انتخابات 2018ء اتنے اہم کیوں۔۔۔؟۔

315

سید اقبال چشتی
انتخابات کے التوا کے حوالے سے تمام ترخدشات اور پیش گوئیاں اب دم توڑ چکی ہیں اور الیکشن میںایک ماہ سے بھی کم وقت باقی رہ گیا ہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے امیدوار میدان میں اُتار دیئے ہیں اور ساتھ ہی الیکشن کی گہماگہمی میں تیزی آنا شروع ہوچکی ہے۔ امیداوروں نے رابطہ عوام مہم شروع کردی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہی ہوں گے۔ ہر سیاسی پارٹی انتخابات کا انتظار کرتی ہے تاکہ عوام سے فیصلہ کرایا جائے کہ وہ اب کس کو اقتدار کی مسند حوالے کرتے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت اس حوالے سے پُرامید ہے کہ اِس بار عوام اس کے حق میں فیصلہ دیں گے۔ لیکن یہ تو الیکشن کے نتائج آنے کے بعد ہی معلوم ہوگا کہ کون کتنی سیٹیں جیت کر آیا ہے اور کون حکومت بنائے گا۔
انتخابات 2018 ء اس لحاظ سے اہمیت اختیار کرگئے ہیں کہ چار بڑی سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے سربراہ کو اِس بار پاکستان کا وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نوازشریف کی نااہلی کے بعد تبدیل ہوکر شہبازشریف کے پاس آچکی ہے، اور بحیثیت پارٹی قائد شہبازشریف الیکشن مہم چلارہے ہیں۔ پنجاب سے باہر نکل کر الیکشن مہم چلانا مسلم لیگ(ن) کے قائد کے لیے آسان نہ ہوگا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری پہلی دفعہ دو حلقوں سے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں، بلکہ بحیثیت پارٹی سربراہ کے الیکشن مہم چلانے کا بلاول کا بھی یہ پہلا تجربہ ہے، لیکن بلاول میں اب تک سیاسی جراثیم نظر نہیں آرہے کہ وہ الیکشن مہم میں کوئی جان ڈال سکیں۔ اس لیے بلاول بھٹو زرداری کا نعرہ سندھ سے آگے نہ نکل سکے گا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان خاصے پُرامید ہیں کہ اِس دفعہ عوام اُن کے حق میں فیصلہ دیں گے، اور وہ اپنی دھرنا سیاست اور نوازشریف کو نااہل قرار دلوانے کو اپنی بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔ اس لیے تحریک انصاف نے یہ سوچ رکھا ہے کہ اگر اِس بار ہمیں اقتدار نہیں ملا تو پھر کبھی اقتدار کا خواب بھی نہیں دیکھا جائے گا۔ مگر دوسری طرف عمران خان خود کہہ چکے ہیں کہ خیبرپختون خوا کے عوام مسلسل دوسری بار کسی پارٹی کو اقتدار نہیں دیتے اس لیے تحریک انصاف نے کے پی کے پر زور دینے کے بجائے اُن تمام بڑی سیاسی شخصیات کو اپنی پارٹی میں جگہ دی ہے جنھیں الیکٹیبلز کہا جاتا ہے، جو عوامی حمایت سے نہیں بلکہ اپنی برادری کی حمایت سے الیکشن جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دیکھیں عمران خان کی نیک اور بد ہر طرح کے الیکٹیبلز کو جمع کرکے الیکشن لڑنے کی پالیسی کہاں تک کامیابی حاصل کرتی ہے۔ مگر جو پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتے رہے اور پانچ برسوں میں صرف چند دن پارلیمنٹ گئے وہ کس طرح پارلیمنٹ کی بالادستی اور اُسی پارلیمنٹ میں جانے کے خواہش مند ہیں۔ جو کرپشن کے خلاف مہم چلاتے رہے اُن ہی کے لوگ کرپٹ ثابت ہوئے، اور کرپٹ ترین لوگوں کو اپنی پارٹی میں جیت کی دھن میں شامل کرتے رہے۔ مگر اِس دفعہ یہ الیکشن الیکٹیبلز کا نہیں عوام کا الیکشن ثابت ہوگا، جو سیاسی پارٹی عوامی مسائل کے حل کی جامع پالیسی دے گی وہی کامیابی حاصل کرے گی۔
