وقت ہے انتخاب کا

439

افشاں نوید
ایڈووکیٹ ہیں پیشے کے اعتبار سے، بہت ملنسار، پرانی واقف کار… فون آیا کچھ روز قبل کہ آپ کی مدد درکار ہے۔ میں نے کہا: زہے نصیب آپ کے کسی کام آسکوں۔
بولیں: ہم دو خاندان ساتھ رہتے ہیں، دس افراد ہیں، چاہتی ہوں ہم سب قرآن وحدیث کا باضابطہ علم کسی معلم سے گھر پر حاصل کریں… پہلے علوم القرآن، اگلے مرحلے میں علوم الحدیث۔
میں نے پوچھا: گھر پر آنے والے استاد کو کیا معاوضہ دے سکیں گی؟
فوراً بولیں: آخر اے لیول اور او لیول کے لیے بھاری معاوضے پر استاد رکھتے ہیں تو یہ تو اصل ’’العلم‘‘ ہے۔ آپ بندوبست کردیں، مناسب معاوضہ عندالطلب دینے کی کوشش کریں گے۔
میں نے کہا: جلد رابطہ کرکے جواب دوں گی۔
بولیں: تاخیر نہ کیجیے گا، بچوں کا مشکل سے ذہن بنا ہے۔ کالج، یونیورسٹی میں پڑھنے والے بچوں کی ترجیحات میں ان علوم کو شامل کرانا ایک کارِ دارد تھا، الحمدللہ اب ذہن بن پایا ہے کہ یہ علم سب سے ناگزیر ہے، وقت نکالنا پڑے گا۔
میں نے پوچھا کہ آن لائن کلاس کا آپشن ہے؟
بولیں: استاد سامنے ہوں، ہم سوال جواب کرسکیں،آن لائن میں بچوں کی وہ توجہ نہ بن سکے گی۔
فون بند کرکے میں سوچنے لگی: آج کے والدین انگلش، ریاضی، ای کیٹ، ایم کیٹ، اے لیول اور او لیول کے لیے استاد تلاش کرتے ہیں، پہلی ماں دیکھی جو علوم القرآن کے لیے ٹیوٹر کی تلاش میں ہے!!
ہاں یاد آیا، ہماری ایک ساتھی جو ریاض سے آئی ہیں کئی برس بعد، انھوں نے اپنے بچوں کے لیے اسلامی تاریخ اور فارسی کے علیحدہ استاد رکھے، اور وجہ یہ بتائی کہ فارسی سے نابلد ہونے کے باعث ہماری نسلیں اکابرین کی فکری کاوشوں سے استفادہ ہی نہ کرسکیں گی، جی چاہتا ہے میرے بچے اقبال کا فارسی کلام فرفر پڑھیں۔
کیا انمول خواہش تھی!!!
مقام تفکر ہے کہ ہم نے بھی سولہ برس ان تعلیمی اداروں کو دیے، ہمارے بچے 19 برس دے رہے ہیں، کیونکہ وہ پہلی جماعت سے قبل بھی تین جماعتیں پڑھتے ہیں۔
کیا زندگی کے 19 قیمتی برس تعلیمی ادارے کو دینے والے بچے کا حق نہ تھا کہ اس کوکبھی تو قرآن کی دنیا سے متعارف کرایا جاتا، صحاح ستہ سے اس کی شناسائی ہوتی۔
سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو عظیم ذخیرۂ کتب ہے کبھی کسی لائبریری کا وزٹ ہی کرایا ہوتا،کبھی تو رومیؒ، جامیؒ، غزالیؒ کی صحبتوں میں لے جایا جاتا۔
وہ بھی جانتاکہ ابن عربی اور فارابی کون تھے۔
گلستان وبوستان سے کچھ خوشبو اس کے حصے میں بھی آتی۔
صرف وہ کیوں جو عربی مضامین کو اختیار کریں… یہ تعلیم ہر مسلمان بچے کے لیے لازمی ہو۔
ہر بچے کو اقبالیات کا لازمی مضمون پڑھایا جاتا…آخر بیس برس ایک مسلمان بچے نے اپنے ملک کے تعلیمی ادارے کو دیے ہیں۔ ذہن سازی تو یہیں ہوگئی… جیسا چاہا ذہن بنادیا گیا۔
کیوں نہیں بدلا جاسکتا یہ نظام تعلیم…
ہم انتخابات کے موقع پر بات کررہے ہیں کہ ان کو منتخب کریں گے جو بجلی، پانی فراہم کریں گے، کچرے کے ڈھیر صاف کرائیں گے، ٹوٹی سڑکوں کی مرمت کرائیں گے…
جبکہ ہمیں ایسے حکمران چاہئیں جو نظام تعلیم کو بدل دیں، لارڈ میکالے کے نظام تعلیم سے ہماری گردن چھڑا دیں… ایسا نظام تعلیم دیں جو غلام ابن غلام نہیں بلکہ قائدانہ صلاحیتوں کے حامل باکردار جوان پیدا کرے…
جو کتاب سے رشتہ جوڑیں، الکتاب سے رشتہ جوڑیں…
پھر کیا 25 جولائی کو ہم انتخاب کریں گے کتاب کا…اپنی آئندہ نسلوں کو بچانے کے لیے…
……………………………
یہ کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں!!!!
