طیب اردوان کی انتخابی فتح مسلمانانِ عالم کے لیے بشارت

320

عبدالرافع رسول
ایک ایسے زمانے میں جب ایک مسلم ملک اس امرپرمصرہوکہ وہ یمن کے باغی حوثیوں کے ہاتھوں بیلسٹک میزائل تھمائے گا تاکہ وہ حجازکی سرزمین کوالعیاذ باللہ تہ وبالا کر دیں، جب متحدہ امارات کے سمندروں کے پانیوں میں قائم انڈر واٹر ہوٹلوں میں اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہوکے ساتھ بیٹھ کر اپنے نظریاتی مخالفین کوکچلنے کے لیے خاکہ تیارکررہے ہوں، جب جوہری قوت کی حامل پاکستانی قیادت ایٹم بم رکھنے کے باوجود بزدلی کا شکار اورجب سیال دولت کی بہتات میں عیاشیاں کرنے والے عرب حکمران مسلم اُمہ کو درپیش سنگین مسائل سے مکمل طور پر غافل اورلاپروا بیٹھے ہوں تو ایسے میں اُمہ کا ایک ایسا غم خوار، شیردل اور حقیقت بیں قائد جس کا نام نامی جناب رجب طیب اردوان ہے ،دنیا بھرکے ستائے ہوئے مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھاتا ہے اور ساتھ ساتھ ایک صدی تک لادینیت کے قعر مذلت میں لت پت پڑے ترکی کو تمام خطرات انگیز کر تے ہوئے مسلمان ترکی بنانے کی جانب بتدریج ایک مبارک سفر طے کر رہا ہے، وہ کتنے افضل، بیش بہا اورقائد بے بدل ہیں، یہ بات محتاج ِ وضاحت نہیں۔ بلاشبہ ترکی کے صدارتی انتخابات میں جناب اردوان کی فتح سے جہاں مسلم دشمن طاقتوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں، وہی المیہ یہ ہے کہ بعض مسلمان ممالک کے حکمران بھی اس پیش رفت پر افسردہ خاطر اور ذہنی طور پر پریشان و پراگندہ ہیں کیونکہ کچھ مخصوص فکر کے حامل حکمران جناب اردوان کی ذات سے اپنے قلب و جگر میں حسد و کینہ ہی نہیں پال رہے بلکہ اُن کو خدشہ ہے کہیں ترکی عصرِ حاضر میں ایک ترقی پسند ماڈل مسلم اسٹیٹ کے روپ میں اُبھر کران کے تخت وتاج ہوا میں تحلیل نہ کردے۔ اُن لوگوں پر بوجوہ قبرستان جیسی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی منشا کے خلاف طیب اردوان اپنی قوم میں میدان انتخاب مار کر فتح یاب ہوئے اور ان کی قطعی کامیابی اور جیت دراصل صداقت و شرافت، شجاعت اور انسانیت اور خدمت و صالحیت کی جیت مانی جاتی ہے۔
اردوان کی بے مثال کامیابی پر ماتم کناں بعض مسلم ممالک کے یہ حکمران محض تعصب کے باعث وہ اس امر سے آنکھیں چرا رہے ہیں کہ جناب اردوان ترکی کو بتدریج اسلام کی راہ پر ڈالنے کی جستجوکررہے ہیں جہاں اذان و عبادات پر پابندی تھی، عربی رسم الخط جرم تھا اور اسکرٹ پہنے بغیر مسلمان بچیوں کا کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ ممنوع تھا۔ اللہ کا کرم ہے اب وہ آئے اور پوری طرح چھا گئے۔ اللہ نے چاہا تو 2023 تک وہ نہ صرف ترکی کی صدارت کریں گے بلکہ دشمنانِ دین کے دستِ ظلم کو روکنے کی بھرپور سعی کریں گے۔ بلاشبہ شیرِ ترکی کی مثبت سیاسی صورت حال نے کشمیر سے فلسطین تک کے مظلوموں میں امیدکی جوت جگائی ہے اور وہ یہ باور کر نے لگے ہیں کہ اگر حالات نے اجازت دی تو مسلمانانِ عالم کے لیے محبت اور ہمدردی میں ڈوبے صدر اردوان مظلوم مسلم قوموں پر اغیار کے ہاتھوں ڈھائے جانے والے آلام ومصائب کے خلاف زوردار صدائے احتجاج بلندکریں گے اور عین ممکن ہے اس کا یہ اثر ہوگا کہ انہیں بشری حقوق کی بے دردانہ خلاف ورزیوں سے کاملاً نجات مل سکے۔
