برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

442

قسط نمبر143
پہلا حصہ
جنگِ ستمبر 1965ء کا انجام اعلانِ تاشقند پر منتج ہوا۔ یہ مذاکرات خاصے طول پکڑتے جارہے تھے۔ آٹھ دن تک دونوں ممالک کے رہنما ایک ٹیبل پر محوِ گفتگو رہے۔ قدرت اللہ شہاب نے ’’شہاب نامہ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’اس کی کوئی مستند دستاویز ہمارے ہاتھ نہیں لگ سکی، مگر چند لوگوں میں سے ایک سے جو اس وفد میں شامل تھا، میں نے اتنا ہی سنا کہ ابتدائی چند ایام تعطل کا شکار رہے کیونکہ شاستری نے کشمیر کا ذکر شامل کرنے سے صاف انکار کردیا تھا، جبکہ بھٹو کا خیال تھا کہ کشمیر کا ذکر شامل کروائے بغیر یہ مذاکرات بے مقصد ہوں گے، اور اس صورت میں اگر شاستری اپنے رویّے میں لچک نہیں دکھا رہا تو مذاکرات ختم کرکے واپسی مناسب رہے گی۔ شروع میں ایوب خان بھی اس خیال سے متفق نظر آئے مگر روسی وزیراعظم کی بار بار کی ملاقاتوں سے ایوب خان کی رائے میں ڈرامائی تبدیلی آگئی۔‘‘
انہوں نے آگے چل کر مزید تفصیل بیان کی:’’دورانِ مذاکرات ایک موقع پر جب مسٹر بھٹو نے صدر ایوب خان کو کچھ مشورہ دینے کی کوشش کی تو وہ غصے میں آگئے اور انھوں نے مسٹر بھٹو کو اردو میں مخاطب کرکے ڈانٹتے ہوئے ’’اُلّو کے پٹھے، بکواس بند کرو‘‘ کہا، جس پر بھٹو نے دبے الفاظ میں کہا ’’سر! آپ یہ ہرگز فراموش نہ کریں کہ روسی وفد میں کوئی نہ کوئی اردو زبان جاننے والا بھی ضرور موجود ہوگا‘‘۔
قدرت اللہ شہاب کے مطابق یہی وہ نکتہ آغاز تھا جہاں سے بھٹو اور ایوب خان کے راستے عملی طور پر الگ الگ ہوگئے، اور اس معاہدۂ تاشقند میں مسئلہ کشمیر کو اس کی بنیادی پٹری سے اترکر کھٹائی میں ڈال دیا گیا اور اس کے خلاف ملک میں شدید ردعمل کی ہوا چلی۔
اور مذاکرات کے ان اعلانات سے پاکستان میں ایوب خان کی ذلت و رسوائی کا آغاز ہوا۔
اس شرمناک اور یک طرفہ معاہدے کے سبب (جس میں سراسر پاکستان کا نقصان تھا) پاکستان میں ایوب خان حکومت کے خلاف ایک محاذ کھل گیا۔ پوری قوم نے دورانِ جنگ جس اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کیا اس کی نظیر ملنا مشکل تھی۔ جنگ میں ہماری (پاکستان کی) حقیقت میں کیا پوزیشن تھی اس بارے میں پاکستانی ذرائع ابلاغ کچھ اور ہی منظرنامہ دکھا رہے تھے، پاکستانی ذرائع ابلاغ نے فتحِ مبین کی جو تصویر پاکستانی قوم کو دکھانے کی کوشش کی اُس کے مقابلے پر ’’معاہدۂ تاشقند‘‘ خفت آمیز صورت میں عوام کے سامنے لایا گیا، جس پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور عوام میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔
تمام ملک (مشرقی اور مغربی پاکستان) میں ناراض عوام ایوب خان کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے، جس کے جواب میں ایوب خان حکومت نے مظاہرین اور مشتعل عوام کو بندوق کے زور پر روکنے کی ناکام کوشش کی۔
