حذیفہ عبداللہ
فخرو معمول کے مطابق صبح سویرے ہی اپنے کام کا آغاز کر دیا کرتا اس نام تو فخرالدین تھا لیکن مختصر ہو کر فخرو ہو گیا تھا اس کا کام تھا ہی کیا وہ کچرا کنڈیوں سے کاغذ چنتا اس کا یہ کام صبح سے شروع ہوکر شام تک جاری رہتا جمع شدہ ردی کاغذ ٹھیکیدار کے حوالے کرتا اور اپنی مزدوری وصول کرتا جس سے اس کے گھر کا چولھا جلتا گھر میں اس کے علاوہ اس کی ماں اور دو چھوٹے بھائی تھے فخرو کی خواہش تھی کہ وہ اسکول جائے نہ صرف وہ پڑھے بلکہ اس کے دونوں بھائی بھی تعلیم حاصل کریں۔ دونوں بھائی ابھی اسکول جانے کی عمر کو نہیں پہنچے تھے لیکن فخرو کو اپنے ہی نہیں بلکہ ان کے مستقبل کی بھی فکر تھی جس کا اظہار وہ اپنی ماں سے اکثر کیا کرتا تھا۔ فخرو کاغذ جمع کرتے ہوئے جب بھی ایک اسکول کے قریب کچرا کنڈی پر بیٹھتا تو وہ حسرت بھری نظروں سے دیکھتا اور سوچتا کہ کاش میں بھی طالب علم ہوتا میرے ہاتھوں میں اسکول بیگ ہوتا اس سوچ میں گم ہو کر وہ اپنے کام کو بھی بھول جاتا۔ اس پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی پھر وہ اپنے جذبات پر قابو پاتا اور اپنے کام میں مشغول ہو جاتا ۔ ایک دن جب وہ کاغذ جمع کرتا ہوا اسکول کے قریب کچرا کنڈی پر آیا اور اسکول کی عمارت کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ اسے اپنے کاندھے پر ایک بوجھ سا محسوس ہوا وہ ایک دم اپنی بے خودی کی کیفیت سے باہر آیا اس کے سامنے ایک شخص کھڑا ہے اور پوچھ رہا ہے بیٹا میں کئی روز سے آپ کو دیکھ رہا ہوں آپ اسکول کی طرف دیکھتے ہوئے بیگانہ سے ہو جاتے ہو آخر مسئلہ کیا ہے فخرو کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ بس علم حاصل کرنا چاہتا ہوں مگر حالات اجازت نہیں دیتے ان صاحب نے فخرو کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ بیٹا غم نہ کرو آپ میرے ساتھ اسکول میں آئو میں اس اسکول کا ہیڈ ماسٹر ہوں میرا نام محمد حسین ہے وہ فخرو کو اپنے ساتھ اسکول لے گئے وہ اسکول ایک سرکاری اسکول تھا لیکن دوسرے اسکولوں کی طرح نہیں بلکہ ہیڈ ماسٹر محمد حسین صاحب ایک منظم انداز میں ایسے چلا رہے تھے اور اسکول تعلیمی لحاظ سے دوسرے پرائیوٹ اسکول کا ہم پلہ تھا ہیڈ ماسٹر صاحب کی کوششوں سے فخرو کا داخلہ ہو گیا اسکول یونیفارم کتابوں کے علاوہ وظیفہ بھی مقرر ہو گیا تاکہ معاشی فکر سے آزاد ہو کر تعلیم حاصل کرے فخرو کے بجائے وہ اب فخرالدین اپنی ذہانت اور محنت سے حصول علم میں مصروف ہو گیا وہ علم کی منازل طے کرتا رہا اسکول، اسکول سے کالج اور پھر میڈیکل کی تعلیم آج وہ ایک شہر کا ایک کامیاب ڈاکٹر تھا اس کے مطب یہ ڈاکٹر فخرالدین کا بورڈ آویزاں تھا وہ اپنا ماضی نہیں بھولا اور نہ ہی ہیڈماسٹر محمد حسین صاحب کو جن کے باعث وہ آج معاشرے کا ایک کار آمد فرد بن سکا وہ مستحق مریضوں کا مفت علاج کرتا، ان کی مدد کرتا اس کے علاوہ ایسے ضرورت مند بچوں کو تلاش کرتا جو تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہوں اور ان کے حالات اجازت نہ دے رہے ہوں ماسٹر محمد حسین کا روشن کیا ہوا چراغ آج دوسرے اور بھی چراغ روشن کر رہا تھا۔