خواجہ رضی حیدر کے شعری مجموعے ’’لفظ بوسیدہ نہیں ہوتے‘‘ کا جائزہ

1463

فیض عالم بابر
اردو کی مختلف اصناف دم توڑ چکی ہیں اور کچھ دم توڑتی جارہی ہیں۔ان ہی میں سے ایک صنف نظم ہے جو اپنی بہار کھوتی جارہی ہے ۔جب سے یہ دوشیزہِ سخن آزاد جامے میں آئی ہے ایسا لگتا ہے پابند جامہ پرانے فیشن کی طرح ہوگیا ہے ۔صورتحال مایوس کن ضرور ہے مگر اتنی بھی نہیں کہ عاشقانِ نظم تدفین کی تیاری کریں۔ابھی خواجہ رضی حیدر جیسے عاشق ِ ادب زندہ ہیں جو اپنے خونِ جگر سے اس صنف کی آبیاری اور اسے ازسر نو زندہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔حال ہی میں رضی حیدر کا نظموں پر مشتمل مجموعہ’ ’ لفظ بوسیدہ نہیں ہوتے‘‘ منظر ِ عام پر آیا ہے ۔کتاب میں حمد ،نعت سمیت کل 110 نظمیں ہیں جن میں سے 10 معراء اور 100 آزاد سانچے میں ہیں۔ معراء سانچے کی نظموں میں ۔امید کی کرن،ایک مغموم کہانی،اجزائے پریشاں،مصلحت کیش زمانے میں محبت کیسی،بے کیفی اور پسِ تعبیر(فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن) کے وزن پر ایک مکالمہ،جستجو کی تھکن اورلاحاصلی(مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن) کے وزن پر جبکہ تجدید(فاعلاتن مفاعلن فعلن) کے وزن پر ہے۔ آزاد سانچے کی نظموں میں سے 31 نظمیں( مفاعیلن )25 نظمیں( فعولن ) 16نظمیں(فاعلن) اور 15 نظمیں( فاعلاتن )کے وزن پر ہیں۔ اس مجموعے میں معاشرے کے تاریک پہلوئوں اور انسانی جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتی دلوں کو چھو لینے والی خوبصورت نظمیں موجود ہیں۔ان میں سے بیشتر کا بنیادی استعارہ تنہائی اور خود کلامی ہے۔تنہائی کائنات کا سب سے وسیع اور عمیق استعارہ ہے جو کسی کم حوصلہ انسان کو وقت سے پہلے مار بھی سکتا ہے اور کسی بلند حوصلہ انسان کو اپنی اصلیت کی جھلک دکھا کر کائنات کے ذرے ذرے سے آشنا بھی کردیتا ہے۔رضی حیدر کا شمار بلند حوصلہ انسانوں کے قبیلے میں ہوتا ہے۔انکی نظموں میں ایک ناگوار بات یہ ہے کہ ان کا جنم گہری اداسی کی کوکھ سے ہوا ہے اور اچھی بلکہ بہت اچھی بات یہ ہے کہ کوئی ایک نظم بھی مایوسی کی حدوں کو چھونے کے باوجود اس حد کو پار کرتی نظر نہیں آتی۔انسان اشرف المخلوقات ہوکر بھی کتنا مکارہے اگر کسی کو اس کا ادراک نہیں ہے تو وہ رضی حیدر کی نظم’ مرا دل منافق کا دل ہے‘پڑھ لے۔نسب اور کردار کیا ہوتا ہے؟ اگر کسی کو نہیں معلوم تو رضی حیدر کی نظم’ شباہت نسب کی گواہی نہیں‘ سے استفادہ کرلے۔اظہارِ رائے کی آزادی کے بہت نعرے بلند ہوتے ہیں اور جتنی آزادی ہمارے ملک میں ہے شاید دنیا کے کسی ملک میں نہیں ۔ سب جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں ہر شخص رائے کے اظہار میں مادر پدر آزاد ہے مگر یہ کم کم ہی جانتے ہیں کہ اس بے لگام آزادی کے نتائج کیا آرہے ہیں اور اس کے ہمارے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔اس حوالے سے کتاب میں’ سنو بندگانِ تکلم ‘کے نام سے انتہائی متاثر کن نظم موجود ہے۔