24 جون اتوار کو ترکی کے صدارتی الیکشن میں رجب طیب اردوان صدارتی انتخابات جیت گئے ہیں۔ تقریباً 6کروڑ ترک باشندے ووٹ دینے کے اہل تھے اور صدر کے عہدے کے لیے 6 امیدوار میدان میں تھے جن میں سے طیب اردوان کو 53 فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ ان کے قریبی حریف محرم اَنسے کو 31 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ صدارتی الیکشن میں جناب اردوان چاہتے تھے کہ انہیں 50 فیصد سے زیادہ ووٹ ملیں تاکہ ووٹنگ کے دوسرے رئوانڈ میں نہ جانا پڑے۔ ترکی کے موجودہ الیکشن قوانین کے مطابق اگر امیدواروں میں کسی ایک امیدوار کو 50 فیصد ووٹ نہیں ملتے تو پھر 8 جولائی کو دوسرے دور کا انتخاب اس مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے دو امیدواروں کے درمیان ہونا تھا۔ لیکن طیب اردوان کی واضح فتح کے بعد اب یہ مرحلہ درپیش نہیں۔ جناب اردوان کی فتح کے بعد اب ترکی کا نیا آئین نافذ ہونے جا رہا ہے جس کے تحت صدر کو زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل ہوجائیں گے اور ترکی میں اسلامائزیشن کے بتدریج عمل کے لیے یہ نیا آئین مددگار ثابت ہوگا۔ صدارتی انتخابات کے ساتھ ساتھ ترکی میں پارلیمانی انتخابات بھی ہوئے۔ سرکاری میڈیا کے مطابق 96 فیصد ووٹوں میں طیب اردوان کی اے کے پارٹی سب سے آگے ہے جبکہ حزبِ اختلاف کی پارٹی سی پی ایچ کے پاس 23 ووٹ ہیں۔ ترکی کے ذرائع ابلاغ کے مطابق ووٹنگ کا تناسب 87 فیصد رہا ہے۔ خیال رہے کہ ترکی میں میں صدارتی انتخابات نومبر 2019 میں ہونے تھے لیکن صدر اردوان نے قبل ازوقت انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا اور ان کے حریف اَنسے دونوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بڑی ریلیاں کیں اور دونوں نے ایک دوسرے کو شکست دینے کے دعوے کیے۔ جناب اردوان نے اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ وہ انتخابات میں اسلام مخالفین کو عثمانی تھپڑ لگائیں۔ ترکی کے عوام نے ان کی نصیحت پرعمل کرتے ہوئے ترکی کے اسلام مخالفین کو زور دار تھپڑ رسید کر دیا۔ انتخابی جلسوں میں جناب اردان کا اپنے مد مقابل امیدوار محرم اَنسے کے حوالے سے کہنا تھا کہ ایک سابق استاد اور 16 سال سے رکن پارلیمان رہنے والے شخص میں قیادت کا ہنر نہیں ہے۔ اُن کا کہنا تھاکہ طبیعیات کا استاد ہونا الگ بات ہے اور ملک چلانا الگ بات ہے کیونکہ مملکت کا صدر بننے کے لیے وژن اور تجربہ ضروری ہوتا ہے۔ خیال رہے کہ رجب طیب اردوان2014 میں صدر بننے سے قبل 11 سال تک ترکیکے وزیر اعظم رہ چکے ہیں جب کہ 2014 سے وہ ترکی کے صدر چلے آرہے ہیں اور حالیہ الیکشن میں واضح فتح کے بعد وہ 2023 تک ملک کے صدر رہیں گے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کمال اتا ترک کے بعد اردوان ترکی کے سب سے طاقتور رہنما ہیں اور حالیہ کامیابی نے انہیں مزید طاقت ور بنا دیا ہے۔ اس مرتبہ ترکی کے صدارتی الیکشن میں ٹرن آئوٹ زیادہ رہا ہے جب کہ سیکورٹی کے زبردست انتظامات کیے گئے تھے۔ صرف استنبول میں 38 ہزار اہلکار تعینات تھے۔