معاہدۂ تاشقند کے بعد ہر گزرتا دن سیاسی اعتبار سے ایوب خان کو کمزور اور تنہا کرتا جارہا تھا۔ ایوب خان کے دستِ راست اور ہر فیصلے کے شریک ذوالفقار علی بھٹو تک نے اس نازک وقت میں ایوب خان کو آڑے ہاتھوں لیا اور اس کی مخالفت میں بھٹو نے کھل کر پریس میں اپنا مؤقف پیش کیا۔ بھٹو کا ایوب خان کے خلاف یہ عدم اطمینان سیاسی بھونچال کا سبب بنا۔ بھٹو مستقل طور پر ایوب خان کی کابینہ کے اہم رکن اور انتہائی اہم ذمے داریوں اور وزارتوں پر فائز رہے تھے (1958ء تا 1960ء صدر ایوب خان کی کابینہ میں وزیر تجارت، 1960ء تا 1962ء وزیر اقلیتی امور، قومی تعمیرنو اور اطلاعات، 1962ء تا 1965ء وزیر صنعت و قدرتی وسائل اور امور کشمیر، جون 1963ء تا جون 1966ء وزیر خارجہ رہے)۔
فروری 1966ء کے پہلے ہفتے میں ہی جماعت اسلامی نے ہنگامی بنیادوں پر حزبِ مخالف کی تمام جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کیا اور لاہور میں قومی کانفرنس کا انعقاد کیا، جس کے کنوینر نواب زادہ نصراللہ خان تھے۔ اس کانفرنس میں سات سو سے زائد شرکاء نے شرکت کی اور ایوب خان کی آمریت اور اُس کے فیصلوں کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اجتماعی طور پر ایوب مخالف تحریک چلانے کا عندیہ ظاہر کیا۔
اس قومی کانفرنس میں ملک بھر کی قومی جماعتیں اور سیاسی عمائدین جمع تھے، اور مشرقی پاکستان سے حزبِ مخالف کے جذباتی رہنما شیخ مجیب نے بھی بطور خاص شرکت کی تھی، لیکن شیخ مجیب کا اپنا ایجنڈا بھی تھا جو اس کانفرنس کے دوران کھل کر منظرعام پر آگیا۔ شیخ مجیب الرحمن کو اپنا کھیل دکھانے کا سنہرا موقع مل چکا تھا، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اُس نے جیب میں رکھی چھ نکات کی کاپیاں کانفرنس کے شرکاء میں تقسیم کردیں۔
ان چھ نکات کے بارے میں خیال ہے کہ یہ مشرقی پاکستان کی بیوروکریسی کا کارنامہ تھا، جیسا کہ حمودالرحمن کمیشن رپورٹ میں ذکر ہے کہ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے کچھ سول ملازمین نے ان نکات کی تشکیل میں حصہ لیا۔ مشرقی پاکستان کے ان سرکاری ملازمین کا خیال تھا کہ اگر مشرقی پاکستان میں چلائی جانے والی آزادی کی تحریک کامیاب نہ بھی ہوئی تو اتنا تو ضرور ہوجائے گا کہ حکومت ہمارے دبائو کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کو خودمختاری دے دے گی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے مشرقی پاکستانی سیاسی رہنما نورالامین اور اُن ہی کی جماعت کے سینئر رکن مسٹر محمود علی ان چھ نکات سے پہلے سے ہی آگاہ تھے کیونکہ کسی سول سرونٹ نے ان دونوں حضرات کو اس مسودے کی کاپی فراہم کردی تھی۔ یہ دونوں رہنما محب وطن پاکستانی تھے۔ نورالامین بعد میں 13 دنوں کے لیے پاکستان کے وزیراعظم بھی رہے(17 دسمبر 1971ء سے20 دسمبر 1971ء تک )۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھی نورالامین مغربی پاکستان ہی میں رہے اور 1974ء میں وفات پائی۔ اسی طرح محمود علی بھی پاکستان میں ہی رہے اور یہیں وفات پائی، اور کیبنٹ ڈویژن کے وزیر رہے۔
شیخ مجیب الرحمن کے 6 نکات
