انسان کا کردار و عمل خاموش تبلیغ سرانجام دے سکتا ہے

529

افروز عنایت
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ مسلمان کا کردار و عمل تبلیغ و نصیحت کے لیے اہمیت کا حامل ہے، جو کہ سامنے والے اور دیکھنے والے کو متاثر کرتا ہے۔ اگر سامنے والا مسلمان ہو تو وہ آسانی سے اس نصیحت و تعلیمات میں اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے، گرچہ یہ بھی آسان کام نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں۔ اگر سامنے والا غیر مسلم ہو تو اُسے متاثر کرنا تو آسان ہے لیکن اسلامی سانچے میں ڈھالنا ذرا مشکل ہے۔ جی ہاں آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ مسلمان کا کردار و عمل اور رویّے جو اللہ کے دین اور سنت کے مطابق ہوں ضرور غیر مسلم کو بھی متاثر کرسکتے ہیں، بلکہ بعض اوقات غیر مسلم کے اسلام قبول کرنے میں یہی کردار و عمل معاون ثابت ہوتا ہے۔
ماہِ رمضان میں میری دوسری دُنیوی سرگرمیوں کی طرح لکھنے لکھانے کی سرگرمی بھی معطل ہوجاتی ہے۔ لیکن تھوڑا سا وقت نکال کر ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ کے موضوع پر لکھنے کا کچھ کام کررہی تھی (میرا یہ مضمون یکم جولائی کو شائع ہوچکا ہے) اسی دوران میری اپنی بہن سے جو اٹلانٹا امریکا میں رہائش پذیر ہے، رمضان کے حوالے سے گفتگو ہوئی کہ امریکا میں مسلمان کس طرح رمضان کا اہتمام کرتے ہیں، کیونکہ مسلمان ممالک میں تو تمام مسلمان اس ماہِ مبارک کو بڑے عقیدت و احترام سے عباداتِ الٰہی میں گزارتے ہیں لیکن بظاہر غیر مسلم ممالک میں ایسا نظر نہیں آتا۔ جواب میں مسرت انصاری (میری بہن) نے مجھے جو بات بتائی وہ یقینا متاثر کن ہے، اس نے بتایا کہ الحمدللہ امریکا میں ہم مسلمان کمیونٹی اسلامک سینٹرز میں بڑی عقیدت و احترام سے افطار، مغرب، عشاء اور تراویح کا اہتمام کرتے ہیں، اس دوران تمام امور و چیزوں میں اسلامی تعلیمات کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے، ایک روح پرور منظر ہم سب کے سامنے ہوتا ہے جو ہمارے ایمان کو تازہ کردیتا ہے۔ ماہِ رمضان سے پہلے ہی لسٹ ترتیب دی جاتی ہے کہ کون سی چار سے چھ فیملیز (خاندان) کس دن افطاری اور رات کے کھانے کا بندوبست کریں گے۔ ہر سینٹر میں روزانہ کم از کم 100 افراد (روزہ دار) روزہ افطار کرتے ہیں۔ افطار کے بعد تمام روزہ دار نمازِ مغرب باجماعت ادا کرتے ہیں۔ رات کے کھانے کے بعد عشاء و تراویح کا اہتمام اپنے وطن کی یاد تازہ کردیتا ہے۔ اکثر میزبان خاندانوں کے ساتھ اُن کے چند غیر مسلم دوست بھی میزبان کی مدد کے لیے اُن کے ساتھ اسلامک سینٹر میں آتے ہیں۔ یہاں آکر وہ غیر مسلم، مسلمانوں کے لباس، عبادات، طور طریق، رویوں اور ایمان افروز مناظر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اسی وجہ سے ہر سال ماہ رمضان کے اختتام پر کسی غیر مسلم کے مسلمان ہونے کی خوش خبری ہم سب کو شاد کردیتی ہے۔ اِس سال ماہِ رمضان میں ایک فیملی کے ساتھ ایک 18-17 سالہ انگریز لڑکی کو اسلامی لباس اور اسکارف میں دیکھا تو تجسس کے باعث اس فیملی کی خاتون ’’سیما‘‘ سے میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ سیما نے بتایا کہ یہ میرے بیٹے کی کلاس فیلو ہے جو ایک دن میرے گھر میں دعوت میں شریک ہوئی اور میری بیٹیوں سے مانوس ہوگئی۔ چند ہی ملاقاتوں میں وہ ہمارے اسلامی طور طریقوں، عبادات، اور خصوصی طور پر مردوں کا عورتوں کے ساتھ احترام کا رویہ دیکھ کر بہت متاثر ہوئی، کہنے لگی: ہم تو یہی سنتے آرہے ہیں کہ مسلمان ’’دہشت گرد‘‘ ہیں، یہاں آکر تو میں ایک نئی دنیا دیکھ رہی ہوں، ایسے رویّے اور حسنِ سلوک تو میں نے کسی مذہب میں نہیں دیکھے۔ خصوصاً خواتین کا لباس اور مردوں کا خواتین کو احترام و عزت سے نوازنا، پانچ وقت گھروں میں رب کے حضور حاضری… یہ سب میرے لیے دلچسپ اور انوکھا ہے۔ اُس نے میری بیٹیوں سے وضو اور نماز کا طریقہ سیکھا۔ اب وہ ہمارے گھر جب بھی آتی، نماز کا وقت آتا تو وہ بھی نماز پڑھتی اور کہتی کہ ایسا کرکے مجھے ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ اس نے اسلامی تعلیمات کا مطالعہ بھی شروع کیا اور آج وہ ہمارے ساتھ ہے۔ اس کا لباس، اوڑھنا، پہننا اسلامی سانچے میں ڈھل چکا ہے، عنقریب وہ مسلمان ہوجائے گی۔ (الحمدللہ)
(ہوسکتا ہے کہ میری یہ تحریر جب قارئین تک پہنچے وہ لڑکی مسلمان ہوگئی ہو۔ ان شاء اللہ تعالیٰ)
مسرت انصاری کی گفتگو سن کر مجھے واقعی بے انتہا مسرت ہوئی اور قطر کی فلپائنی لڑکی کی بات یاد آگئی۔ دوحہ میں فرحت (میرے بیٹے) کے دوست آصف جن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے، کے گھر ایک فلپائنی لڑکی (20-22 سالہ) کُل وقتی ملازمہ تھی۔ دونوں میاں بیوی کے خوبصورت احترام والے رویّے، حسنِ سلوک، درگزر سے متاثر ہوکر وہ لڑکی اسلام کے دائرے میں داخل ہوگئی۔ اس لڑکی کی اسلامی تعلیمات کے لیے دونوں میاں بیوی روز اسے اسلامک سینٹر چھوڑنے اور لینے جاتے۔ میری اس لڑکی سے مختصر گفتگو ہوئی تو اس نے بتایا کہ آصف اور ان کی بیوی کا ہی خوش کن رویہ نہیں بلکہ ان کے پاس آنے جانے والے تمام مسلمان لوگ مجھے عزت دیتے ہیں اور میری فیملی کی کسی بھی مشکل گھڑی میں میری مالی معاونت کرتے ہیں، تسلی دینے کے ساتھ میرا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ جب وہ اپنے وطن واپس جانے لگی تو نہ صرف آصف بلکہ ان کے دوستوں نے بھی اسے ایک خطیر رقم سے نوازا۔ اس طرح وہ خوبصورت یادوں کے ساتھ اپنے وطن واپس پلٹ گئی۔
ان دو واقعات سے واضح ہے کہ مسلمان دنیا کے کسی بھی خطے میں ہو، اپنے اسلامی طرز زندگی سے مبلغ کا کام انجام دے سکتا ہے۔ دیارِ غیر میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اس طرح خاموش رہ کر بھی صرف اپنے طور طریقوں سے اسلام کی دعوت پھیلانے کا حق ادا کررہے ہیں۔ اس لیے میں ان سطور کے ذریعے اُن تمام مسلمان بہن بھائیوں سے مخاطب ہوں جو دیارِ غیر میں رہائش پذیر ہیں، کہ یہود و نصاریٰ کے رنگ میں اپنے آپ کو ڈھالنے کے بجائے اسلامی احکامات کے پیرائے میں اپنے آپ کو ڈھالیں۔ زبان سے نہ سہی اپنے طرزِعمل سے اسلام کی اشاعت و تبلیغ میں شامل ہوجائیں۔ اس طرح دنیا میں دینِ اسلام کی عزت اور وقار کو بلند کرنے میں مثبت کردار ادا کریں، تاکہ وہ پروپیگنڈا جو اسلام کے خلاف دنیا میں چاروں طرف آج گشت کررہا ہے اُسے ناکام بنایا جا سکے۔ ہر مسلمان ایک مبلغ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ ایک مکمل عالمِ دین ہوکر ہی یہ اہم فریضہ انجام دینے کے قابل بن سکتے ہیں، بلکہ ایک چھوٹی اسلامی بات سے بھی واقف ہیں تو اُسے دوسروں تک پہنچانا مسلمان کی حیثیت سے آپ کا فرض ہے، تاکہ وہ بھی اس سے مستفید ہوں۔ اور اسلامی احکامات کے مطابق زندگی گزار کر دوسروں کو بھی اس راہ کا راہی بنانے میں مددگار ثابت ہوں اور مثال بن جائیں تاکہ لوگ آپ کی تقلید کریں اور اپنی اصلاح کریں۔ بے شک ہر مسلمان کا ’’اسلامی تعلیمات‘‘ کے مطابق کر دار و عمل مسلم و غیر مسلم کے لیے تبلیغ کا کام سر انجام دے سکتا ہے۔

حصہ