پورے عالم اسلام پر نظر دوڑانے کے بعد جناب رجب طیب اردوان واحد لیڈرکے طور پر ابھرے ہیں جنہیں عالم اسلام کو درپیش کرب ناک صورت حال کا غم کھائے جا رہا ہے۔ کشمیر ہو کہ فلسطین ، برما ہوکہ شام‘ مسلمانوں پر توڑ جانے والے قیامت خیز مظالم پرآج اگر کوئی مسلم حکمران مضطرب، بے چین اور بے کل ہے تو وہ رجب طیب اردوان ہیں۔
طیب رجب اردوان عالم اسلام کے ہیرو کے طور پرابھر رہے ہیں اور مظلوم مسلمانوں کی مسیحائی ان کی شناخت بن رہی ہے۔ بلاشبہ آج پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہوتا ہے تو سب کی نگاہیں اردوان کی طر ف اٹھتی ہیں کیونکہ باقی تمام سر برآوردہ حکمرانوں کا ضمیرمردہ ہو چکا ہیاسی لیے نہ وہ بول رہے ہیں نہ ظلم وتشد کو روکنے کے لییکوئی پالیسی وضع کر رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ عصر حاضر میں عالم اسلام کی قیادت کا حق طیب اردوان کو حاصل ہے۔ کشمیر اور برما سمیت پوری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ طیب اردوان ترکی کی سرحدوں سے باہر اپنا قدم نکالیں اور ملت اسلامیہ کی پاسبانی کا فریضہ انجام دیں۔
1919 میں 631 سال تک قائم رہنے والی عالم اسلام کی سب سے مضبوط ترین اور طاقتور حکومت سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعدکمال اتاترک نے 1923 میں ترکی میں ایک لادین حکومت کی بنیاد ڈالی جس کا بنیادی عنصر اسلامی تہذیب و ثقاقت کا خاتمہ، دینی اقدار سے روگردانی، لادینیت اور مغربی ممالک کے مفاد کو پروان چڑھانا تھا۔ طویل عرصے تک اقتدار پر قابض تمام سربراہوں نے کمال اتاترک کے ذریعے کی گئی اصلاحات کو ہی آگے بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ 1960 میں وزیر اعظم عدنان میندریس نے پہلی مرتبہ ترکی میں مصطفی کمال اتاترک کے لادین سلطنت میں تبدیلی کا سلسلہ شروع کیا‘ ملک کو نئے نظام کی نئی تعریف سے روسناش کرایا‘ اسلام پر عائد بے جا پابندیاں ختم کیں۔ لیکن فوج نے اسے برداشت نہیں کیا اور ان کے خلاف بغاوت کرکے تختہ پلٹ دیا۔ ترکی میں اسلام نواز تحریکوں کو کچلنے کی مسلسل کوششوں کے درمیان1995 کے انتخابات میں معجزاتی طور پر پہلی مرتبہ اسلام پسند رفاہ پارٹی سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھری اور واضح اسلامی نقطہ نظر رکھنے والے نجم الدین اربکان ترکی کے وزیر اعظم بن گئے۔ رفاہ پارٹی کے اسلام نواز نظریات کے بعد قومی سلامتی کونسل کے ساتھ ان کے تعلقات میں خرابیاں پیدا ہوگئیں اور یہ اندیشے سر اٹھانے لگے کہ کہیں نئی حکومت ترکی کے لادین نظام اور مغرب کی طرف التفات کی پالیسی کو تباہ نہ کر دے۔ آخر کار قومی سلامتی کونسل کے دبائو میں آکر 1997 میں اربکان کو مستعفی ہونا پڑا اور ان پر تاحیات سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اسی کے ساتھ رفاہ پارٹی بھی ختم ہوگئی۔ اسی رفاہ پارٹی سے نکلے ہوئے لوگوں میں سے ایک گروپ نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی بنائی جسے 2002 کے انتخابات میں واضح اکثریت سے کامیابی ملی اور عبداللہ گل وزیر اعظم بنے۔2003 میں طیب اردوان پر جب عائد سیاسی پابندی ختم ہوگئی تو وہ وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوگئے اور عبداللہ گل صدر بن گئے۔ 2014 میں طیب اردوان نے ملک کے پارلیمانی نظام کو بدلنے کی پہل کی اوراس طرح پہلی مرتبہ وہ عوام کے منتخب کردہ ووٹوں سے صدر منتخب ہوئے اور وسیع تر اختیارات صدر مملکت کے حوالے کیے گئے۔ حالیہ الیکشن میں دوتہائی اکثریت سے صدارتی نظام کو پاس کرانے کا منصوبہ تھا۔
