جماعت اسلامی کا سرپرائز ووٹ اور متحدہ کی ’’ماہرانہ خدمات‘‘ کی پیشکش

314

نون۔ الف
الیکشن 2018ء اِس بار ایک عجیب رنگ ڈھنگ کے ساتھ ہونے جارہا ہے۔ الیکشن کروانے والوں اور الیکشن میں حصہ لینے والے بیشتر کھلاڑیوں کو خبر دی جا چکی ہے کہ پردہ کب اٹھے گا اور کس کوکیا کردار ادا کرنا ہے؟
بقول افتخار عارف

تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہو گا

عوام کا عالم یہ ہے کہ وہ ایک عجیب مخمصے کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ خیبر پختون خوا میں روایت رہی ہے کہ وہاں کے رائے دہندگان ہر انتخاب میں اپنا رجحان تبدیل کرتے چلے آئے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے مفتی محمود بھی یہاں کے کامیاب وزیراعلیٰ رہے، اور قومی اتحاد اور بھٹو کے حوالے سے تحریک نظام مصطفی اور اسلامی آئین کی جدوجہد میں نمایاں کردار ادا کیا۔
اس کے بعد اس صوبے میں رائے عامہ تبدیل ہوئی اور ولی خان کی اے این پی کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔ پچھلی مرتبہ تحریک انصاف کو آزمایا جس میں اُس کی اتحادی جماعت اسلامی نے بھی اپنا اہم کردار ادا کیا۔ اِس مرتبہ جماعت اسلامی اور پانچ دینی جماعتوں کے اتحاد کی بدولت تحریک انصاف خیبر پختون خوا سے باہر ہوتی دکھائی دیتی ہے، جس کی وجہ جماعت اسلامی کے تین وزراء کی غیر معمولی کارکردگی ہے جس کا فائدہ دینی اتحاد (مجلس عمل) کو پہنچے گا، جبکہ خود عمران خان کے ’’بھنڈ‘‘ اور ان کی پارٹی کے لوٹوں کا اس میں گھنائونا کردار ہے۔
صوبے میں جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن کے دینی اتحاد (متحدہ مجلس عمل) نے دیوبندی ووٹ بینک کو اکٹھا کردیا ہے، جو کُل ملا کر تحریک انصاف کے ووٹ بینک سے کہیں زیادہ ہے۔ مینارِ پاکستان لاہور کا حالیہ جلسہ اور پشاور میں دینی اتحاد کا پہلا سیاسی پاور شو بہت متاثر کن تھا۔ اس کے مقابلے میں صوبے کے سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک اب تک کوئی بھی خاطر خواہ شو کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ عمران خان بھی ’’میانوالی کی کالی قمیص‘‘ سے زیادہ کی شہرت نہیں رکھتے۔
ان حالات میں اگر ’’جھرلو‘‘ کا کوئی کرشمہ نہ ہو تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ صوبہ خیبر پختون خوا میں متحدہ مجلس عمل اپنے بل بوتے پر حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔
گزشتہ پورا سال تحریک انصاف نے دھرنے کے نام پر رونا دھونا مچایا اور ’’ایمپائر کی انگلی‘‘ کا انتظار کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صوبے میں ترقیاتی کاموں کا سارا بوجھ جماعت اسلامی کے وزراء پر آگیا، اور تحریک انصاف کے وزراء اسلام آباد اور ’’پیشہ ور‘‘ موٹر وے پر گاڑیاں دوڑاتے اور لڈیاں ڈالتے رہے۔
