پروفیسر عنایت علی خان
۔25 جولائی کے موعودہ انتخاب کی گہما گہمی میں دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں۔ قارئین ذرا سی تمہید برداشت فرمائیں۔ 1970ء کے انتخابات میں حیدرآباد کے ایک حلقے سے اپنی نامزدگی اور درگت کی روداد سپردِ قلم کروں۔
میں اچھا خاصا کیڈٹ کالج پٹارو میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہا تھا کہ جمعیت کے دو پرانے ساتھی فاروق صاحب اور مرحوم ارشد جمیل صاحب، جو اُن دنوں سکھر کے نجی تعلیمی ادارے اسلامیہ کالج میں پڑھا رہے تھے، ایک روز وہاں آدھمکے اور مختصر سی تمہید کے بعد سکھر جماعت کا یہ حکم صادر فرمایا کہ تمہیں تعمیر ِ نو ہائی اسکول کے صدر مدرّس کی ذمے داری سنبھالنی ہے۔ وجہ یہ بتلائی کہ مولانا مودودیؒ کے ایما اور تجویز پر تعلیمی اداروں خاص طور پر کالجوں سے لادینی نظریات کے حامل مدرّسین کے اثرات زائل کرنے کے لیے تنظیم اساتذہ کے نام سے لاہور میں ایک ادارہ قائم کرنا ہے جس کے لیے تعمیرنو اسکول کے صدر مدرّس جناب حافظ وحید اللہ خان صاحب کو لاہور کے ایک کالج میں منتقل کیا جارہا ہے اور راقم کو ان کی جگہ سنبھالنی ہے۔ کچھ مبہم سا اشارہ یہ بھی دیا گیا کہ اس تجویز کو مولانا مرحوم کی تائید بھی حاصل ہے۔ اب کیڈٹ کالج پٹارو میں رہتے ہوئے میرے دو شوق یعنی باغ بانی اور شکار بھی ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ شعبۂ تمثیل (ڈراما بازی) کی ذمے داری بھی سنبھال رہا تھا اور ساڑھے چار سال میں طلبہ بھی بہت حد تک مانوس ہوگئے تھے۔ کرکٹ کے نائب کوچ اور ایک ہاسٹل کے نائب انچارج کی ڈیوٹی بھی دے رہا تھا، البتہ وہاں کے فوجی پروٹوکول سے مطابقت پیدا نہیں کر پایا تھا جس کے تحت درجۂ چہارم کے ملازمین سے ربط ضبط، خاص طور پر شکار میں ان کی معیت کو اسٹیٹس کے منافی سمجھا جاتا تھا۔ قصہ مختصر ’’حکمِ حاکم مرگِ مفاجات‘‘ کے تحت وہاں سے مستعفی ہوکر سکھر پہنچا، لیکن وہاں کیڈٹ کالج کی نہج کا ڈول ڈال ہی رہا تھا کہ حیدرآباد جماعت کا فیصلہ سرزد ہوا کہ ایک صوبائی حلقہ سے مشاورت کے بعد آپ کا نام تجویز ہوا ہے چنانچہ ’’چھٹی لے کے آجا بالما…‘‘
ادارے کے سیکریٹری میاں محمد علی صاحب کے گوش گزار کیا کہ آپ کے برادرِ بزرگ میاں محمد شوکت صاحب کا یہ حکم صادر ہوا ہے، تو موصوف نے کمالِ رُکھائی سے فرمایا کہ حیدرآباد جماعت کا فیصلہ غلط ہے۔ جب عرض کیا گیا کہ میں تو سپاہی ہوں، جس مورچے پر حکم ہوگا جا کھڑا ہوں گا، آپ نے کیڈٹ کالج سے یہاں بلایا تو لبیک، یہاں حاضر ہوگیا، اب یہ فیصلہ ہوا ہے تو لبیک کہہ کر حیدرآباد جا رہا ہوں۔