کتاب میں شامل آخری ہجرت،تقدیرِ آدم اور محبت کی معیشت نامی نظموں میں سے ہر ایک نظم میں دو نظمیں چھپی ہوئی ہیں۔آخری ہجرت نامی نظم ۔۔ اولادِ آدم آخری ہجرت کرے گی۔۔ کے مصرع پر مکمل ہوجاتی ہے۔ پہلے حصے میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہجرت کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا جبکہ آگے کے حصے میں شاعر اچانک محبوب سے مخاطب ہوکر ا سے آخری ہجرت کا مشورہ دینے لگا۔تقدیرِ آدم نامی نظم کے ابتدائی حصے میں شاعر انسانی بے بسی کے حوالے سے خدا سے شکوہ کناںہے ۔ اور یہ دنیا جا بجا محروم لفظوں کی کہانی ہو چکی ہے۔ اس مصرعے پر نظم مکمل ہوجاتی ہے جب کہ دوسرے حصے میں امیری ،غریبی کے فرق کو اجاگر کرتے ہوئے تقدیرِ آدم کو بدلنے کی بات کی گئی ہے ۔محبت کی معیشت نامی نظم کے پہلے حصے میں محبوبہ کو بدگمانی سے بچنے کی تلقین کی جارہی ہے اور یہ حصہ۔خاک میں سب کچھ ملادیں ۔ پر مکمل ہوجاتا ہے۔ دوسرے حصے میں شاعر اپنی تنہائی کو اجاگر کرتے ہوئے محبوبہ کو اپنی رات نہ کٹنے کا دکھڑا سنارہا ہے۔ ایک ہی نظم میں دو مختلف خیالات کا در آنا کیسے ممکن ہے؟ ایسا کیوں ہوتا ہے؟۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ شاعر پر وفور کی بھرپور کیفیت طاری ہوتی ہے اور یہ کیفیت اتنی بھرپور ہوتی ہے کہ شعور کو عارضی طور پر معطل کرکے لاشعور کو متحرک کردیتی ہے جس کی وجہ سے شاعر شعور کی روشنی میں دو مختلف خیالات میں ا س وقت فرق نہیں کرپاتا۔ آسان لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ شعر کہتے وقت خیالات کی رفتار اتنی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ مختلف طرح کے خیالات میں شعور کو فرق کرنے کا لمحہ تک میسر نہیں آتا۔یہ کیفیت یا بھرپور وفور کسی شاعر کے لیے اعزاز کی بات ہوتی ہے مگر ہر شاعر کو یہ نعمت نصیب نہیں ہوتی ، اس حوالے سے خواجہ رضی حیدر خوش بخت ہیں۔
حمدمیں ایک مصرع ہے ۔۔۔فراوانی دولت کی ہو یا کہ عسرت۔۔ ’یا کہ‘ ایک ساتھ لکھنے سے زبان کی سلاست متاثر ہوتی ہے ۔ ویسے بھی ’یا‘ اور’ کہ‘ ایک ہی معنی دیتے ہیں،وزن کی مجبوری اپنی جگہ یا اور کہ میں سے کسی ایک کو استعمال میں لانا چاہیے۔
کاری گری نامی نظم کا آغاز اس مصرع سے ہوتا ہے۔۔۔ میں اک محقق ہوں اور شاعر ہوں۔۔۔۔۔ وزن کی مجبوری اپنی جگہ اس مصرع میں پہلا’ ہوں ‘اضافی ہے ،جب محقق کے بعد لفظ’ اور‘ آگیا تو پھر پہلے’ ہوں‘ کا کوئی جواز بنتا بھی نہیں ہے۔ رضی حیدر جیسے معتبر شاعر کے کسی مصرعے میں جھول یا کوئی خامی نہیں ہونی چاہیے اور ہر مصرع اپنی بندش میں چست ہوناچاہیے تاکہ آئندہ نسلوں کو صحت مند ادب پڑھنے کو مل سکے اور وہ رضی حیدر کی تقلید پر فخر کرسکیں ۔
