شریکِ مطالعہ

1008

نعیم الرحمٰن
نصیر احمد ناصر دورِ حاضر میں اردو نظم کے بہترین شاعروں میں شامل ہیں۔ ان کی نظموں میں موضوعات کا تنوع، ہیئت اور تیکنیک کا بے مثال امتزاج ان کی شاعری کو عالمی معیار تک پہنچا دیتا ہے۔ ان کی شاعری کے پانچ مجموعے شائع ہوکر قارئین سے داد و تحسین حاصل کرچکے ہیں جن میں ’’پانی میں گم خواب‘‘، ’’عرابچی سوگیا ہے‘‘، ’’ملبے سے ملی چیزیں‘‘، ’’تیسرے قدم کا خمیازہ‘‘، ’’زرد پتوں کی شال‘‘ اور ’’سرمئی نیند کی بازگشت‘‘ شامل ہیں۔ نصیر احمد ناصر نے غالباً 1995ء میں میرپورآزاد کشمیر سے منفردادبی جریدہ ’’تسطیر‘‘ جاری کیا، جو ’’فنون‘‘ اور ’’اوراق‘‘ کی موجودگی میں بھی اپنی پہچان بنانے میں کامیاب رہا، اور نصیر احمد ناصر نے بحیثیت مدیر بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔ بلاشبہ تسطیر اپنے مشمولات کے اعتبار سے بہت اہم ادبی جریدہ ثابت ہوا۔ تسطیر کا یہ پہلا دور نصیر صاحب کے راولپنڈی منتقل ہونے پر ختم ہوگیا۔ پھر2010ء سے 2012ء کے درمیان تسطیرکے دو ضخیم شمارے راولپنڈی سے شائع ہوئے۔ تسطیر نے اس بار فنون اور اوراق کا خلا بخوبی پُر کیا جو احمد ندیم قاسمی اور وزیر آغا کے انتقال کے بعد جاری نہ رہ سکے۔ احمد ندیم قاسمی کے نواسے نیر حیات قاسمی فنون شائع کرتے رہتے ہیں، لیکن اب کئی سال سے وہ منظرعام پر نہیں آیا۔
دو سال قبل ’’تسطیر‘‘ کا تیسرا اور زیادہ باقاعدہ دور جہلم بک کارنر کے تعاون سے شروع ہوا، جس میں نصیر احمد ناصر کو گگن اور امر شاہد صاحب کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔ نصیر احمد ناصر ہی کی مانند اردو نظم کے ایک اورعمدہ شاعر علی محمد فرشی نے بھی راولپنڈی سے ایک شاندار ادبی جریدہ ’’سمبل‘‘ جاری کیا تھا جس کے شاید دس شمارے شائع ہوئے۔ خرابیٔ صحت کی وجہ سے فرشی صاحب کو سمبل کی اشاعت موقوف کرنا پڑی۔ کاش سمبل کی اشاعت میں بھی جہلم بک کارنر جیسے ادارے کا تعاون میسر آجائے اور وہ بھی ازسرنو اشاعت شروع کردے۔ بہرحال تسطیر جہلم بک کارنر کے بہترین طباعتی معیار کے ساتھ باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے۔ حال ہی میں تسطیر کے دورِنو کا چوتھا شمارہ شائع ہوا ہے جو پہلے تینوں پرچوں سے بہتر ہے۔ ساڑھے چھ سو صفحات کے اس شمارے کی قیمت سات سو روپے بھی بے حد مناسب ہے۔ پرچے میں شامل تحریروں نے تو اسے انمول بنادیا ہے۔
تسطیر کا سرِورق نوجوان مصورہ تمثیل حفصہ نے انتہائی دیدہ زیب بنایا ہے جن کا تعلق کوئٹہ کے معروف ادبی گھرانے سے ہے۔ ان کے والد سعید گوہر مرحوم اور جواں مرگ بھائی دانیال طریر سے ادبی دنیا میں کون واقف نہیں! ان کے علاوہ تمثیل کی بہنیں قندیل بدر، انجیل صحیفہ اور بھائی بلال اسود سبھی تخلیق کار ہیں۔ تمثل شاعری اور افسانہ نگاری بھی کرتی ہیں۔ انہیں فوٹو گرافی اور فوٹو ایڈیٹنگ سے بھی دل چسپی ہے۔ وہ حال ہی میں اپنے بھائی بلال اسود کا پہلا میوزک ویڈیو بھی ڈائریکٹ کرچکی ہیں۔ غرض وہ ایک ہمہ جہت فنکار ہیں۔
تسطیرکے آغاز میں نسیم سحر کی عمدہ حمدِ باری تعالیٰ