1۔ ملک کا نظام بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب مقننہ کی بالادستی اور پارلیمانی طرزِ حکومت پر مبنی ہونا چاہیے۔ (قرارداد لاہور کے مطابق)
2۔وفاقی حکومت صرف دو محکمے یعنی دفاع اور امور خارجہ اپنے پاس رکھے گی، جب کہ دیگر محکمے وفاق کی تشکیل کرنے والی وحدتوں میں تقسیم کردیئے جائیں گے۔
3۔ (الف) ملک کے دونوں بازوئوں میں دو علیحدہ مگر باہمی طور پر تبدیل ہوجانے والی کرنسی متعارف کرائی جائے، یا (ب) پورے ملک کے لیے ایک ہی کرنسی رائج کی جائے، تاہم اس کے لیے مؤثر آئینی دفعات کی تشکیل ضروری ہے تاکہ مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان کو رقومات کی ترسیل روکی جا سکے۔ مشرقی پاکستان کے لیے علیحدہ بینکنگ ریزروز قائم اور الگ مالیاتی پالیسی اختیار کی جائے۔
4۔ محاصل اور ٹیکسوں کی وصولی کا اختیار وفاق کی وحدتوں کے پاس رکھا جائے۔ مرکز کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہونا چاہیے، تاہم فیڈریشن وفاقی وحدتوں کے ٹیکسوں میں حصے دار ہوگی تاکہ وہ اپنی ضروریات پوری کرسکے۔ ایسے وفاقی فنڈز پورے ملک سے جمع ہونے والے ٹیکسوں کے طے شدہ فیصد تناسب پر مشتمل ہوں گے۔
5۔ (الف) دونوں بازوئوں میں زرمبادلہ کی آمدنی کے لیے دو علیحدہ اکائونٹس ہونے چاہئیں، اور (ب) مشرقی پاکستان کی آمدنی کو مشرقی پاکستان، اور مغربی پاکستان کی آمدنی کو مغربی پاکستان کے کنٹرول میں ہونا چاہیے۔ (ج) مرکز کی زرمبادلہ کی ضروریات، دونوں بازوئوں کو مساوی طور پر یا کسی طے شدہ تناسب کے مطابق پوری کرنا ہوں گی۔ (د) ملکی مصنوعات کی دونوں بازوئوں کے درمیان آزادانہ نقل و حمل پر کوئی ڈیوٹی عائد نہیں کی جائے گی۔ (ہ) آئین کی رو سے وفاقی وحدتوں کو یہ اختیارات حاصل ہوں گے کہ وہ غیر ممالک میں تجارتی مشن کے قیام کے ساتھ تجارتی معاہدے، نیز تجارتی تعلقات قائم کرسکیں۔
6۔ مشرقی پاکستان کے لیے ملیشیا یا ملٹری فورس کا قیام۔
شیخ مجیب کے اس گھنائونے منصوبے کے ڈانڈے بیوروکریسی اور ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل رہے تھے، جسے جماعت اسلامی اور دیگر محب وطن جماعتوں کی قیادتوں نے بھانپ لیا تھا۔ یہ چھ نکات درحقیقت ہندوستانی منصوبہ تھا جو آہستگی کے ساتھ مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے آزادی دلواکر ہندوستان کے ساتھ ملانے کا منصوبہ تھا۔
جماعت اسلامی نے اس منصوبے کو ملک و ملت کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے چھ نکات کے جواب میں ملکی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے ’’چار نکاتی پروگرام‘‘ پیش کیا اور دلائل کی بنیاد پر بڑے پیمانے پر جوابی مہم چلانے کا اعلان کیا۔ اس جدوجہد کے مقابلے پر شیخ مجیب سمیت دیگر پاکستان مخالف قوتوں نے پُرتشدد طریقے سے جماعت اسلامی کے کارکنوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔
(حوالہ جات: ’’شہاب نامہ‘‘۔ قدرت اللہ شہاب… ’’جہدِ مسلسل‘‘ (جماعت اسلامی کی تاریخ۔ حصہ اول)
(جاری ہے)

حصہ