افشاں مراد
ایک بزرگ نے ایک بڑے سے سفید بورڈ پہ سیاہ مارکر سے ایک نقطہ لگایا اور پھر محفل میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے پوچھا کہ آپ کوکچھ نظر آیا،لوگوں نے جواب دیا ’’ہاں ،ایک کالا نقطہ‘‘،ان بزرگ نے مسکرا کر حاضرین کی طرف دیکھا اور کہا’’کمال ہے اتنابڑا سفید بورڈ آپ لوگوں کو نظر نہیں آرہا اور اس پہ لگا ننھا سا نقطہ آپ لوگوں کو دکھائی دے گیا‘‘یہی حال ہمارے ہاں لوگوں کا ہے کہ کسی کی کی گئی زندگی بھر کی اچھائیاں ان کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں لیکن اسی شخص کی کی گئی چھوٹی سی بھی برائی ان کو فوراً نظر آجاتی ہے ۔بعض اوقات چھوٹا سا کوئی عمل نیک نیتی کے باعث بڑا بن جاتا ہے اور بعض اوقات کوئی بڑا عمل بھی خراب نیت کے باعث چھوٹا ہوجاتا ہے۔نیا سال شروع ہو چکا ہے ،اس نئے برس بھی کچھ بھی تو نیا نہیں ہے سوائے اس کے کہ کیلنڈر پر ہندسے بدل گئے ہیں ۔وہی لوگ ہیں اور وہی ان کی ذہنیت اور وہی ان کے عزائم ،وہی ہمارے لیڈر ،وہی ہمارے راہنما،وہی ہمارے مسائل اور وہی ان کے کھوکھلے نعروں سے بیوقوف بنتے عوام۔کچھ بھی تو نیا نہیں ہے۔کہتے ہیں نا کہ فاتحہ لوگوں کے مرنے پر نہیں احساس کے مرنے پر پڑھنی چاہیے کیونکہ لوگ مر جائیں تو صبر آ جاتا ہے لیکن اگر احساس مر جائے تو معاشرہ مر جاتا ہے ۔یہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہو رہا ہے ہم لوگوں کے اندر احساس نام کی چیز ختم ہو چکی ہے ،ہمیں احساس ہی نہیں کہ ہم اپنے لئے کن لوگوں کا چنائو کر رہے ہیں اور وہ ہمیں کس پتھر کے زمانے میں لے جا رہے ہیں جہاں نہ بجلی ہے نہ پانی ہے نہ گیس ہے ،نہ ٹریفک کا کوئی نظام ہے نہ ،ایجوکیشن سسٹم ہے نہ کوئی قانون ہے اور نہ کوئی اس کو نافذ کرنے والا۔لیکن پھر بھی ہم خوش ہیں ،مطمئن ہیں ،اپنے حال میں مست ہیں ۔عوام مر رہے ہیں لیکن ان کے لیڈر زندہ ہیں کیونکہ ہم نے ان کو زندہ رکھا ہوا ہے۔نیا سال آتا ہے تو کچھ نئے عہد کیے جاتے ہیں ،کچھ تبدیلیوں کے وعدے ہوتے ہیں ،کچھ ادھورے رہ جانے والے کام پورے کرنے کا عزم ہو تا ہے ،کچھ خوش آئند خواب ہوتے ہیں ان کی تعبیر پانے کی تمنا ہو تی ہے ، لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بحیثیت قوم یہ حق کھو چکے ہیں کہ ہم کوئی خوبصورت خواب دیکھیں اور اس کی تعبیر پانے کی تمنا کریں کیونکہ ہم تو آ ج تک اپنے لئے درست رہنما کا چنائو نہیں کر پائے جو کہ ہمیں منزل کا نشان دے ،ہم تو آج بھی اس نعرے میں خوش ہیں کہ ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے ،جس قوم کو منزل کی تمنا ہی نہیں ،اس کو اس کا لیڈر کس کنویں میں پھینکے یہ سوچنا پھر عوام کا نہیں بلکہ لیڈر کا مسئلہ ہے۔ہم تو خوش ہیں کیونکہ ہم انفرادی حیثیت میں تو ترقیاں کر رہے ہیں بس بحیثیت قوم پستی میں گرتے ہی چلے جا رہے ہیں ۔ہماری قسمتوں کے فیصلے کبھی لندن میں ہوتے ہیں تو کبھی دبئی میں ،اور کبھی امریکہ میں، توپھر ہمیں کیا پتا کہ ہمیں آگے کیسے جینا ہے ،کن کے ہاتھوں میں جینا ہے۔
چڑیا حلال ہے اس لیے بے خطر زمیں پہ اترتی اور دانہ چگتی ہے اسے پکڑے جانے کا خوف نہیں ہوتا، وہ جانتی ہے اسے رزق بنایا گیا ہے، وہ معصوم ہے. . اس کے برعکس’ کوا ‘حرام ہے اس کے باوجود زمیں پہ اترتے ہوئے خوف زدہ رہتا ہے، اپنی عیاری شاطری کو کام میں لاتا، ہر پل چوکس رہتا حالانکہ وہ کسی کی خوراک کا نوالہ نہیں بن سکتا پر وہ اتنا خوفزدہ کیوں ہے؟یہی حال سچے اور جھوٹے کا ہے. . . سچا شخص کسی بھی محفل میں ہو بے خطر رہتا ہے اس کے اندر کوئی خوف نہیں ہوتا، اسے بولتے وقت سوچنا نہیں پڑتا . جبکہ جھوٹے شخص کو ہمیشہ چوکس رہنا پڑتا ہے کہ اس کا بولا ہوا جھوٹ اس کے گلے نہ پڑ جائے اسے بولتے وقت پچھلی کہی ہوئی باتیں یاد رکھنی پڑتی ہیں. . . گویا ان کے ساتھ بھی کوے اور چڑیا والا حساب ہوتا ہے۔لیکن ہمارے رہنمائوں کا حال کچھ یوں ہے کہ اقتدار سے پہلے ان کی زبان مختلف ہوتی ہے ان کے وعدے وعید الگ ہوتے ہیں اور اقتدار کے بعد ان کا انداز بالکل جدا ہوتا ہے۔ان کو اپنے جھوٹ، اپنے فریب پر کوئی پچھتاوا نہیںہوتاکیونکہ عوام ان کا کہا ہوا بھلا بیٹھتے ہیں ۔
تو دوستو!کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ خدا بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو قوم خود اپنی حالت بدلنا نہیں چاہتی،ہمارے ملک کو وجود میں آئے ہوئے ۷۰برس ہو گئے،دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی لیکن ہم ابھی تک اسی مقام پر کھڑے ہیں ،ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ زندہ کو لیڈر ماننا اور بنانا ہے یا مردہ لیڈروں کو پوجنا اور ان کے ناموں پر ووٹ ڈالنا ہے۔فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے ،نئے برس کے آنے اور جانے کا،یا خوشیوں پر جشن منانے کا حق ،یا غم میں ماتم منانے کا حق بھی صرف ان کو ہے جو اس کا حق ادا کر سکتے ہوں،ورنہ مردوں کو کسی کے آنے یا جانے سے کیا سروکار۔۔۔!