وطن اور فرض

231

رفیعہ فیض
ہمارا پیارا وطن پاکستان اللہ تبارک و تعالیٰ کے نام پر حاصل کیا گیا۔ کئی مرتبہ بچپن سے ہم پڑھتے آرہے ہیں کہ پاکستان کو مدینۃ النبی سے ایک خاص نسبت ہے، وہ یوں کہ جس طرح پاکستان کو اللہ کے نام پر بنایا گیا ہے مدینۃ النبی کو بھی 1400 سال قبل اسی خاص مقصد کے لیے ایک ریاست بنایا گیا تھا۔ اگر مدینہ دنیا کی پہلی اسلامی ریاست ہے تو پاکستان وہ دوسری ریاست ہے جو تاریخ کے صفحات میں اسلام کے قیام کے لیے وجود میں لائی گئی۔
مدینہ کے قیام کے بعد، یعنی ایک اسلامی نظریاتی حکومت کے قیام کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اطمینان سے نہیں بیٹھ گئے کہ تمام جدوجہد کا نتیجہ حاصل ہوگیا، بلکہ آپؐ ان کوششوں میں بھی لگے رہے کہ اسلام جہاں تک ہوسکے پھیلے، اور یہ بھی کوشش کرتے رہے کہ جو مومن مکہ میں محصور ہیں اُن کی نجات کا بھی کچھ سامان کیا جائے۔ نجات یہ نہیں کہ بزدلوں کی طرح انہیں فرار کرا لیا جائے، بلکہ ایک باعزت برابر کے مقابلے میں پورا مکہ آزاد کرایا جائے۔ 8 سال تک جہاں آپؐ تمام عرب کے جنگجوئوں سے برسر پیکار رہے، وہیں مکہ کی آزادی کے لیے بھی بے تاب رہے اور آخرکار مکہ آزاد کرا ہی لیا۔
اس تناظر میں کیا ہماری یہ ذمے داری نہیں کہ جب ہم پاکستان حاصل کرچکے تو نہ صرف یہ کہ پاکستان میں قرآن و حدیث کے قیام کو ممکن بنائیں بلکہ تمام دنیا میں اسلام کا پیغام عام کریں۔ کیا ہمارا فرض نہیں تھا کہ جو مسلمان پیچھے ہندوستان میں رہ گئے ہیں اُن کی آزادی کا کچھ سامان کریں؟ بالخصوص کشمیری مسلمان، جو پاکستان کے جھنڈے میں لپٹ کر دفن ہوجانے کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں۔
ہماری قوم کو اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے جس سے تشدد پسندی، کاہلی، وقت کی بے قدری، سہل پسندی اور بے ایمانی وغیرہ کو کردار میں سے آہستہ آہستہ دور کیا جائے۔ اور ایک پاکیزہ خیالات کی حامل، بلند کردار قوم ہی پاکستان کو سنوار سکتی ہے اور امتِ مسلمہ کو بھی اُس کا کھویا ہوا مقام دلا سکتی ہے۔ کوشش ہمارا فرض ہے۔ قومی انتخابات قریب ہیں، اس موقع پر لوگوں میں شعور پیدا کریں کہ ایمان دار اور دیانت دار قیادت کا انتخاب کرنا آپ کا فرض ہے، یہ آپ کی نسلوں کی حفاظت اور بہتری کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

حصہ