قاضی مظہر الدین طارق
جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے
باغ تو سارا ، جانے ہے !
انسان اس زمین پراپنا مکمل اختیار رکھتا ہے ؛یہاں کے مادّوں پر یہاں کے’انرجیز‘ پر؛کوئی جنّ ،کوئی فرشتہ اور کوئی زمین کی مخلوق اس کے مادّوںیا توانائیوں کو نہ جمع کرتے نہ استعمال کرتے ہیں،سوا اس کے کہ زندہ رہنے کے لئے کچھ چَرچُگ لیں۔
…………
انسان اس کائنات سب سے اَہم،سب سے اعلیٰ اور سب سے بااِختیار مخلوق ہے؛مزید یہ کہ اِس کواس زمین پر رہتے ہوئے صدیاں گزر گئیں مگر وہ اب تک نہیں جان سکاکہ زندگی کی ابتداء کیسے ہوئی ؟بلکہ یہ بھی نہ جان سکا کہ کائنات کی ابتداء کیسے ہوئی؟
…………
اللہ خالق اور ربِّ کائنات نے قرآن میں پندرہ سو سال پہلے انسان تھاکہ ، ’’معلوم کرو کہ میں نے تخلیق کی ابتداء کیسے کی؟پھر تم کو یقین آجائے گا کہ میں اس کو دوبارہ بھی بنا سکتا ہوں۔‘‘یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ ، ’’عنقریب میںتم کو اس کی نشانیاں آسمانوں میں اور تمہارے اپنے اندرواضح کردوں گا،پھر تم کو حق پر یقین آجائے گا۔‘‘مندرجہ بالا شعر میں گُل کون ہے؟یہ مسلم اُمّہ ہے جس کے پاس قرآن ہے۔اس کا علم نہ رکھنے والے اس سوال و جواب کی اہمیّت کو جانتے ہیں،اس جواب کو حاصل کرنے کی کم از کم کوشش تو کر ہی رہے ہیں جبکہ مسلم اُمّہ بحیثیّتِ مجموعی سو رہی ہے۔
…………
مگربقول آنجہانی اسٹیفن ہاکنگ کے، ’’ہم صرف یہ بتا سکتے ہیں کہ اس کائنات اور اس میں زندگی کا اِرتقا کیسے ہوا؟اس کی ابتدا کیسے ہوئی ؟اس بارے میں ابھی کچھ معلوم نہیں۔‘‘
…………
آئیے! دیکھتے ہیں کہ زندگی ہے کیا ؟اس کا ایک تو بہت ہی آسان جواب ہے،چہکنے والی چڑیا زندہ ہے اور پڑی رہنے والی چٹان زندہ نہیں۔سب سائنسدان متفق ہیں کہ جو شئے زندہ ہے وہ یہ یہ کام کرسکتی ہے:وہ حجم میں بڑی یا پیچیدہ ہوتی جاتی ہے؛یہ اپنے جیسے پیدا کرتی ہے؛زندہ رہنے کے لئے کھاتی پیتی ہے؛فاضل مادّوں کو جسم سے خارج کرتی ہے؛اورباہر کے ماحول کا اثر لیتی ہے،جیسے گرمی سردی،دباؤ ،دھوپ اور روشنی وغیرہ۔
…………
اب دیکھتے ہیں کہ زندگی کی کتنی قسمیں ہیں؟کیسی کیسی رنگینیاںہیں؟ حیاتیات کے علم والے پہلے اِس بنیاد پر حیات کو تقسیم کرتے ہیں کہ یہ توانائی کیسے حاصل کرتی ہے۔ان کی دوبنیادی اقسام ہیں:
۱۔الجی،سبزپودے اور کچھ بیکٹیریا ؛سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرتے ہیں؛خود اپنے اور دوسروں کے لئے غذا بناتے ہیں۔
۲۔ ہم انسان،جانور،فنگس اور کچھ آرکِیہ کیمیائی مادّوں سے اور اوپر والوں کی بنائی ہوئی غذاسے توانائی حاصل کرتے ہیں،ہمارا نظامِ ہضم (یعنی کیمیائی طریقہ سے غذا کوتقسیم در تقسیم کرکے خون کے حوالے کرتا ہے)خون اس کو ہر خَلیے تک پہنچاتا ہے جو اِس کو آکسیجن کی مدد سے جلا کر کیمیائی توانائی حاصل کرتا ہے ا ور اپنے اپنے کام کرتا ہے۔