زنگ آلود آئینے کے مقابل نامی نظم میں علم العروض کی روشنی میں ایک دلچسپ تجربہ کیا گیا ہے۔ اس نظم کا پہلا مصرع ہے۔۔ پھر اچانک مجھے یاد آئے۔۔ یہ نظم فاعلن کے وزن پر ہے ۔اگر اس نظم کے پہلے مصرعے کا لفظ ’پھر‘ حذف کردیا جائے تو پوری نظم فاعلن کی جگہ فعولن کے وزن پر آجاتی ہے۔
لفظ آئنہ اردو شاعری میں دو طرح کے وزن پر باندھا جاتا ہے۔آئنہ(فاعلن) اور آئینہ(مفعول) ۔غالب کا شعر ہے۔

آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے ۔

جبکہ رشید رام پوری کا شعر ہے ۔

آئنہ دیکھ کے کہتے ہیں سنورنے والے
آج بے موت مریں گے مرے مرنے والے

غالب کے شعر میں آئینہ کو مفعول اور رشید رامپوری کے شعر میں فاعلن کے وزن پر باندھا گیا ہے۔اس کلیے سے ہر معتبر شاعر واقف ہے مگر بیشتر شعرا کتابت میں اس کو لکھتے غلط ہیں ۔ہمزہ(ء) بجائے خود بعض جگہوں پر یائے معروف، مجہول(ی) کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔غالب کے شعر میں اگر آئینہ کے جگہ آئنہ لکھ دیا جائے یا رام پوری کے شعر میں آئنہ کے جگہ آئینہ لکھ دیا جائے تو دونوں مصرعے بے وزن ہوجائیں گے۔رضی حیدر کے اس مجموعے میںایک دو نہیں نصف درجن سے زائد جگہوں پر آئنہ یاآئنے کی جگہ آئینہ اور آئینے لکھا گیا ہے۔ایک معتبر شاعر کو کتابت کی اس مہین غلطی کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
شاعری میں نادر،اچھوتی،منفرد تراکیب کے استعمال سے جہاں شعر کے حسن میں چار چاند لگ جاتے ہیں وہیں الفاظ کے لغوی معنی بھی بدل جاتے ہیں ۔رضی حیدر کے اس مجموعے میں جا بہ جا خوبصورت تراکیب استعمال کی گئی ہیں ۔مثلاً ۔ فضائے موت پرور،سوادِ بے حساں،وردِ احساس،دستِ ستم کیش،گردِ تمنا،حبسِ امروز،جوازِ جدائی،مرگِ ماضی،دیوارِ تحیر،دربارِ طرب،درِ بے حس،غرورِ درویشی،فروغِ مکر،وفورِ کذب اور طاقِ تاریک وغیرہ۔
جہاں ،وہاں، یہاں، کہاں وغیرہ کے ساتھ لفظ ’پر‘ یا ’پہ‘ کا استعمال فصاحت کے منافی ہے اور اساتذہ کے ہاں معیوب سمجھا جاتا ہے۔ رضی حیدر کی نظموں ایک مکالمہ کے مصرعے۔۔۔ جہاں پہ میں ہوں وہاں پر عجیب عالم ہے۔۔۔آخری عشق نامی نظم کے مصرعوں ۔۔جہاں پر تمھاری نگاہوں کا پہرہ لگا تھا۔۔۔ جہاں پر تمھارے بدن کی جنوں خیزخوشبو۔۔۔ جہاں پر خموشی بھی مفہوم پنہاں کی آواز تھی۔۔۔ یہ سورج ڈوب جائے گا نامی نظم کے مصرع ۔۔۔ سورج جہاں پر۔ وغیرہ میں جہاں کے ساتھ پر کا استعمال کیا گیا ہے جو ٹھیک نہیں۔اگر کسی کی سمجھ میں یہ مہین عیب اب بھی نہیں آیا تو وہ اوپر دیے گئے مصرعوں میں جہاں کی جگہ جدھر لکھ کر پڑھے تو اس کی سمجھ میں ا ٓجائے گا کہ جہاں کے ساتھ’ پر‘ یا ’پہ‘ کا استعمال کیوں معیوب ہوتا ہے۔
