تنویر اللہ خان
کسی بھی طرح کے انتخابات میں ہمیں اپنے لیے قیادت چننے کا اختیار دیا جاتا ہے۔ اس موقع پر چننے والے بااختیار ہوتے ہیں، اور پھر اگلے انتخابات تک بے اختیار ہوجاتے ہیں، اور سارے کا سارا اختیار چُنے جانے والوں کو منتقل ہوجاتا ہے۔ ہمارے ملک میں جس طرح کی نقالی جمہوریت راج کررہی ہے اس میں چنے جانے والے چاہیں تو اپنے اس اختیار کو اپنی ذات، اپنی خواہشات، اپنے لیے مال و دولت بٹورنے کے لیے استعمال کریں، اور چاہیں تو اپنے اس اختیار کو ملک و قوم کی بہتری کے لیے استعمال کریں۔
انتخاب خواہ کسی بھی نوعیت اور سطح کا ہو، ہمارا رویہ یہ ہوتا ہے کہ اس موقع پر ہم ذاتی مفاد کو اوّلیت دیتے ہیں، ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہماری ذات، برادری، جماعت کا آدمی خواہ وہ چور، ڈاکو ہی کیوں نہ ہو، منتخب ہوجائے تاکہ ہمیں بھی لوٹ کے مال کا ساجھی بنالے۔ ڈاکے کے مال میں حصے داری کا یہ عوامی خواب کبھی پورا ہونے والا نہیں ہے۔ جس طرح چرواہے جانوروں کے ریوڑ کو قابو میں رکھنے کے لیے اپنے ساتھ کچھ کتے رکھتے ہیں اسی طرح ہمارے لیڈران نے عوام کی لالچ کی اس نفسیات کو سمجھتے ہوئے اور عوام کو جانوروں کا ریوڑ جانتے ہوئے اپنے گرد انسان نما کتوں کا ہالہ بنا رکھا ہے۔ ہمارے لیڈران اپنے ان کتوں کو اُن کی اوقات کے مطابق راتب دیتے رہتے ہیں، اور ان کے یہ پالتو کتے عوام کو جانوروں کی طرح جس طرف چاہتے ہیں ہنکاتے رہتے ہیں۔
پاکستان کی ستّر سالہ اور کراچی کی تیس سالہ تاریخ میری اس بات پر گواہ ہے۔
سندھ میں 1970ء سے پہلے لسانی تعصب نے، اور اس کے بعد پیپلزپارٹی نے اپنے چند سو ایجنٹوں کے ذریعے عوام کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ جب کہ سندھ کے مرکز کراچی کو ایم کیو ایم نے اپنے چند سو غنڈوں کے ذریعے غلام بنایا ہوا تھا۔ پنجاب کے عوام نے بھی اپنی برادریوں کے سرخیلوں کو اپنی لگام پکڑائی ہوئی ہے۔ ان کے یہ سرخیل اُنھیں جس طرف چاہیں ہنکا لے جاتے ہیں۔ خیبر پختون خوا کا معاملہ کچھ مختلف ہے، لہٰذا یہاں ہونے والے انتخابات میں کچھ نہ کچھ بدلتا رہتا ہے۔ بلوچستان کے عوام اور لیڈران تو عرصۂ دراز سے خود رحمی میں مبتلا ہیں، وہ اپنی ہر مشکل کی وجہ کہیں اور تلاش کرتے ہیں۔ جب تک وہ اپنی اس کیفیت سے باہر نہیں آتے اُن پر الیکشن یا کسی اور بات کا اثر ہونے والا نہیں ہے۔ یہ ہے ہمارا انتخابی ماضی۔
اللہ بڑے مہربان اور نہایت رحم کرنے والے ہیں، لہٰذا انھوں نے اپنے بندوں کے لیے واپسی کا، ماضی سے پلٹنے کا، اب تک کی ہوئی غلطیوں سے چھٹکارے کا راستہ کھلا رکھا ہے۔ ہمیں چند دنوں بعد الیکشن کی صورت میں اب تک کی سیاسی کوتاہیوں سے نجات کا ایک موقع ملنے والا ہے، یہ موقع ہمارے آئندہ پانچ برسوں اور اس کے بعد بھی عزت، خوشحالی، امن کا سبب بن سکتا ہے ’’اگر ہم چاہیں تو‘‘۔ لیکن اگر ہم وہی کچھ کرتے رہے جو اب تک کرتے آئے ہیں تو ہمارے ساتھ وہی ہوتا رہے گا جو اب تک ہوتا آرہا ہے۔
25 جولائی کو بچھائی جانے والی انتخابی بساط پر دینی جماعتوں نے شہ مات کی حکمت عملی اختیار کی ہے، اگر ہمارا ذہن سیاسی ارتقاء کررہا ہے تو ایک آدمی ایک ووٹ کے اس انتخابی نظام میں یہ دینی جماعتوں کا آخری انتخابی اتحاد ہوگا، نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو۔