پنجاب کی سیاست نوازشریف کے ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کے سوال کے اردگرد ہی گھوم رہی ہے۔ گزشتہ سال بھر سے جس طرح سپریم کورٹ اور نیب نے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اور اُن کے خاندان کے گرد گھیرا ڈالا ہوا ہے اُس نے میاں صاحب کے تیس سالہ اقتدار کو دوام بخشنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ میاں نوازشریف کو ملک کو لوٹنے کھسوٹنے اور قومی دولت بیرونِ ملک اپنے اکائونٹس میں منتقل کرنے اور لوٹ مار، رشوت ستانی اور منی لانڈرنگ کے قومی جرم میں جو سزا دی گئی ہے وہ نہایت بھونڈے انداز میں سنائی گئی۔ زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، پچھلی تمام عدالتی کارروائیوں کا منظر پوری قوم کو اچھی طرح یاد ہے کہ کس انداز سے عدالتوں نے میاں نوازشریف کو مظلوم بنایا اور اتنے بڑے الزام میں جس طرح فیصلہ دیا اُس نے پوری قوم کو نہایت بری طرح مایوس کیا۔ اور سال بھر سے زائد جاری رہنے والے ’’عدالتی ڈرامے‘‘ کے بعد جس الزام پر سزا سنائی گئی وہ تھا ’اقامہ‘ جس کا ڈیکلریشن فارم میں میاں صاحب نے ذکر نہیں کیا تھا۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ چور کو رنگے ہاتھوں گاڑی چوری کرنے کے الزام میں پکڑا جائے اور چالان شیشہ توڑنے کا کاٹا جائے۔ اس عدالتی رعایت کا سارا فائدہ میاں نوازشریف کو ملا اور نتیجے میں میاں نوازشریف نااہل ہونے کے باوجود ’’مظلوم شریف‘‘ بن کر قومی سیاست کے میراڈونا بن چکے ہیں، جس کا فائدہ وہ نہیں تو اُن کا پورا خاندان اٹھائے گا۔ کم از کم پنجاب کی حد تک میاں نوازشریف کی مستحکم حیثیت کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ کم و بیش اسی طرح کے الزامات عمران خان پر تھے، مگر ایمپائر کی نگاہ اس جانب نہیں گئی، لہٰذا وہ بچے رہے۔
مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ عدالتی فیصلے کے بعد جو عوامی ردعمل پنجاب کے ووٹر دکھائیں گے اُس میں تحریک انصاف پچھلے الیکشن کی نسبت اپنی کچھ نشستیں گنوانے کی پوزیشن میں آچکی ہے۔ اس پر طرفہ تماشا یہ ہوا کہ ’’الیکٹ ایبلز‘‘ کے خناس نے عمران خان کے غبارے سے وہ ہوا بھی نکال دی ہے جو دھرنے کے نتیجے میں بھر گئی تھی۔
صوبہ بلوچستان میں پانچ جماعتی مذہبی اتحاد نے اگر پانچ نشستیں بھی حاصل کرلیں تو پھر بلوچستان سے پرانے کھلاڑیوں کی بھی چھٹی کو کوئی نہیں روک سکتا۔
اب آجائیں صوبہ سندھ کی جدی پشتی نشستوں اور مجموعی منظرنامے کی طرف۔ یہاں انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی ہی حکومت نظر آرہی ہے، مگر اس حکومت کے کچھ ’’پر کاٹنے‘‘ کا منصوبہ ہے۔ ماضی کے مشہور سیاسی خانوادے شیرازی گروپ، شاہ اور جتوئی گروپ اپنا پورا حصہ لے کر بننے والی حکومت کا حصہ ہوں گے۔
ملک اسد سکندر اور ان جیسے روایتی وڈیرے اپنی اپنی نشستیں کروڑوں روپے میں بیچیں گے۔ یونائیٹڈ ڈیموکریٹک الائنس کو ووٹ کاٹنے کے لیے استعمال کیا جائے گا، اور تحریک انصاف کو اندرون سند ھ سے دو یا تین نشستوں پر کامیاب کرواکر’’خوش رکھنے‘‘ کی کوشش کی جائے گی۔ مطلب یہ کہ سندھ کے روایتی سیاسی کلچر اور نتائج میں اِس مرتبہ بھی ہر گھر سے ’’بھٹو ہی نکلے گا‘‘۔
