محمد انور
۔25 جولائی قریب آنے کے ساتھ عام انتخابات میں کامیابی کے لیے تمام ہی پارٹیوں کے کارکنوں میں جوش و خروش بڑھتا جارہا ہے۔ اس بار یہ انتخابات ایک ایسے وقت یا ماحول میں ہورہے ہیں جب سپریم کورٹ اور قومی احتساب بیورو (نیب ) غیر معمولی طور پر فعال ہے۔ عدلیہ نے ہفتے اور اتوار کی چھٹیوں میں بھی مقدمات کی سماعت کررہی ہے جبکہ نیب کے افسران بھی کرپٹ عناصر کے خلاف بلا امتیاز کارروائی میں مصروف ہیں۔ اسی صورتحال میں مسلسل حکومتوں کا حصہ رہنے والی جماعتیں خصوصا مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کو سخت احتسابی عمل کا سامنا ہے۔ ویسے تو تحریک انصاف اور ایم کیو ایم سے وابستہ بعض شخصیات نیب اور سپریم کورٹ کی کارروائیوں کی زد میں آ چکی ہیں لیکن اس سے ان کی جماعتوں کی انتخابی مہم پر وہ اثر نہیں پڑھ رہا جو مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی پر پڑھ رہا ہے۔
اس بار ہونے والے عام انتخابات کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ان الیکشن کے ذریعے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور سب سے بڑے شہر کراچی کو فتح کرنے کی بازگشت عام ہے اس وجہ سے سب ہی کی نظریں اس صوبے اور شہر کراچی کی سیاسی جماعتوں پر لگیں ہوئی ہیں۔
صوبہ پنجاب جہاں گزشتہ دس سال سے مسلم لیگ نواز کامیاب ہوتی آئی ہے اس بار اس کے اپنے لیڈرز کو یہاں سے کامیابی کی وہ توقعات نہیں ہے جو ماضی میں رہی تھی۔ شائد یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ اور مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف نے بھی کراچی کا رخ کرلیا ہے وہ کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقے 249 سے امیدوار ہیں۔ انہوں نے بلدیہ ٹاؤن، سعید آباد و ہاکس بے اور قرب جوار کے علاقوں پر مشتمل اس حلقے سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ شائد اس وجہ سے کیا ہے کہ یہاں پر پنجاب کے لوگوں پر مشتمل بڑی آبادی ہے اور بلدیہ عظمٰی کی کونسل میں پانچ نشستیں ان ہی کی پارٹی کی ہیں۔ ان کے مد مقابل پاکستان تحریک انصاف کے فیصل واوڈا پیپلز پارٹی کے عبدالقادر مندوخیل ، ایم ایم اے عطاء للہ شاہ مضبوط امیدوار ہیں۔ خیال ہے کہ کراچی سے عام انتخابات میں حصہ لینے والے پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو سمیت کسی بھی جماعت کے سربراہ کا کامیاب ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ ایم کیو ایم کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اگرچہ جمعے کو میمن مسجد میں اپنے حلقہ انتخاب میں نماز ادا کرکے لوگوں سے ملاقات کی اور واضح کیا کہ وہ اپنی پارٹی کے لیے ووٹ لینے یہاں آئے ہیں جبکہ لوگوں کی اکثریت ان کے مقابلے میں ان کی ایم کیو ایم سے زیادہ ناراض نظر آئی اس موقع پر ایک بزرگ نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ” ان کی پارٹی کے لوگوں نے بلدیہ کی فیکٹری میں آگ لگاکر سیکڑوں لوگوں کو زندہ جلایا ہے “۔
عام افراد کا اس طرح کا ردعمل ظاہر کررہا ہے کہ اس بار متحدہ کو ایک نہیں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا بہت سارے دردناک واقعات متحدہ کے امیدواروں کا پیچھا کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ جبکہ متعدد کڑوے سوالات کا سامنا متحدہ سے بغاوت کرکے الگ پارٹی بنانے والے مصطفٰی کمال اور ان کی پاک سر زمین پارٹی کو بھی کرنا پڑے گا۔
گمان یا خوش فہمی ہے کہ کراچی ،پنجاب اور اندرون سندھ میں لوگوں کے ساتھ گزشتہ سالوں میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اس سے ووٹرز نے بہت کچھ سبق حاصل کیا ہوگا۔ کراچی کے حوالے سے تو یقین ہے کہ کراچی ان انتخابات کے نتائج سے دوبارہ جماعت اسلامی کا شہر بنانے جائے گا اور یہاں سے متحدہ مجلس عمل قومی اسمبلی کی کم ازکم دس سیٹیں نکالنے میں کامیاب ہوجائے گی۔
ملک کے سب سے بڑے شہر میں قومی اسمبلی کی 21 سیٹیں ہیں جن میں متحدہ قومی موومنٹ زیادہ سے زیادہ چار سیٹیں لے سکے گی جس کی وجوہات میں دیگر کے ساتھ اس کے اپنے اندر موجود اختلافات اور نظم و ضبط کا برقرار نہ ہونا بھی ہے۔ خیال ہے کہ پاک سر زمین پارٹی اور مہاجر قومی موومنٹ صرف ایک ایک قومی ایوان کی سیٹ نکال سکے گی جبکہ پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو بالترتیب چار اور تین نشستیں مل سکیں گی۔
اگر ہم انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی بات کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ پنجاب ، کے پی کے ، بلوچستان اور اندرون سندھ سے پاکستان تحریک انصاف اتنی نشستیں حاصل کرلے گی کہ وہ تمام پارٹیوں کے مقابلے میں ” نمبر ون ” بن جائے گی مگر اس کے باوجود حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔ حکومت بنانے کے لیے اسے کم ازکم چار دیگر جماعتوں کے اراکین کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔ جبکہ حالات حاضرہ بتارہے ہیں کہ پیپلز پارٹی اس بار تیسرے نمبر کی ملکی جماعت بن سکے گی اس طرح وہ آئندہ اپوزیشن کا کردار بھی ادا نہیں کرسکے گی یہ کردار اب مسلم لیگ نواز کو ادا کرنا پڑے گا کیونکہ خیال ہے کہ سخت احتسابی عمل کے باوجود وہ ملک کی دوسری بڑی پارٹی قرار پائے گی۔ واضح رہے کہ ان ہی صفحات پر راقم پہلے بھی لکھ چکا ہے کہ آئندہ کی حکومت چونکہ مخلوط ہوگی اس لیے کمزور بھی ہوگی۔تاہم اس تمام تجزیے کا نتیجہ 25 جولائی کو انتخابات کے کامیابی کے ساتھ انعقاد کے بعد ہی نکلے گا۔اس وقت تک صرف یہ ہی سوال رہے گا کہ کیا تحریک انصاف آئندہ حکومت بنالے گی اور کیا وزیراعظم عمران خان بن جائیں گے ؟