ہمارے چار سُو پھیلی ہوئی آیاتِ ربانی
گواہی دے رہی ہیں کون ہے وہ ذاتِ ربانی
اورپھرپروین طاہرکی نعت کاجواب نہیں:
مِرے آقاؐ
تِری اس ابتلائے ثور کو،
طائف کے قصے کو
میں جب بھی یاد کرتی ہوں
تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
مِرے دل کو رُلاتی ہیں
قرینہ غم کو سہنے کا سکھاتی ہیں

سبحان اللہ ایک ایک لفظ دل میں اتر جاتا ہے۔
ہمیشہ کی طرح اداریہ اِس بار بھی ایک نئے اور اہم موضوع پر ہے جس کا عنوان ’’نظم میں جدت و قدامت کا قضیہ اور تیسری لہر‘‘ ہے، جس میں لکھتے ہیں: ’’اس تحریر کا مقصود بنیادی نظری مباحث کو چھیڑنا یا جدید نظم کی تعریف متعین کرنا نہیں۔ کیونکہ جدید اردو نظم کے زیادہ تر مسائل نظری نہیں، عملی نوعیت کے ہیں۔ اردو میں نظم کی عملی یا اطلاقی تنقید نہ ہونے کے برابر ہے، اور اب تک سارا زور نظری تنقید یا تھیوری یا نصابی طرز کی تحقیقی اور تنقیدی ترجیحات و ترغیبات پر رہا ہے‘‘۔ یہ سوچ کے دَر وا کرنے والا اداریہ ہے جس کے آخر میں نصیر صاحب کہتے ہیں: ’’ابھی تک قدیم، روایتی اور جدید و بعد جدید میں الجھے ہوئے ہمارے بیشتر نقاد اور زعمِ جدت و ابہام میں مبتلا مگر لگے بندھے موضوعات اور بنے بنائے نقوشِِ پا میں پاؤں رکھنے کے عادی بعض نئے نظم نگار خود بھی اس تیسری لہر سے آشنا نہیں۔‘‘
محمد حمید شاہد نے جاوید انور کی نظم کا تجزیاتی مطالعہ کیا ہے اورکیا خوب کیا ہے کہ نظم کو آشکار کردیا۔ سعادت سعید اور قاضی افضال حسین سے مختصر انٹرویوز میں بھی کئی موضوعات پر اہم گفتگو کی گئی ہے۔
تسطیرکا سب سے اہم حصہ افسانوں کا ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو صفحات میں 29 افسانوں کو جگہ دی گئی ہے۔ سینئر افسانہ نگار رشید امجد ’’شہر بدر، شہر‘‘ لے کر آئے ہیں جس میں داستان کے پیرائے میں آج کی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ گلزار نے’’دائیں بائیں‘‘ کے نام سے مختصرافسانے میں تلمیح کے انداز لکھا ہے کہ انصاف پسند حکمرانوں کی حمایت ان کے ہاتھوں کی مانند ہرکوئی کرتا ہے اور ان کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہوپاتی۔ محمود احمد قاضی کا ’’اوٹ‘‘، میرے فیورٹ مصنف محمدالیاس کا ’’ماورا‘‘ بھی شان دار موضوع پر بے مثال ہیں۔ محمد حامد سراج ’’عبرت سرائے دہر ہے‘‘ لے کر آئے ہیں اور حسبِ سابق کامیاب ہیں۔ آخر میں نصیر احمد ناصر بھی افسانہ نگار کے روپ میں سامنے آئے ہیں۔ میری نظرسے اُن کا کوئی افسانہ نہیں گزرا۔ ’’خوابوں کا بستہ‘‘ میں انہوں نے اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کیا ہے اور اس قسم کی یادیں ہم سب کے ساتھ ہیں، اس لیے افسانے میں لگتا ہے کہ گویا یہ بھی میرے دل میں تھا۔
دورِ جدید کا تقاضا افسانچہ، مختصر کہانی اور مائیکروفکشن کے لیے بھی کچھ صفحات مختص کیے گئے ہیں جن میں نعیم بیگ، نقاط کے مدیر قاسم یعقوب کے آٹھ، عامر صدیقی اور منیر احمد فردوس کی تین تین، جبکہ بشریٰ شیریں کی ایک تحریر شامل کی گئی ہے، اور سب ہی اچھی ہیں۔
اس شمارے میں عرفان شہود کے سفرنامچہ کی پانچ مختصر تحریریں شامل ہیں جن میں ’’جھیل اوچھالی کے تین رنگ‘‘، ’’کھبیکی جھیل‘‘، ’’ کوہِ مُردار۔ موہنجوڈارو‘‘، ’’نیلم کی لال پری۔ رتی گلی جھیل‘‘ اور ’’لال مہڑہ کے قدیم ہندیرے اور پاماوتی‘‘ میں اپنے دیس کے حسن کو اجاگر کیا گیا ہے۔ عرفان شہود کا سفرنامچہ پڑھ کر ان کے مکمل سفرنامے کا انتظار رہے گا۔
ایک شاعر مدیر کے پرچے میں شاعری کا معیار تو ہونا ہی چاہیے۔ غزل پرداز کے 40 صفحات میں 10 شعرا کی 72 تخلیقات درج ہیں۔ ظفر اقبال