مغلوب الغضب موسم کے عنوان سے موجود نظم کا ایک مصرع ہے۔۔ مگر پھر وقت نے ایک موڑ کاٹا اور تازہ دم۔۔ ایک کی جگہ اک آئے گا ورنہ مصرع خارج الوزن ہوجائے گا۔
کتاب میں شامل چار خوبصورت نظمیں ،میرا دل منافق کا دل ہے،مغلوب الغضب موسم، یہ سورج ڈوب جائے گا اور تمھاری یاد آتی ہے، نثر سے قریب ترین ہیں ۔ان نظموں کو پڑھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم شگفتہ اور غنائیہ نثر پڑھ رہے ہیں ۔ یہ جہاں شاعر کا کمال ہے وہیں ان لوگوں کے لیے ایک مثال بھی ہے جو سہل پسندی کے باعث نثری نظم کہتے اور اسے بھی ادب کا حصہ مانتے ہیں۔ اگر وہ تھوڑی سی محنت کریں تو آزاد سانچے میں بھی نظم کہہ سکتے ہیں۔میری نظر میں تو نثری نظم کی حیثیت خواجہ سرا سی ہے ۔جس طرح خواجہ سرا کو نہ مرد اور نہ عورت مانا جاتا ہے اسی طرح نثری نظم کاشمار بھی نہ نثر میں ہوتا ہے نہ نظم میں۔
غلط العام ہو یا غلط العوام شاعر کو صحت ِ الفاظ کاپورا خیال رکھنا چاہیے ۔لغت شاعر کی محتاج ہوتی ہے شاعر لغت کا نہیں۔ یہ سورج ڈوب جائے گا نامی نظم کا آغاز یوں ہوتا ہے ۔۔مدیحہ چوہدری ۔۔تم اپنے گرد و پیش کی دنیا سے ۔۔۔ چوہدری کوئی لفظ نہیں درست لفظ چودھری ہے۔
240 صفحات کی اس کتاب میںفطری جذبے کی غیر فطری طریقے سے تسکین سمیت نئے موضوعات پر بھی نظمیں موجود ہیں جن پر اس سے پہلے کسی نے قلم اٹھانے کی جسارت نہیں کی ۔رضی حیدر کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے تہذیب کے دامن کو داغ دار کیے بغیر جو کہنا چاہا وہ کہہ دیا۔
زندہ باد رضی بھائی!
’ابن الوقت ‘غصے کی حالت میں کہی گئی نظم ہے جس میں شریف انسان کی بے چارگی اور لاچاری کو خوبصورتی سے اجاگر کیا گیا ہے۔’پندار کا آشوب ‘کو پڑھا تو مادی ترقی کے نقصانات سے آگاہی ہوئی۔’سال ِنو کی مبارک باد‘میں کراچی سمیت ملک بھر کے مخدوش حالات کی عمدگی سے عکاسی کی گئی ہے۔’وہ عورت‘ میں مشرقی عورت کی وفاداری، مجبوری اور مرد کی مکاری ،ناجائز فائدہ اٹھانے کی بدعتِ عام کو قلم بند کیا گیا ہے۔’کہاں سے روشنی اترے‘ میں عالمی سامراج کے پھیلائے ہوئے جال اور ہم مسلمانوں کے سیاہ کرتوتوں کی عکاسی کی گئی ہے۔’کاری گری ‘میں شاعر نے شاعر کی حقیقت کو عیاں کیا ہے تو’ خود فریبی ‘میں ایک سچے تخلیق کار کے کرب کو قرطاس پر نقش کیا ہے۔’خود فریبی‘ مجھے تمام نظموں میں سب سے زیادہ پسند آئی۔
’تمھاری یاد آتی ہے‘ کے عنوان سے موجود نظم کا مصرع ہے۔۔ اب کمرے میں میرے بے تحاشا دھول آتی ہے۔۔ کوئی آہٹ نہیں آتی۔۔ دھول اڑتی فصیح ہے، دھول آنا روز مرہ نہیں ۔اسی طرح آہٹ ہوتی ہے آہٹ آتی نہیں ۔