آج کل دن میں کئی بار فلوٹ ہمارے علاقے میں گشت کرتا ہے، ترانے گونجتے ہیں:
دلوں کو چین آئے گا نورِ لاالٰہ سے
یہ دیس جگمگائے کا نورِ لاالٰہ سے
اس خواب کی تعبیر پانے کے لیے تن، من، دھن ایک کیے ہوئے ہیں۔
سروے کیا بتارہے ہیں، میڈیا رپورٹیں کیا کہہ رہی ہیں، یہ گروہ بے نیاز ہے اس پروپیگنڈے سے… کیونکہ ان کو فرق نہیں پڑتا ہار اور جیت سے، اس لیے کہ ان کا مفاد وابستہ نہیں رتی بھر بھی ان مناصب سے…
یہاں کسی نے ٹکٹ نہیں مانگا، کوئی ٹکٹ نہ ملنے پر خفا نہیں ہوا، یہاں کسی نے دھرنا نہیں دیا کہ فلاں کو کیوں ملا؟ فلاں زیادہ حقدار تھا…
گلی کوچوں میں ایک پیغام کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے یہ دیوانوں کی طرح، لوگوں نے لاکھ روکا کہ
جناب آپ چوائس نہیں ہیں، آپ کو باربار مسترد کیا جاتا ہے، آپ اسٹیبلشمنٹ کے نورِ نظر نہیں، یہاں الیکشن کروڑوں کا کھیل ہے، یہ چنگیزی سیاست ہے، حضور آپ کی پاک دامنی پر حرف آتا ہے، فلاں فلاں سے اتحاد کرکے آپ نے اچھا نہیں کیا، آپ تبلیغی جماعت رہتے تو آج آپ کی ساکھ کہاں ہوتی… شاید آپ دامن نچوڑتے اور فرشتے وضو کررہے ہوتے… قبلہ! آپ ماضی سے سبق لینے پر تیار ہی نہیں، اس لیے پھر اتر گئے اس انتخابی اکھاڑے میں۔
عجب لوگ ہیں، مخالفین کے دلائل ان کے پائے استقلال میں کوئی جنبش نہیں لاتے…
نکل کھڑے ہوئے ان کے ضعیف بھی، عورتیں بھی، بچے اور جوان سب کے سب ایک جذبے سے سرشار…
ان کو کوئی خوف نہیں کہ مسترد کیے جانے کی صورت میں کیا ساکھ رہ جائے گی!!
انتخاب کے بعد لوگ ہفتوں نتائج پر تبصرے و جائزے پیش کرتے ہیں… کہیں حلوے مانڈے،کہیں شام غریباں۔
مگر ان سر پھروں کے تنظیمی دفاتر اگلے دن سے کھل جاتے ہیں۔ دعوتی، تبلیغی، خدمتی سرگرمیاں ہفتہ بھر بھی ماند نہیں پڑتیں…
وہی خدمت مراکز، وہی نامکمل پراجیکٹ پھر تکمیل کی طرف، وہی کنویں، وہی ٹیوب ویل، وہی ہسپتال، وہی تعلیمی مراکز، وہی تمام سرگرمیاں پھر اسی رفتار سے جاری وساری… نہ پیٹھ سہلاتے ہیں، نہ فریاد کرتے ہیں، نہ کروڑوں کے خدمتی و تعلیمی بجٹ روکتے ہیں کہ جاؤ تم نے ہمیں ووٹ نہیں دیا، ہم بھی نہیں تمہارے کسی کام کے!!!!!