اس پر میاں محمد علی نے خلافِ توقع جو دو باتیں فرمائیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ آپ نہ جائیں، ہم لوگ یہ الیکشن جیت نہیں رہے۔ میں نے کہا: آپ صوبائی ناظم ِانتخاب ہوکر…! کہنے لگے: میں ہی تو یہ بات کہہ سکتا ہوں۔ آپ کے پورے پاکستان سے چار آدمی آجائیں تو بہت ہے (اور واقعی چار ہی آئے تھے)، دوسری یہ تھی کہ اگر آپ جیت گئے تو اپنے حلقے میں رہیں گے، اور ہار گئے تو ہم ایک ہارے ہوئے امیدوار کو صدر مدرّس نہیں بنائیں گے۔ آج کل نوکری آسانی سے نہیں ملتی۔ میرا مشورہ مانیں اُن سے انکار کردیں، اطمینان سے اسکول چلائیں۔ میں نے عرض کیا: دیکھیے بھٹو سوشلزم کا نعرہ لے کر میدان میں اترا ہے، اس سیلاب کو روکنے کے لیے فی الوقت بند پر مورچہ لگانا ہوگا۔ اداروں کے دروازوں کو یہ سیلاب ایک تھپیڑے میں گرا دے گا۔ بولے: بہرحال آپ نے فیصلہ ہی کرلیا ہے تو اسکول سے استعفیٰ دے کر جایئے۔
سو میں حیدرآباد آگیا اور حافظ وحیداللہ خان صاحب کو سکھر کی صوبائی سیٹ پر لڑایا گیا۔ قومی پر سکھر سے اے کے بروہی صاحب تھے اور حیدرآباد سے مولانا وصی مظہر ندوی۔
انتخابی سلسلے کی میری پہلی تقریر پر احباب کا تبصرہ تھا کہ آپ نے کلاس اچھی لی تھی، لیکن کیفیت یہ ہو کہ:
صبح تقریر یہاں، شام کو تقریر وہاں
چیختے چیختے لیڈر کا گلا بیٹھ گیا
ہر گلی کوچے میں دن رات لگاتا ہے صدا
جو دے اُس کا بھی بھلا جو نہ دے اُس کا بھی بھلا
تو کارِ بکثرت کے مصداق تقریر میں مقررانہ انداز آتے چلے گئے، اس پر ظرافت اور اشعار کا تڑکا… مولانا کی اور میری جوڑی جلسوں میں خوب پھڑکی۔ اس دوران میرے اسکول کے عثمان نامی ایک شاگرد، جو کالج میں پہنچ کر ایک سوانگ بھر کر عثمان کینیڈی بن چکے تھے، ہمارے الیکشن آفس آئے اور کہا: قومی اسمبلی کے لیے تو میں جماعت ہی کو ووٹ دوں گا لیکن صوبائی میں مہاجرین کی نمائندگی کے لیے مہاجر محاذ کے ساتھ ہوں۔ کسی نے سوال کیا کہ اگر مہاجر محاذ نے آپ کو ٹکٹ نہیں دیا تو؟ جواب تھا: تو جو عوام فیصلہ کرے گی (لفظ ’عوام‘ کی تانیث سے کان پہلی مرتبہ آشنا ہوئے تھے۔)
اور پھر ہوا بھی یوں ہی، عوام نے فیصلہ کیا کہ بھاشانی صاحب کے مقابلے میں جماعت اسلامی کے برپا کردہ ’’شوکتِ اسلام‘‘ کے شاندار مظاہرے کے توڑ کے طور پر جو جماعت معرضِ وجود میں لائی گئی یعنی جمعیت علمائے پاکستان، وہ اس میں عثمانی نورانی (مولانا نورانی میاں مرحوم کے حوالے) کے طور پر نمودار ہوئے اور جنت کی کنجی (جمعیت کا نشان) سے صوبائی اسمبلی کا تالا کھول کر اس میں داخل ہوگئے۔ بعد میں وقتاً فوقتاً پارٹیاں بدلتے رہے۔ اُس وقت بھٹو صاحب کا انتخابی نشان تلوار تھی، اس حوالے سے دوچار اشعار یہ صادر ہوئے تھے:
دراز دستیٔ اہلِ ہوس نے پھول چُنے
ہمارے دامنِ حسنِ طلب میں خار آئے
اور بھٹو صاحب کی جیت کے حوالے سے:
لوگ پازیب کی جھنکار سمجھ کر دوڑے
آ کے دیکھا تو وہی شورِ سلاسل نکلا
کیسی معصوم ادا کیسی ستمگر نکلی
شہر کا شہر اسی تیغ کا گھائل نکلا
ہم نے سوچا تھا زمانے سے کریں تیرا گلہ
وہ بھی ظالم تری رفتار پر مائل نکلا
