محمد اویس سکندر
ملک میں تبدیلی کیسے لائی جاسکتی ہے ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو آپ کسی سے پوچھیں گے تو آپ کو اس سوال کے مختلف جوابات ملیں گے کوئی آپ کو حکمرانوں کے بدلنے کو تبدیلی کہے گا، کوئی آپ کو تعلیم کا نظام بہتر کرنے کو تبدیلی کہے گا ، کوئی آپ کے علاقے میں مختلف ہونے والے ترقیاتی کاموں کو تبدیلی کہے گااور کوئی آپ کو شہر میں جانے کا مشورہ دے گا کہ وہاں جاکر دیکھیں تبدیلی آپ کو واضح نظر آجائے گی لیکن میری نظر میں اس طرح کی باتوں کو تبدیلی نہیں کہا جاسکتاہے۔
تبدیلی زبانی کلامی کہنے سے نہیں آتی بلکہ تبدیلی آپ کی نیت بدلنے سے آتی ہے، تبدیلی آپ کی سوچ بدلنے سے آتی ہے ، تبد یلی آپ کے مختلف کاموں میں کیے گئے نیک ارادے سے آتی ہے۔ قارئین اپنی سوچ، اپنے ارداے اور اپنی نیت کو بدلنا انسان کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے اگر انسان اپنی سوچ کو بدل لے تو تبدیلی ممکن ہے ورنہ تبدیلی کی آپ صرف خواہش کر سکتے ہیں ، آپ دوسرے لوگوں کو بدلنے کے مشورے دے کر تبدیلی نہیں لاسکتے آپ لاکھ کوشش کر کے دیکھ لیں تبدیلی ایسے نہیں آئے گی تبدیلی بس آپ کی سوچ بدلنے سے آئے گی کیوں کہ جب آپ انفرادی طور پر اپنی سوچ فکر کو تبدیل کریں گے توآپ کو اپنے ظاہری اعمال میں تبدیلی صاف نطر آجائے گی یعنی کہ طرز زندگی میں تبدیلی آئے گی، گفتار میں تبدیلی آئے گی ۔
تبدیلی لانے کی بہترین نظیر یہ ہے کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے جو نظریہ پیش کیا پہلے اس پر خود عمل کیا اور بعد میں دوسرے لوگوں کو اس پر عمل کرنے کو کہا۔ہم بطور مسلمان اگراپنے مذہب اسلام پر ہی سہی معنوں میں عمل کرلیں تو تبدیلی لانے جیسا مشکل کام بھی آسان ہو جاتا ہے۔ہم اُسوہ حسنہ کی روشنی میں روحانی طور پر تبدیلی لا سکتے ہیں ۔ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اپنی تریسٹھ سالہ عمر مبارکہ میں سے چالیس سال جملہ احکام الہٰیہ کی عملی طور پر خاموش تبلیغ فرمائی ، اور باقاعدہ اعلان نبوت کے بعد بقیہ تئیس سال عملی تبلیغ کے ساتھ ساتھ لوگوں کی زبان مبارکہ کے ذریعے تربیت میں بسر فرمائے۔ اسوہ حسنہ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اگر ہم کسی کی اصلاح و تربیت کرنا چاہتے ہیں تو کہنے سے زیادہ عملی تربیت پر یعنی صرف قرآن وحدیث اور اولیاء کرام کی حیات مبارکہ کے موضوعات پر لیکچر یا درس دینے کی بجائے اپنی زندگی میں وہ رنگ پیدا کر لیں جس کو دیکھ کر لوگوں کے دلوں میں خودبخود اس کام کرنے کو رغبت پیدا ہو۔
