکھانے کے بجائے اپنے طویل اقتدار کا حساب دینا چاہیے، عوام کو بھی ان جماعتوں سے مستقبل کے وعدوں کے بجائے ماضی کا حساب لینا چاہیے۔
’’فلاں جماعت ہی جیتے گی‘‘ اور فلاں جماعت ’’جیت ہی نہیں سکتی،، کے پروپیگنڈے سے اداروں خصوصاً میڈیا کو روکنا چاہیے ہمارا ووٹر اسی طرح کی باتوں سے متاثر ہوتا ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ جواچھا اور اہل ہو ووٹ اُسے دیا جائے لیکن ہمارا ووٹر ووٹ اُسے دینا چاہتا ہے جو جیتتا نظر آرہا ہو، لہٰذا الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ میڈیا کو پابند کرے کہ وہ جماعتوں اور ان کے نمائندوں کا تعارف اور ان کے منشور سے عوام کو ضرور آگاہ کریں لیکن کسی جماعت کے حق یا مخالفت میں ذہن سازی نہ کرے، میڈیا کا جماعتوں کے حق یا مخالفت میں ذہن سازی عوام کے جمہوری حق کو مارنا ہے لہٰذا یہ بھی قبل از الیکشن دھاندلی ہے۔

کتاب کے نظام کا جہاں کو انتظار ہے

پروفیسر عنایت علی خان

کتاب کے نظام کا جہاں کو انتظار ہے
خزاں کے دور میں کتاب ضامنِ بہار ہے
اٹھو! اٹھو! قدم بڑھائو وقتِ کارزار ہے
کتاب پر لگائو مہر وقت کی پکار ہے
اٹھو اٹھو قدم بڑھائو وقت کی پکار ہے
کتاب پر لگائو مہر وقت کی پکار ہے

جہالتوں کے دور میں کتاب کام آئے گی
یہ ظلم کی فضائوں میں نظامِ امن لائے گی
یہ ظلمتوں کی رات میں پیامِ صبح لائے گی
خزاں رسید باغ میں بہار بن کے چھائے گی
اٹھو اٹھو قدم بڑھائو وقتِ کارزار ہے
کتاب پر لگائو مہر وقت کی پکار ہے

یہ ایک بار پھر وہی نظامِ عدل لائے گی
یہ ظالموں کے جبر سے تمہاری جاں چھڑائے گی
یہ امن اور امان کا پیام لے کے آئے گی
نظامِ مصطفیؐ کی شان آج پھر دکھائے گی
اٹھو اٹھو قدم بڑھائو وقتِ کارزار ہے
کتاب پر لگائو مہر وقت کی پکار ہے

جو چاہتے ہو غاصبوں کا اقتدار ختم ہو
یہ ظالموں کا، ڈاکوئوں کا اختیار ختم ہو
کرپشن اور سود کا یہ کاروبار ختم ہو
جو آئی ایم ایف پر ہے انحصار، ختم ہو
اٹھو اٹھو قدم بڑھائو وقتِ کارزار ہے
کتاب پر لگائو مہر وقت کی پکار ہے
٭٭٭

حصہ