۔1970ء کے انتخاب کا تشویش ناک بلکہ ہولناک پہلو یہ تھا کہ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ، جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا، لیکن اس جگر خراش المیے سے فی الوقت صرفِ نظر کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہوں۔ انتخابات کے دوران جو لوگ لسٹیں اور پرچیاں بنا رہے تھے، اُن میں میرے ایک پرانے شاگرد بھی تھے جو اپنے پیپلزپارٹی سے وابستہ سندھی دوستوں کی سرزنش کے باوجود ہمارے ساتھ کام کررہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ انتخاب کا نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو، وہ مجھے لاہور لے جائیں گے تاکہ میں ذاتی طور پر اُن کی ملاقات مولانا مودودیؒ سے کرائوں۔ اس معاہدے کے تحت لاہور جانا ہوا اور ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ خوش قسمتی سے مولاناؒ سے ملاقات کا وقت بھی مل گیا۔ اس موقع پر مولانا مرحوم سے جو گفتگو ہوئی وہ ترجمان القرآن کے خاص نمبر میں ہے، لیکن الیکشن کا ذکر دوسرے روز شام کی محفل میں ہوا جہاں ہمیں دیکھ کر مولانا مرحوم نے فرمایا ’’اچھا، آپ لوگ ابھی تک یہیں ٹہل رہے ہیں؟‘‘
عصری نشست میں الیکشن میں ناکامی پر دکھ کا اظہار لان میں موجود افراد کی خاموشی و افسردگی سے ہورہا تھا۔ پھر بارش کے پہلے قطرے کے طور پر کسی صاحب نے شکست کا سبب جمعیت علمائے پاکستان کو بتلایا جس نے جماعت اسلامی کے خلاف بھرپور منافرانہ مہم چلائی تھی۔ گویا انہوں نے رُکے ہوئے سیلاب کا بند توڑ دیا اور سبھی نے اس پروپیگنڈے کی تفصیلات بیان کرنی شروع کردیں۔ ایک صاحب نے کہا: مولانا! یہ لوگ کہتے ہیں جماعت اسلامی چالیس سال کی ہوگئی ہے اور ہم جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیدائش، گویا ایک بچے نے جوان پہلوان کو پچھاڑ دیا۔ اس پر حیدرآباد کے نامزد امیدوار علیم الدین نیازی کا تبصرہ تھا: یہ تو ایسا ہی تھا جیسے کوئی شخص نماز کے لیے جارہا ہو اور گود میں بچہ پیٹ ہلکا کردے اور اُس شخص کی جماعت نکل جائے۔ ایک اور صاحب نے گرہ لگائی: مولانا! کہا جاتا تھا کہ یہ جنت کی چابی ہے اور جھنڈے پر گنبدِ خضریٰ… ووٹ ڈالنے وضو کرکے جانا، ورنہ ووٹ قبول نہیں ہوگا۔ ایک صاحب گویا ہوئے: مولانا! کہا گیا اس شب برأت پر اپنے مرحومین کی فاتحہ دلوالو، اگر یہ وہابی لوگ جیت گئے تو اگلی شب برأت کو تمہارے مرحومین بھوکے مریں گے۔ ایک اور آواز آئی: مولانا! یہ کہا گیا کہ جماعت اسلامی والے کہتے ہیں کہ سوشلزم آگیا تو روس کے زیر تسلط علاقوں کی طرح یہاں بھی مسجدوں میں تالے پڑ جائیں گے (آواز ذرا اور بلند ہوگئی)، مسجدیں مسمار کردی جائیں گی… ارے ہوجائیں مسمار، ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں پوری روئے زمین مسجد بنادی گئی ہے، ہم سڑکوں اور میدانوں میں نمازیں پڑھ لیں گے لیکن ہمارے بزرگوں کے مزار ڈھا دیے گئے تو یہ ہم دوبارہ کیسے بنائیں گے!