……٭٭٭……
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں حیران کن نتائج کی پیش گوئی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین عملی سیاست سے باہر ہونے اور خبروں میں بلیک آئوٹ ہونے کے بعد سے ہرچند کہ میڈیا کی زینت نہیں ہیں، مگر ان کے ’’مریدوں‘‘ میں ’’پیر‘‘ صاحب کی ہر ویڈیو وائرل ہورہی ہے اور ان کا انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان بھی منظرعام پر آچکا ہے، جس کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ ان انتخابات میں دوسروں کے لیے خاصے مواقع موجود ہیں۔ اور کراچی کی سیاست میں انتہائی فعال کردار ادا کرنے والی سیاسی و مذہبی جماعت، جماعت اسلامی اگر اپنے کارکنان کو میدان میں بھرپور طریقے سے اتارنے میں کامیاب ہوجائے تو کوئی وجہ نہیں کہ متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے کراچی سے قومی اسمبلی کی سات سے آٹھ نشستوں پر کامیابی نہ ملے۔
کراچی میں عرصۂ دراز سے جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں عوامی مسائل کے حل کے لیے ایک متحرک اور توانا آواز بن کر سڑکوں پر موجود ہے۔ پانی، بجلی اور نادرا کے حوالے سے جماعت اسلامی نے جو شاندار کام انجام دیے ہیں اس سے کوئی بھی شہری انکار نہیں کرسکتا۔ اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اگر جماعت اسلامی کا کارکن اپنے ان ہی کاموں اور خدمات کی فہرست لے کر عام شہری کے دروازے پر جائے گا اور ووٹ مانگے گا تو اسے سردمہری کے ساتھ دھتکارا نہیں جائے گا۔ اس کے برعکس امید ہے کہ جماعت اسلامی کو غیر معمولی خاموش پذیرائی ’’سرپرائز ووٹ‘‘ کی صورت میں مل جائے۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت ابھی تک اپنے کام کے ’’اسٹرانگ فیکٹر‘‘ سے بے خبر ہے۔ اس کے لیے قیادت کو کارکن کے ساتھ زمین پر اترنا ہوگا۔
اس اعتبار سے کراچی کا متوقع منظرنامہ اس طرح سے ترتیب پائے گا کہ ’’متحدہ بہادر آباد گروپ‘‘ شاید قومی اسمبلی کی تین نشستوں پر کامیاب ہوجائے، اور قومی پرچم میں لپٹی ہوئی’’پاک سرزمین پارٹی‘‘ کو کسی ایک صوبائی نشست پر کامیابی دلوائی جائے۔ یہ لائنز ایریا یا ملیر کی صوبائی سیٹ ہوسکتی ہے۔ سننے میں آرہا ہے کہ تحریک انصاف اور پاک سرزمین پارٹی میں گلشن اقبال کی صوبائی سیٹ پر کوئی مفاہمت ہونے جارہی ہے۔ یہی صورتِ حال بہادر آباد گروپ کے ساتھ بھی ہے۔ انھوں نے بھی فاروق ستار اور خالد مقبول کی سیٹ کے لیے تحریک انصاف سے مدد مانگی ہے اور اس کے بدلے میں خان صاحب کو اپنی ہر طرح کی ’’ماہرانہ خدمات‘‘ کی پیشکش کی ہے۔ کراچی سے پیپلز پارٹی بھی سرپرائز سیٹیں نکال سکتی ہے۔ اس بات کا پورا امکان موجود ہے۔
اس ہفتے کی انتخابی صورتِ حال کا یہ جزوی سا تجزیہ ہے، جیسے جیسے معاملات آگے بڑھیں گے اور سیاسی فضا میں یقین کی کیفیت آتی جائے گی، ہم ان شاء اللہ ’’سیاسی نرم، گرم‘‘ کے ساتھ دوبارہ حاضر ہوجائیں گے۔ تب تک کے لیے اجازت دیجیے۔

حصہ