…………
زمین،پانی اور ہوا میں یہ حیات تو پائی ہی جاتی ہے، مگرزندگی ایسی ایسی جگہ بھی ملتی ہے ،جس جگہ ہم عام طورپرزندگی کا تصوربھی نہیں کرسکتے ہیں؛ سمندر کی انتہائی گہرائیوں میں،زمین کی چٹانوں میںسطح زمین سے میلوں نیچے، ٹھوس برف کے اندر اور دوسرے انتہائی گرم و سرد، سخت دبائو والے، روشنی یا آکسیجن سے ناپید خطّوںمیں بھی زندگی کی نیرنگیاں پائی جاتی ہیں اور پھل پھول رہی ہیں ۔یہ براہِ راست اپنے اطراف پائے جا نے والے کیمیائی مادّوں سے توانائی حاصل کرتے ہیں،یہاں بہت مختلف اور عجیب و غریب قسم کی مخلوقات ہیں،جن کے لئے ایسی جگہ بھی اللہ خیرالرَّازِق(بہترین رزق دینے والے)نے اِن کے لئے رِزْق کا انتظام کرتا ہے،کیوںکہ وہ ربُّ العٰلمین ہے۔
…………
حیات کے کتنے رنگ ہیں؟اس کو سمجھنے کے لئے ہم کو پہلے رنگ کے سادہ ترین؛ بکٹیرئم کا مطالعہ کرنے سے مددمل سکتی ہے۔ایک اکیلا سادہ جراثیم اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ ایک نکتے میں کم از کم پانچ سو سما سکتے ہیں۔ہم اِن کو سادہ ترین مخلوق کی حیثیت سے جانتے ہیں،نہ اِن کے چلنے پھرنے کے کوئی اعضا ہوتے ہیں،نہ پتّے نہ پھل ،نہ ہی پھیپھڑا،جگر،دل یا دماغ ہوتا ہے۔اس سب کے باوجود یہ ؛کھاتے پیتے ہیں، فاضل فضلے باہر نکالتے ہیں،نشونما پاتے ہیں، اپنی نسل بڑھاتے ہیںاور اپنے ماحول کا اثر لیتے ہیں۔تو یہ زندگی کی تعریف مکمل پورے اُترتے ہیں،یہ زندہ ہیں، جیسے ہم زندہ ہیں ۔
…………
ایک بڑا سوال ہے کہ وہ چیز کیاہے جو زندہ رکھتی ہے؟یہ اور بھی دشوار معاملہ ہو جاتا ہے جب سائنسدان ’وائرس‘ کو دیکھتے ہیں،وہ ’وائرس‘جوبیماریوں کا باعث بنتے ہیں،جیسے نزلہ،چیچک وغیرہ۔وائرس کا جسم مکمل خَلیہ نہیں ہے،اس لئے ان میں خوداپنے بل پر کیمیائی مادّوں کو توانائی میں تبدیل کرنے اور نسل بڑھانے کی صلاحیت نہیں ہے،جس کے لئے یہ مجبور ہوتے ہیں کہ کسی زندہ خَلیہ میں داخل ہوکرہی یہ کام کریں،مگر جب یہ کسی خَلئے(سَیل) میں داخل ہو جاتے ہیں،تو زندگی کا رنگ مکمل کر دیتے ہیں ۔یہ بیکٹیریاسے بھی سو گنا چھوٹے ہوتے ہیں،ان کو دیکھنے کے واسطے، بہت بڑا کرکے دیکھانے والے قوی ’الیکٹران مائیکروسکوپ‘ کی ضرورت پڑتی ہے۔
…………
زمین پر حیات کو حیاتیاتی سائنسدان،ان کے دائرۂ اثر کے لحاظ سے تین قلمرووں میں تقسیم کرتے ہیں۔
پہلا؛بیکٹیریا۔ دوسرا؛آرکِیہ۔تیسرا؛یوکارِیا۔