مولانا مرحوم خاموشی سے سب کی باتیں سنتے رہے، پھر آہستگی سے فرمایا ’’جی ہاں، ہور چوپو‘‘۔ سنجیدہ مجلس زعفران زار بن گئی۔ اب مولانا نے فرمایا: یہ لوگ ہمیں اپنا حریف سمجھ رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ان کے حریف نہیں، اِن کی فصیل تھے۔ اب جو طوفان آنے والا ہے ہم شاید اُسے روک لیتے، یہ نہیں روک سکیں گے۔ میں نے عرض کیا: مولانا! یہ جو صدر یحییٰ خان نے لیگل فریم ورک دینے کو کہا ہے اس کی کیا اہمیت ہے؟ اس سوال پر مولانا کا چہرہ کسی حد تک متغیر ہوگیا، بے زاری سے فرمایا: یحییٰ خان کے ہاتھوں میں اب رہا کیا ہے، اب تو انتظار کیجیے کہ یحییٰ خان پہلے خود گڑھے میں گرتے ہیں یا قوم کو پہلے گراتے ہیں۔
یہ تو تھی عصری نشست کی گفتگو کی روداد۔ انہی دنوں شورش کاشمیری کا ایک خط اور مولانا مرحوم کا جواب نظر سے گزرا جو جماعت کے وابستگان کے لیے انتہائی بصیرت افروز ہے۔
خط میں شورش صاحب نے لکھا تھا کہ ’’مولانا اس قسم کے نظامِ انتخاب میں تو جماعت قیامت تک نہیں جیت سکتی۔‘‘
جواب تھا کہ ’’جناب اس نظامِ انتخاب کے لیے جن ہتھکنڈوں اور بے ایمانی کی ضرورت ہے ہم وہ اختیار بھی کرلیں تو ان جیّد غلط کاروں سے پھر بھی پیچھے رہیں گے۔ ہمیں تو اپنی پچ پر کھیلنا ہے۔ ہمارا کام اندھیروں میں چراغ جلانا اور جلاتے رہنا ہے، اب چراغ جلاتے جلاتے چاہے صبح ہوجائے یا ہم یہی کام کرتے ہوئے اپنے رب سے جا ملیں۔‘‘ مزید ایک اور بات تحریر فرمائی تھی کہ ’’کوئی قوم اتنی بے وقوف نہیں ہوتی کہ بار بار انہی دھوکے بازوں سے دھوکا کھائے، بالآخر اس کی آنکھیں کھل کر رہتی ہیں۔ آپ صبر کے ساتھ سیاسی میدان میں رہتے ہوئے اپنا کام اخلاص سے کرتے رہیے، ایک وقت آئے گا کہ عوام خود آپ کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ ہمیں ان ظالموں سے نجات دلایئے، بشرطیکہ بیچ میں کوئی اڑنگا نہ لگا دے اور ظالم پھر مظلوم بن کر نہ آجائیں۔ رہی بات ہارنے کی، تو اگر جماعت نے غلط افراد کھڑے کیے ہوتے تو وہ ہارتی، ہارے تو عوام ہیں جنہوں نے ہمارے ایمان دار لوگوں کو چھوڑ کر بے ایمانوں کو منتخب کیا ہے۔ کم از کم پانچ الیکشن تک جیتنے کی توقع نہ کیجیے، چھٹے الیکشن میں، جیسا کہ میں نے کہا، لوگ خود آپ کے پاس آئیں گے۔‘‘
اختتامی بات یہ ہے کہ اڑنگوں (فوجی آمریت) کے بعد اب سابق حکمرانوں کے کرتوت میڈیا میں آنے شروع ہوگئے ہیں، نیز نیب اور عدلیہ کی مساعی بھی سیاسی کیچڑ صاف کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور مذہبی جماعتوں کے اتحاد سے اسلام پسندوں کے ووٹ بٹنے کا اندیشہ بھی نہیں رہا ہے، اب یہ قومی اتحاد کا کام ہے کہ 25 جولائی تک خود پر خواب و خور حرام کرکے اپنی انتخابی مہم کو منزلِ مراد تک پہنچائیں۔
تیز ترک گامزن، منزل ما دور نیست۔