ہر ایک لفظ تری ذات کے برابر ہے
کہ شعر کہنا ملاقات کے برابر ہے
تری یہ طرزِ تغافل بھی ہے عزیز ہمیں
کہ یہ بھی تیری مدارات کے برابر ہے
ظفراقبال کی دس غزلیں ایک سے بڑھ کرایک ہیں۔
غافر شہزاد کے دو اشعار حسبِ حال ہیں
شہر میں رہ کر زندگی کرنا سیکھ لیا ہے
لوگوں نے سڑکوں پر مرنا سیکھ لیا ہے
چھوٹے تھے مٹھی میں سانپ پکڑ لیتے تھے
ہو کے بڑے اب ہم نے ڈرنا سیکھ لیا ہے

غزلوں کا انتخاب بہت اچھا ہے۔ ہرغزل میں دل کو چھو لینے والا ایک نہ ایک شعر موجود ہے۔ نصیر احمد ناصر نے اپنی بیاض سے 10 غزلیں بھی درج کی ہیں جو ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔

بادل ہیں کہیں اور نہ اشجار نمایاں
منظر میں پرندوں کی ہے اک ڈار نمایاں
ہم اہلِ محبت ہیں، فقط پیار کریں گے
تیروں کی نمائش ہو کہ تلوار نمایاں
بچوں کاادب میں گلزارکی دونظمیں ہیں، ایک کااقتباس:
آدمی کے پاؤں دو ہیں پاؤں پاؤں چلتا ہے
پنچھی بھی کبھی کبھی تو چھاؤں چھاؤں چلتا ہے

نظم اور نثری نظم کے لیے 85 صفحات مختص کیے گئے ہیں جن میں 42 شعرا کی 129 نظمیں شائع ہوئی ہیں، جن میں گلزار تو اپنا تعارف آپ ہیں لیکن تبسم کاشمیری، پروین طاہر، بشریٰ اعجاز، عمار اقبال، تمثیل حفصہ، انجیل صحیفہ اور نیل احمد کی تخلیقات نے بے حد متاثر کیا۔
فلسفہ ظفر سپل کا خاص موضوع ہے، ان کی تحریروں نے فنون میں ہی متاثر کیا تھا۔ ظفر سپل نے ’’والٹیئر‘‘ پر مضمون تحریر کیا ہے جس کا آغاز انہوں نے والٹیئرکے مشہور قول’’جو کچھ آپ کہتے ہیں، مجھے اس کے ایک حرف سے بھی اتفاق نہیں، لیکن میں اس بات کے لیے اپنی جان تک دے دوں گا کہ آپ کوآزادیٔ رائے کا حق حاصل ہے‘‘۔ مضمون بہت اچھا اور معلومات افزا ہے۔ اقبال فہیم جوزی کا طویل مضمون ’’وجود اور لایعنیت‘‘ بھی اپنے موضوع سے انصاف کرتا اور قاری کے علم میں اضافہ کرتا ہے۔
نقد ونظر میں ڈاکٹر اقبال آفاقی نے بانو قدسیہ کے ’’راجا گدھ‘‘ کا بھرپور تجزیہ کیا ہے۔ اکرام اللہ کے ’’گرگِ شب‘‘ پر ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے اچھا مضمون لکھا ہے۔ محمد الیاس کے ناول ’’کہر‘‘ کا ڈاکٹر جمیل حیات نے اچھا تجزیہ کیا ہے۔ رفیع اللہ میاں، پروفیسر قمرجہاں، تالیف حیدر، ظفر حسن رضا، ڈاکٹر فوزیہ چودھری، منیر احمد فردوس اورسعدیہ ممتاز نے بھی اچھے مضامین تحریر کیے ہیں۔
غزلوں کے دوسرے حصے میں ناصرہ زبیری، ڈاکٹر رؤف خیر اور ریاض ندیم نیازی کی غزلوں کا جواب نہیں، دیگرغزلیں بھی اچھی ہیں۔ تراجم میں ژاں ژینے کے انٹرویوکا ترجمہ سہیل احمد نے کیا ہے جس سے خاصی معلومات حاصل ہوئیں۔ غرض تسطیرکا تازہ شمارہ بہت بھرپور اور خوب سے خوب تر کی جانب رواں دواں ہے۔

حصہ