کامیابی کے دعوے پیپلز پارٹی بھی کررہی ہے لیکن صرف ایک صو بے میں۔ کیونکہ پیپلزپارٹی صوبہ پنجاب کی تمام اہم سیاسی شخصیات تحریک انصاف میں جا چکی ہیں اور پارٹی ٹکٹ لینے والا بھی اب پنجاب میں کوئی نہیں، جس پر سوشل میڈیا میں ایک تبصرہ سامنے آیا کہ مسٹر زرداری آوازیں لگا رہے ہیں ٹکٹ لے لو، مگر کوئی اس آواز پر کان نہیں دھر رہا۔ ٹوٹ پھوٹ کی شکار پیپلزپارٹی اور آصف علی زرداری کی پالیسیوں سے پارٹی کارکنان اور رہنما ناراض ہیں، اس لیے تجزیہ یہی کیا جارہا ہے کہ پیپلزپارٹی صرف سندھ تک ہی محدود رہے گی اور سندھ پر ہی توجہ دے کر زیادہ سے زیادہ سیٹیں لینے کی کوشش کرے گی۔ لیکن سندھ میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں پیر پگارا کی قیادت میں سندھ ڈیموکریٹک الائنس اندرون سندھ پیپلز پارٹی کے لیے سخت مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ پیپلزپارٹی ہی کے سابق صوبائی وزیر داخلہ نے بدین میں بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ اس لیے قومی اور صوبائی سیٹوں پر ڈیموکریٹک الائنس پیپلز پارٹی کے خلاف سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے کئی نشستیں جیت سکتا ہے، اور لگتا بھی یہی ہے، کیونکہ سندھ پر برسہا برس سے حکمرانی کرنے والی پارٹی نے نہ شہری علاقوں کو کچھ دیا اور نہ ہی دیہی علاقوں میں سہولیات میسر آسکیں۔ اس لیے پیپلز پارٹی کا ووٹر اپنی پارٹی سے ناراض ہے، اور یہ ناراضی کسی حد تک جائز بھی ہے کہ ہر بار حکومت ملنے کے بعد بھی کسی کو کچھ نہیں ملا، بلکہ بنیادی سہولیات سے بھی دیہی اور شہری عوام محروم ہوگئے۔ اس لیے اب نہ پیپلز پارٹی اکثریت لے سکے گی اور نہ ہی ایم کیو ایم کسی کا سہارا بن پائے گی، کیونکہ ایم کیو ایم خود سہارے کی تلاش میں ہے۔
ایم کیو ایم کا الطاف حسین کے بغیر یہ پہلا الیکشن ہوگا جس میں وہ عوام کے پاس ووٹ مانگنے جائے گی، جبکہ الطاف حسین الیکشن 2018ء کے بائیکاٹ کا اعلان کرچکے ہیں، اس لیے ایم کیو ایم کے لیے یہ الیکشن کسی امتحان سے کم نہیں ہوگا۔ اگر عوام نے الطاف حسین کے بائیکاٹ پر لبیک کہہ دیا تو ایم کیو ایم جو پہلے ہی کئی دھڑوں میں تقسیم ہوکر اپنی قوت منتشر کرچکی ہے، ہمیشہ کے لیے سیاسی منظر سے غائب ہوجائے گی۔ شاید اسی لیے پی آئی بی اور بہادرآباد نے مستقبل کے ممکنہ رزلٹ کو بھانپتے ہوئے ایک ہوکر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، اسی لیے ایک بار پھر مہاجر نعرے کو استعمال کیا جارہا ہے۔ لیکن یہ نعرہ اب شاید ہی کام کرے، کیونکہ مصطفی کمال کی پارٹی ایم کیو ایم کے لیے مزید مشکلات پیدا کرے گی۔
بہرحال الطاف حسین کے بغیر لڑا جانے والا الیکشن کراچی کی سیاست پر کیا اثرات مرتب کرے گا، یہ نتائج آنے کے بعد ہی معلوم ہوگا، مگر تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کراچی پر اپنا حق ثابت کرنے کے لیے الیکشن کے میدان میں اُتری ہیں، لیکن ان دونوں پارٹیوں کا سارا زور نان اردو اسپیکنگ علاقوں پر ہے، اور ان پارٹیوں نے زیادہ تر اپنے اپنے اُمیدوار بھی انہی علاقوں سے کھڑے کیے ہیں، اور دونوں پارٹیوں کی انتخابی مہم بھی ان ہی علاقوں تک محدود ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان پارٹیوں کو مہاجر ووٹ ملنے کی توقع بہت کم ہے، لیکن جماعت اسلامی جو ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے ان انتخابات میں حصہ لے رہی ہے واحد پارٹی ہے جو کراچی کے تمام مہاجر اور نان اردو اسپیکنگ علاقوں سے الیکشن میں ایم کیو ایم کے مقابلے میں میدان میں اپنی کارکردگی، اور عوامی مسائل کو کوئی سیٹ نہ ہونے کے باوجود ہر فورم پر اُٹھانے اور کراچی کے عوام کا مقدمہ بہتر انداز میں لڑنے کی بنیاد پر خاصی پُرامید ہے کہ اِس دفعہ عوام لسانیت اور ذات برادری کی بنیاد پر نہیں بلکہ کراچی کے لیے کچھ کردکھانے والوں کے حق میں فیصلہ دیں گے۔ اس لیے جماعت اسلامی اس الیکشن میں کراچی کے عوام کی نمائندہ جماعت بن سکتی ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کی سربراہی میں یہ پہلا الیکشن ہے، اور کے پی کے میں جماعت اسلامی کے وزراء کی کارکردگی اور سب سے بڑھ کر کرپشن سے پاک ہونے کی بنیاد پر پاکستان کے عوام میںخاصی مقبولیت حاصل کی ہے، اسی لیے جماعت اسلامی الیکشن سلوگن میں یہی کہہ رہی ہے کہ ’’اب کی بار دیانت دار قیادت‘‘… کیونکہ کرپٹ قیادت نے نہ صرف کراچی بلکہ پورے سندھ کا بیڑا غرق کردیا، جو پانچ سال کراچی کو تباہ ہوتے دیکھتے رہے، کبھی کراچی کے حقوق اور مسائل کے حل کے لیے نہیں نکلے اور نہ کوئی دھرنا دیا، مگر اب سب کراچی آکر کچرے کا تذکرہ کررہے ہیں اور پانی اور بجلی کے مسائل حل کرنے کے دعوے بھی کررہے ہیں، مگر عوام جانتے ہیں کہ کے الیکٹرک کے ظلم اور بدمعاشی، پانی کی عدم فراہمی اور نادرا کے ظالمانہ رویّے کے خلاف اگر کسی نے آواز بلند کی، کراچی کے عوام کا مقدمہ سڑکوں سے لے کر اداروں اور عدلیہ تک کسی نے لڑا تو وہ جماعت اسلامی ہے۔ اس لیے شہبازشریف کا یہ کہنا کہ پانی کا مسئلہ ہم حل کریں گے اور تین سال میں بجلی کا مسئلہ حل کردیں گے، وہ یہ کہنے سے پہلے یہ تو سوچ لیتے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے وزیر خزانہ نے کے الیکٹرک کے خلاف فرانزک آڈٹ نہیں ہونے دیا تھا، صرف اس لیے کہ آڈٹ ہونے کی صورت میں کے الیکٹرک کی لوٹ مار سب کے سامنے ہوتی اور جماعت اسلامی سرخرو ہوجاتی۔ لیکن اب سب کراچی کے ہمدرد بن کر مسائل کے حل کی بات کرنے آرہے ہیں۔ دیکھیں متحدہ کے مقابلے میں متحدہ مجلس عمل کامیاب ہوتی ہے یا پھر وہی لوگ جنھوں نے مسائل کے تحفے دیے!
مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی ملک میں حکومتیں رہی ہیں، اور ان پانچ برسوں میں ان تینوں جماعتوں نے عوام کو مہنگائی اور کرپشن کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اس لیے اِس بار عوام کسی ایک کے حق میں فیصلہ دیتے نظر نہیں آرہے، اندازہ یہی ہے کہ اِس بار کوئی ایک پارٹی واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی، اور وفاقی سطح پر مخلوط حکومت بنے گی جس میں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، سندھ ڈیموکریٹک الائنس اور شاید ایم کیو ایم بھی شامل ہو۔ مگر اس مخلوط حکومت میں نہ بلاول وزیراعظم ہوں گے، نہ عمران خان… بلکہ اسٹیبلشمنٹ کا قریبی فرد وزیراعظم ہوگا، اور مسلم لیگ (ن) اور متحدہ مجلس عمل اپوزیشن میں ہوں گی۔ پچھلی حکومتوں اور اپوزیشن نے ملک اور قوم کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ وہی پرانے وعدے اب بھی دہرائے جارہے ہیں، اور عوام اِس بار کسی طرح بھی بیوقوف بننے کے لیے تیار نہیں ہیں، اسی لیے پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے سابقہ اراکین اسمبلی جب بڑی شان سے پانچ سال بعد اپنے اپنے حلقۂ انتخاب میں پہنچے ہیں تو کہیں ان کا گندے انڈوں سے استقبال ہوا ہے، تو کہیں سے یہ ارکان مار کھا کر بھاگنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ غربت اور مہنگائی کے مارے عوام کرپٹ سیاسی قیادت سے نالاں نظر آتے ہیں، اس لیے یہ الیکشن جہاں سیاسی جماعتوں کے لیے اہمیت کے حامل ہیں وہیں عوام کے لیے بھی اہم ہیں، کیونکہ عوام نے اگر اپنے صحیح نمائندے منتخب نہیں کیے تو آئندہ پانچ سال تک پھر اپنے فیصلوں پر پشیمانی ہوگی۔ اس لیے عوام کسی میڈیا مہم یا تجزیوں سے متاثر ہونے کے بجائے عملی طور پر ثابت کر دکھانے والوں اور کرپشن سے پاک قیادت کو منتخب کرنے کا سوچ رہے ہیں، اور یہی وہ سوچ ہے جو ملک اور قوم کو بہتر مستقبل دے سکتی ہے۔

حصہ