فعولن کے وزن پرنظم ’آئیڈیاز 2000 ‘کا مصرع ۔۔ میں مفلوک و مجبور دہقان کے دستِ ستم کیش کے عیش کی۔۔۔۔۔ دہقان پر آکر بے وزن ہوگیا۔ اگر دہقان کے جگہ دہقاں ہو تو وزن میں آتا ہے۔
مفاعیلن کے وزن پرنظم ’یہ سورج ڈوب جائے گا ‘ کے مصرعے ۔۔۔ شام کی بے آس آنکھوں میں ۔۔۔ زیست کی سب رعنائیاں میرا مقدر تھیں۔۔۔تب مجھے بھی آئینہ خوش رنگ۔یہ مصرعے شام،رعنائیاں اور تب پر آکر بے وزن ہوگئے ہیں۔
فعولن کے وزن پرنظم ’آخری خواب‘ کا مصرع۔۔صلح جوئی کی خواہش سے معمور ہونے کو بیتاب ہیں۔۔۔ خواہش پرآکر بے وزن ہوگیا۔
مفاعیلن کے وزن پر نظم ’تمھاری یاد آتی ہے‘کی تیسری لائن ۔۔ دیکھتا تھا تم ٹہلتی تھیں، جب سبزہ زار پہ اکثر کوئی گہری خموشی بس تمھاری ہم قدم ہوتی تھی۔۔ جب سبزہ زار پر آکر یہ مصرع بھی خارج الوزن ہوگیا۔
اوپر نشان زد کیے گئے مصرعوں کو کوئی بھی پوری نظم کی تقطیع کرکے چیک کرسکتا ہے۔ اسی لیے ہر نظم جس رکن یا وزن میں کہی گئی ہے وہ ساتھ میں لکھ دیا ہے۔
اس کے علاوہ آزاد نظم کے وزن کے حوالے سے دو آرا پائی جاتی ہیں ۔کچھ شعرا سالم رکن میں کہنے کو وزن مانتے ہیںجن میں یہ خاکسار خود بھی شامل ہے ،مگر کچھ شعرا سالم کے بجائے کہیں کہیں غزل کی طرح زحافات سے بھی کام لیتے ہیں ۔رضی حیدر نے بھی کئی جگہوں پر فاعلاتن کو فاعلن اور مفاعلین کو فعولن میں تبدیل کیا ہے ۔ اور یہ صرف رضی حیدر نے نہیں کیا ۔ن ،م راشد، اختر الایمان،مجید امجد ،فیض احمدفیض،میرا جی، پروفیسر سحر انصاری، شبنم رومانی سمیت بہت سے سینیئر شعرا نے ایسا کیا ہے۔ایسا کرنا ٹھیک ہے یا نہیں اس پر میرا الگ سے ایک مضمون لکھنے کا ارادہ ہے۔اسی لیے میں نے رضی حیدر کے نظموں میں اس موضوع کو نہیںچھیڑا۔
کتاب میں 30 ہائیکوز بھی شامل ہیں مگر انھیں جہاں جہاں صفحے کے نیچے جگہ بچی وہاں لکھا گیا ہے جس سے ان کی اہمیت کم ہوگئی ۔اگر ان ہائیکوز کو یکجا کرکے ایک جگہ لکھ دیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ہائیکوز بہت خوبصور ت اور پُرمعنی ہیں۔مضمون کے طوالت کے خوف سے صرف دو ہائیکوز پیش ہیں۔
پچھلی باتوں کا
ناخن سے کیا رشتہ ہے
میرے دانتوں کا۔
ایک سلگتی چیخ
دیواروں میں جذب ہوئی
لہجے کی تاریخ۔
کتاب میں ڈاکٹر پیرزادہ قاسم،ڈاکٹر ضیاء الحسن،ڈاکٹر آصف فرخی،ڈاکٹر توصیف تبسم ،پروفیسر جلیل عالی اور یوسف تنویر کی آرا ء اور مضامین شامل ہیں۔رضی حیدر جس مقام اور ادبی منصب پر فائز ہیں اس کو دیکھا جائے تو کتاب میں چار ڈاکٹرز ایک پروفیسرسمیت چھ افراد کی آرا کی کوئی خاص ضرورت تو نہیں تھی کہ آرا توکسی جونیئر شاعر کی حوصلہ افزائی ،تعارف اور اس کے مجموعے کو اہلِ ادب سے متعارف کرانے کے لیے شامل کی جاتی ہیں ۔ادب کے شائقین کے لیے یہ ہفت رنگ مجموعہِ نظم کسی بیش بہا صدف اور قیمتی ارمغان سے کسی طور کم نہیں۔

حصہ