طیب اردوان کی مخالفت کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ اردوان ترک معاشرے میں اعلیٰ مسلم اقدار کو بتدریج فروغ دے رہے ہیں‘ وہ مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں آواز اٹھاتے ہیں‘ فلسطین کے مؤقف کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت کرتے ہیں، شام کے ظالم اور سفاک حکمران بشار الاسد کے اقتدارکاخاتمہ چاہتے ہیں، برما کے مسلمانوں کی حالت زاردیکھ کرباربار آبدیدہ ہورہے ہیں اوربرماکی بدھسٹ حکومت اور اس کی فوج کو مسلمانوں کے معاملے میں متنبہ کرتے ہیں۔ جبکہ کشمیریوں کے درد و الم پر اپنے دل میں تکلیف محسوس کرکے بھارتی استبداد کو للکارتے ہوئے کشمیریوں پر استبدادی ہتھکنڈے ترک کرنے اورکشمیریوں کوحق خود ارادیت دینے کوکہہ رہے ہیں۔ الغرض دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم زیادتی ہوتی ہے طیب اردوان اپنے درد و غم کا اظہا رکرتے ہیں۔ مسلمانوں کے حوالے سے عالمی فورم اقوام متحدہ کے مجرمانہ کردار اختیار کرنے پر اقوام متحدہ کی دہری پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ یو این کی جنرل اسمبلی میں پورے آب وتاب کے ساتھ عالم اسلام کے حقوق کی برملا ترجمانی کرتے ہیں۔ ترکی کے صدر اور عالم اسلام کے محبوب قائد کے طور پر ابھرنے والے طیب اردوان مصر میں اخوان المسلمون کی منتخب حکومت کے خلاف جنرل السیسی کی فوجی بغاوت کو جرم گردانتے ہیں۔ طیب اردوان کی ان پالیسیوں کی وجہ سے آج پوری دنیا کے لادین منصوبہ ساز اور مغربی استعمار متحد ہوکر ان کے مقابلے میں صف آرا ہوچکے ہیں اور انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے میں اپنی پوری طاقت جھونک چکے ہیں۔امریکا کی پشت پناہی پر ان کے خلاف فوجی بغاوت نے سر اٹھایا لیکن خدا کے فضل وکرم سے اس کا سرکچل دیا گیا۔ اس میں دورائے نہیں کہ طیب اردوان باطل کے خلاف حق کی تلوار بن کر موجودہ وقت کے نمرود کی بھڑکائی ہوئی آگ میں کود کر دجالی نظام سے نبرد آزما ہیں۔ وہ اپنے لیے پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا تاج منتخب کر چکے ہیں۔ ان کے خلاف عالم کفر ہی نہیں بلکہ خود مغرب کے کاسۂ لیس حکمران اور ضمیر فروش ملا وصوفی بھی سازشیں رچانے میں مصروف ہیں اس لیے طیب اردوان کے لیے بیک وقت مخالفین اور دشمنوں کا مقابلہ کر نا، ملکی اقتدار سنبھالنا ، قوم کی تعمیر وترقی کو آگے لے جانا اور دنیائے اسلام کو حق کے پیغام پر قائم رہنے کا حوصلہ دینا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ ان کی قدم قدم پر حفاظت فرمائے اور ان کے جو ترکستان اور عالم اسلام کے لیے کچھ اچھا کرنے کا جو جذبہ ان کے سینے میں مچل رہا ہے اس میں کامیاب ہوں۔

حصہ