پاکستان میں جماعت اسلامی ہی صرف ایک سیاسی جماعت ہے، باقی ساری ’’انتخابی پارٹیاں‘‘ ہیں۔ اسی طرح جماعت اسلامی ہی واحد جمہوری مذہبی جماعت ہے۔
جماعت اسلامی عوامی راضی خوشی سیاسی تبدیلی چاہتی ہے، لہٰذا انتخابات میں حصہ لینا جماعت اسلامی کی سیاسی، نظریاتی جدوجہد کا حصہ ہے۔
اقتدار حاصل کرنا سیاسی جماعتوں کا اصل اور واحد مقصد ہوتا ہے، لہٰذا ان کے رہنما کسی بھی طرح اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اُن کی اقتدار پانے کی یہ جدوجہد اپنی ذات، اپنے خاندان یا زیادہ سے زیادہ اپنے ورکر کے مالی فائدے کے لیے ہوتی ہے۔جماعت اسلامی بھی سیاسی جماعت ہونے کے ناتے اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے، لیکن حصولِ اقتدار جماعت اسلامی کا اصل اور واحد مقصد نہیں ہے، اور نہ ہی جماعت اسلامی کے رہنما اپنی ذات، اپنے خاندان یا اپنے ورکر کے مالی فائدے کے لیے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں، بلکہ جماعت اسلامی انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے چھڑانے کے لیے اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہ نجات معاشی اور تمام طرح کی غلامیوں سے نجات ہے۔
لہٰذا جماعت اسلامی کسی بھی طرح حصولِِ اقتدار کے بجائے اصول پر قائم رہتے ہوئے اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد کررہی ہے۔ جو جماعتیں محض انتخابات کے لیے ہی بنتی ہیں وہ انتخابی ناکامی کے بعد جلد بگڑ بھی جاتی ہیں۔ کیونکہ جماعت اسلامی کا مقصد صرف انتخابی کامیابی نہیں ہے لہٰذا اس کے لیے انتخابی نتائج زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں ہیں۔ مقصد کا یہ فہم صرف جماعت اسلامی کے رہنمائوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے کارکن اور اس کے ووٹر بھی اس کا ادراک رکھتے ہیں، لہٰذا کسی بھی نتیجے کی صورت میں جماعت اسلامی کا کوئی رہنما پارٹی بدلتا ہے اور نہ ہی جماعت کا کوئی کارکن اور ووٹر کسی اور پارٹی کی طرف بھاگتا ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنمائوں، کارکنان اور ووٹرز کے ذہنوں اور دلوں میں یہ بات راسخ ہے کہ انتخابی کامیابی حاصل کرنا ہے تو یہیں رہ کر کرنا ہے، اور اگر انتخابی کامیابی نہیں بھی ملتی، تب بھی ان کی جدوجہد، محنت، دن رات کی بھاگ دوڑ، پیسے کا خرچ کرنا رائیگاں نہیں جائے گا بلکہ اُسے اس دُنیا میں بھی عزت ملے گی اور آخرت میں اللہ کے دربار میں بھی اس کی پذیرائی ہوگی۔
جماعت اسلامی تمام وقت ہی کسی نہ کسی معرکے میں مصروف رہتی ہے، لہٰذا اقدامات، فیصلے، کامیابی ناکامی… اس احتساب و نظرثانی کا سلسلہ جماعت کے معمول کا حصہ ہے۔ جسں طرح جماعت اسلامی کی قیادت کا حق فیصلے کرنا ہے اسی طرح کارکن کا یہ حق ہے کہ وہ ان فیصلوں کے نقصان، فائدے پر اپنی رائے کا اظہار کریں۔ لیکن عین معرکے کے وقت کسی بھی طرح کی تنقید، احتساب اور ذاتی حوالوں سے ناپسندیدگی کا اظہار احتساب نہیں دشمنی ہے۔ جب معرکہ درپیش ہو تو ہمیں اختلاف و احتساب کا دروازہ بندکردینا چاہیے۔ معرکے کے وقت اختلاف کرنے والے دانستہ یا نادانستہ دراصل عبداللہ بن ابی کی پیروی کرتے ہیں۔