’بیکٹیریا‘ اور’ آرکِیہ‘ کے مرکزے(نیوکلائی) نہیں ہوتے،مگر یہ دو بھی ایک دوسرے سے اتنے مختلف ہوتے ہیںکہ الگ الگ قلمرو ہیں۔جبکہ ’یوکارِیا‘ میں مرکزے پائے جاتے ہیں۔ان میں’ سنگل سیلیولر‘ بھی ہیں اور ہم سمیت سب’ ملٹی سیلیولر‘حیات کی بنیادی اکائی(یونٹ) بھی ہیں۔
۱۔قلمرو ’بیکٹیریا‘؛ یہ واحد خَلوی ’مائیکروسکُوپِک ‘حیات ہے،یہ دنیا میں ہر جگہ موجوداور بہت ہی چھوٹی ہوتی ہے ، اِن کے مرکزے(نیوکلیئس) نہیں ہوتے۔ ان کی اَشکال؛ گیند نما،اِسپرینگ نما اور چھڑی نما ہوتی ہیں۔ان میں انسان کو فائدہ پہنچانے والے بھی ہیں اور نقصان بھی۔
۲۔قلمرو’آرکِیہ‘؛ یہ بھی واحد خَلوِی’خُردبینی‘ حیات ہے،ان کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ سخت ترین ماحول میں زندہ رہتے ہیں، جہاں کوئی دوسری حیات زندہ نہیں رہ سکتی۔ ان کے بھی مرکزے نہیں ہوتے مگران کے کچھ ’جنوم‘(جینز) یوکارِیا‘ سے بھی ملتے ہیں۔اس وجہ سے حیاتیاتی سائنسدان یہ سمجھتے ہیں کہ آج بھی پائے جانے والے ’آرکِیہ‘زمین پر آنے والی سب سے قدیم حیات میں سے ایک ہے۔
۳۔قلمرو ’یوکارِیا‘؛ ان کے بہت مختلف ،متنوع اور متعد گروہ پائے جاتے ہیں۔یہ بیکٹیرِیہ اور آرکِیہ کی نسبت نہایت پیچیدہ ہوتے ہیں۔اِن ننھے خَلیوں(سَیلز) سے مل کر ہم سمیت سب جانداروں کے اجسام کی بنیادی اکائی(یونٹ) بنتے ہیں۔یہ چار گروپس میں تقسم کیئے جاتے ہیں؛ ۱۔ پروٹِس ٹِس،۲۔فنجی،۳۔نباتی اور۴۔ حیوانی۔
۱۔’پروٹِس ٹِس‘ کی لاکھوں قسمیں ہیں۔اِن کے متعد اور متنوع گروہ ہیںجو ’سنگل سَلیولر‘ اور’ ملٹی سَلیولر‘ حیات میں موجود ہیں۔
۲۔’فنجی‘ کی ایک لاکھ نسلیں(سپیشیز) ہیں۔جواکثر’ ملٹی سَلیولر‘ہوتے ہیں،یہ بھی حیوان کی طرح اپنی غذاخود نہیں تیار کر سکتے ہیں۔مشروم،پھپوندی اور خمیر(ییسٹ) اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔
۳۔’نباتی‘ کی تقریباً تین لاکھ نسلیں (سپیشیز)ہیں۔جو اکثر’ ملٹی سَلیولر‘ ہوتے ہیں،یہ ’فوٹوسنتھی سس‘ کے ذریعہ اپنی غذا خود بناتیں ہیں۔
۱۔ پروٹِس ٹِس ۲۔ فنجائی ۳۔ نباتاتی ۴۔ حیوانی
۴۔’حیوانی‘کی دس لاکھ نسلیں(سپیشیز)ہیں۔زیادہ تر جاندارجو ’ملٹی سَلیولر‘ ہو تے ہیںاور ان کے اپنے نظامِ اعضا ہوتے ہیں،یہ بھی اپنی غذا خود نہیں تیّار کر سکتے ۔
…………
توجہ فرمائیے!خالقِ اَرض و سما نے صرف زمین پرکتنی متعدد،متنوع اور مختلف اقسام کے رنگوں کی نسلیں(سپیشیز) پیدا کیں ہیں ،ان سب کو ایک دوسرے کابہترین رِزق بھی بنایا ہے، لیکن ایسے نَپے تُلے حساب کتاب سے کہ نہ کھانے والے بھوک مرتے ہیں(اِلّا بِمَاشَاء) نہ کھائے جانے والوں کی نسل ختم ہوتی ہے۔
غور و فکرکا مقام ہے ،کیا!ایسا باریک بین اورکسی عیب اور غَلَطی سے پاک حساب کتاب’اللہ ّ سُبحٰنہ ٗو تعالیٰ‘ کے سوا کوئی کرسکتا ہے؟