اس لیے کہ نہ وہ ووٹ کی لالچ میں خدمت کرتے ہیں، نہ ترقیاتی منصوبے اس لیے بناتے ہیں کہ ایم این اے کی سیٹ درکار ہے… وہ تو سرشار ہیں کہ قوم کا قرض اتار رہے ہیں، دھرتی کے بیٹے ہیں دھرتی کی مانگ سجا رہے ہیں…
شاباش ہے ان پر کہ مسترد کیے جانے کے باوجود ہر پانچ برس بعد خدمت وعزیمت کے تمغے سجائے خود کو پھر متبادل قیادت کے طور پر پیش کردیتے ہیں… اس لیے کہ نہ ان کی پیشانیوں پر کرپشن کا کوئی داغ ہے، نہ ذاتی زندگی میں کوئے ملامت سے گزر کر آتے ہیں… بستیوں کی بستیاں ووٹ چاہے نہ بھی دیں مگر ان کے کردار کی گواہی ضرور دیں گی۔
نہ معلوم یہ کون سی بستی سے آئے ہیں… پھر قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، کو بہ کو اس آس کو لیے پھر رہے ہیں کہ شاید قوم… ہاں وہ قوم جو باربار ڈسی گئی ہے اپنے ہی ’’انتخاب‘‘ کے ہاتھوں… اِس بار اپنی قیادت، حقیقی قیادت کو پہچان جائے۔
قوم منتخب کرے یا مسترد، اس خوف سے بے نیاز یہ گروہ میدانِ عمل میں پورے وقار سے قوم کے لیے حجت ہے… دفعہ باسٹھ تریسٹھ پر پورا اترنے والا یہ گروہ قوم کی قیادت کا حقیقی سزاوار ہے، مگر…
اس کی نظریں پارلیمنٹ کی سیٹوں پر نہیں، رب کی ابدی جنتوں پر مرتکز ہیں، جہاں مخلصین کا حق الخدمت مارا نہیں جاتا۔
………………………
ہماری عید ملن پورے شوال چلتی رہتی ہیں… غیر رسمی سی محفل جس میں عموماً خواتین حالاتِ حاضرہ پر باہمی گفتگو کرنا پسند کرتی ہیں۔
اس وقت ہاٹ ایشو الیکشن ٹھیرا، لہٰذا اس پر گفتگو جو شروع ہوئی تو گھڑی دیکھنا یاد ہی نہ رہا۔
ایک خاتون بولیں: کب شفاف ہوتے ہیں الیکشن! انجینئرڈ الیکشن سے لینا دینا کیا؟ ایک نے لقمہ دیا: جیسے اعمال ویسے عماّل… جس کو منتخب کرتے ہیں پانچ برس اس کی پھینٹیاں کھا کر بھی عقل نہیں آتی۔
ایک سنجیدہ خاتون بولیں: معجزہ ہی کردے رب تو بات بنے، الیکشن سے توقع بیکار ہے… لوٹے باگ ڈور سنبھالیں گے تو کیا خیر برآمد ہوگی!
ایک خاتون بڑی دور کی کوڑی لائیں کہ آج تک جو انتخابات ہوئے ہیں ان میں ستّر فیصد لوگ تو ووٹ ڈالنے کے لیے نکلتے ہی نہیں ہیں، صرف تیس فیصد کی رائے سو فیصد پر مسلط ہوجاتی ہے۔ اصل قصوروار وہ ٹھیرے جو حقِ رائے دہی استعمال نہ کرکے ناحق کے حق میں فیصلہ کردیتے ہیں۔ یہ مجرمانہ غفلت ہے اجتماعی امور سے، جو ایک مسلمان کی شان نہیں ہوسکتی۔
’’پھر کیا کریں؟‘‘ اب کے سوال میں نے کیا۔ وہ خاتون جن کے سامنے واکر رکھا تھا، کوئی پچھتر برس کے پیٹے کی تھیں، بولیں ’’جب تک قدموں نے ساتھ دیا میں تو مقدور بھر دروازے کھٹکھٹا دیا کرتی تھی کہ جو اجتماعی معاملات میں بے حسی دکھاتا ہے قدرت اُس کے انفرادی معاملات میں بھی اس کو تنہا چھوڑ دیتی ہے۔ لوگ سنتے تھے بات۔ اب بے بسی سے بے جان پیروں کو دیکھتی ہوں جو قدم بھر بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں، تو سوچتی ہوں اگر کہیں پیر ادھار مل جاتے تو ان دو ہفتوں کے لیے مانگ لیتی… دوڑ دوڑ کر جاتی۔ خدا کی قسم کوئی دروازہ نہ چھوڑتی۔ قدرت نے پھر ایک موقع دیا ہے۔ اب کی بار تو ترکی کی ٹھنڈی ہواؤں نے عجیب امید بندھا دی ہے۔
انھوں نے بھی ایک ایک دروازہ بجایا ہوگا… شعوری بیداری ناخن سے زمین کھودنے جیسا مشکل کام ہے… میں اپنے حصے کا کام نہیں کرسکتی، میرا قرض کون اتارے گا! کاش میرے پیر ساتھ دیتے اِس وقت…‘‘
محفل پر سکتہ طاری تھا۔ آنکھوں کے گوشے بھیگ چکے تھے۔ ہاں ہم سب اپنے پیروں کی طرف ضرور متوجہ ہوچکے تھے۔ یہ نعمتِ عظمیٰ تو ہمارے پاس ہے، اور بلاوے معرکے کے ہیں رمضان کے سجدوں کے بعد… اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر کی نوک سے صفوں کو درست کرنے کے بعد گڑگڑا کر دامن پھیلایا تھا۔ یہ وقت ہے صف بندی کا… اپنے حصے کی بیداری کو عام کرنے کا۔

حصہ