روحانیت سے تبدیلی لانے کے حوالے سے ایک مثال میرے ذہن میں گردش کر رہی ہے کہ شہد کی مکھی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ جس طرح میں مختلف پھولوں کے رس اکٹھے کر کے اپنے جسم پر لاگو کرتی ہوں ، اور جسم سے گزار کر چھتے میں اکٹھا کر لیتی ہوں اور خدا کے حکم سے اس میں مٹھاس آجاتی ہے ، اے انسان تو بھی مختلف جگہوں سے رس اکٹھا کر کے اپنے اوپر لاگو کر ،اور پھر اسکو لوگوں کے سامنے بیان کر ، تب لوگ بھی ویسا بننے کی کوشش کریں گے جیسا تو ہے اس طرح کرنے سے روحانی طور پر تبدیلی خودبخود آجائے گی۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہم بطور قوم ملک میں تبدیلی کیسے لائیں ؟ہمارے معاشرے میں تبدیلی لانے کو سیاست دانوں سے مشروط کر دیا جاتا ہے یہاں یہ سمجھا جاتا ہے جو مختلف ترقیاتی کام کرتا ہے، میٹرو بسیں چلاتا ہے،یا کہا جاتا ہے فلاں نے ترقیاتی منصوبوں کے لئے یہ ایجنڈا پیش کر دیا ہے وہ تبدیلی لائے گا جناب اس طرح بالکل ممکن نہیں ہے۔ میری نظر میں تبدیلی لانے کا سب سے بڑا ذریعہ عوام ہیں ۔ ہم جتنے مرضی منصوبے زیر غور لے آئیں کچھ فرق نہیں پڑے گا تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب ہمارے عوام تبدیل ہوں گے ۔ میری بات کرنے کا مطلب مقصد یہ ہے کے عوام ذات برادری سے باہر نکلے یا ووٹ بیچنے سے باہر نکلے ، کرپٹ لوگوں کو ووٹ نہ دے اور یہ نہ دیکھے کے جو الیکشن میں کھڑا ہے وہ امیر ہے یا غریب ہے تب تک تبدیلی نہیں آنی مطلب ایک سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے والا اسی ہزار ووٹ لے جاتا ہے اور اس کے مقابلے میں کھڑا ایم فل یا پی ایچ ڈی صرف دو سو ووٹ لے پاتا ہے میری بات کرنے کا مطلب یہ ہے کے ہمارے عوام کو شعور نہیں ہے کہ ہمارے ووٹ کا صحیح حقدار کون ہے ۔
میری اس مثال کو آپ اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ برطانیہ میں لندن کے میئرکے انتخابات میں وہاں کے عوام نے ایک ارب پتی کے مقابلے میں ایک غریب کو ووٹ دیا ہے باوجود اس کے کہ وہ ایک پاکستانی ہے وہاں کے عوام نے دونوں امید واروں کو پرکھا کہ ان دونوں میں سے سہی کون ہے وہاں کے عوام نے پیسے کو ایک طرف رکھ کر ووٹ دیا مطلب تبدیلی لانے کے لیے وہاں کے عوام نے ایک مسلمان کو ووٹ دیا۔ اس کے بعد اگر ملک کی معیشت بہتر ہو گی تو تبدیلی آئے گی جب تک عوام غریب رہیں گے تبدیلی نہیں آئے گی کیوں یہ عوام سیاست دانوں کی غلام ہیں جیسے کچھ دن پہلے واپڈا کے ایک اہلکار کو جلسے میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے معطل کر دیا گیا تھا یہ غریب عوام کی مجبوری ہے کہ انھیں جو کچھ کہا جاتا ہے وہ وہی کرتے ہیں۔
تبدیلی کے لئے ایک اور چیز ضروری ہے وہ ہے ووٹ ڈالنا کیونکہ ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے حلقے میں ووٹ 5لاکھ رجسٹرڈ ہوتا ہے جبکہ ووٹ ڈالنے والے زیادہ سے زیادہ 2لاکھ ہوتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ باقی لوگ بھی جب تک ووٹ نہیں ڈالیں گے تبدیلی نہیں آئے گی ۔ اب یہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ووٹ صحیح لوگوں کو ڈالیں تاکہ وہ منتخب ہو کر سہی معنوں میں ملک کو قوم کی خدمت کریں اور ہمارا ملک تبدیل ہو کر ایک صحیح اور اچھے معاشرے میں ڈھل جائے۔