الیکشن بھی ایک معرکہ ہے، لہٰذا اس موقع پر اپنی تمام تر صلاحیت اور مال الیکشن میں کامیابی کی طرف لگادیں۔ کسی کو اپنے حلقے میں نمائندے کی نامزدگی پر اعتراض ہوسکتا ہے، کسی کو جلسوں کی جگہ کے انتخاب پر اعتراض ہوسکتا ہے، کسی کے خیال میں امیدوار کا گلی گلی گھومنا، فرد فرد سے ملنا، مسجد مسجد جانا مؤثر ہوگا، اور کوئی یہ سمجھتا ہوگا کہ ہمیں بڑے بڑے جلسے کرنے چاہئیں، ریلیوں اور جلوسوں کے ذریعے ٹیمپو بنانا چاہیے۔ لیکن معرکے کے وقت کارکن کو یہ سارے معاملات جماعت کے بنائے ہوئے نظم پر چھوڑ دینے چاہئیں اور اپنی تمام تر توجہ اور کوشش نظم کے کیے جانے والے فیصلوں پر اچھے سے اچھے طریقے سے عمل کرنے پر مرکوز کردینی چاہیے۔ گاڑی کو کوئی آگے دھکا دے رہا ہو، کوئی دائیں جانب موڑ رہا ہو اور کوئی بائیں جانب اس کا رخ کرنا چاہتا ہو، اور یہ سارے مخلص اور سچے بھی ہوں تو بھی وہ گاڑی کو آگے نہیں بڑھا سکتے۔ لہٰذا معرکے کے وقت سب مل کر ایک سمت میں اپنی توانائی، اپنا مال اور وقت لگادیں۔ معرکے کے بعد تنقید، احتساب، جائزے کا حق بحال ہوجائے گا۔ کارکن کی آج کی یکسوئی اُسے ایسی اخلاقی برتری کی طاقت دے گی کہ کل اُس کی تنقید کو کوئی نظرانداز نہیں کرسکے گا۔
میرا اب تک کا یہ مشاہدہ رہا ہے کہ ہم انتخابی معرکے کے وقت بھی اپنے ذمے داران کی کمک کا انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کوئی اسلم مجاہد یا نصراللہ شجیع آکر مسئلہ حل کرے گا۔ معرکے کے وقت ہر کارکن کو نصراللہ شجیع اور اسلم مجاہد بن کر اپنا رول پلے کرنا چاہیے۔ جب تک ہزاروں نصراللہ شجیع اور ہزاروں اسلم مجاہد برسر پیکار نہیں ہوں گے اُس وقت تک کوئی مقابلہ جیتا نہیں جاسکتا۔ لہٰذا تمام انتخابی مہم اور خاص طور پر پولنگ ڈے پر کارکن کے ذمے جو کام لگادیا جائے اُس کام کو ہی اپنی زندگی کا مقصد اور اپنے آپ کو اسلم مجاہد، نصر اللہ شجیع سمجھ کرکرے۔ اس طرح کرنے سے بہت کم خدشہ ہے کہ کارکن سے کوئی نقصان دہ کام ہوجائے۔ اور اگر کچھ غلط فیصلہ ہو بھی گیا تو اللہ اس کجی کمی کو پورا کریں گے۔ لہٰذا پولنگ ڈے پر منہ اندھیرے اُٹھ کر، نماز پڑھ کر اللہ سے بصیرت اور قوتِ عمل مانگ کر اپنے کام پر ڈٹ جائیں۔ بلاشبہ اللہ آسمان سے فرشتے مدد کو اتاریںگے۔
ہماری اکثریت کو سیاسی جماعتوں کے بارے میں یہ کہتے سنا گیا ہے کہ ’’سب ایک سے ہوتے ہیں‘‘۔ چند برسوں پہلے تک اس کا کوئی جواب نہیں تھا، لیکن عبدالستار افغانی سے لے کر عنایت اللہ، محمدعلی تک نے یہ ثابت کردیا ہے کہ سب ایک سے نہیں ہیں۔ ماضی میں جماعت اسلامی کی دیانت داری کے دعوے محض دعوے کہے جاسکتے تھے، لیکن اب ان دعووں کے پیچھے عمل کی شہادت موجود ہے، لہٰذا عوام کو بھی اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ جماعت اسلامی کے جن لوگوں کو عوام نے منتخب کیا اور اُن پر جتنا اعتماد کیا وہ اس پر پورا اُترے ہیں۔ سب ایک سے نہ ہونے کی اس سے بڑی گواہی اور کیا ہوسکتی ہے!