نصرت یوسف
الارم بجنے کی آواز خاصی دیر سے آرہی تھی لیکن نیند جیسے اُس کی آنکھوں سے چپکی ہوئی تھی، ذہن کا کچھ حصہ بیدار ہوکر اٹھنے کی ہدایتیں دے رہا تھا: اٹھ جاؤ، اٹھ جاؤ!!… مگر آنکھیں! وہ تو کھلنے سے انکاری تھیں، اور پھر دماغ کے سگنل ملنا بھی بند ہوگئے، نیند نے اس پر قبضہ کرلیا۔
نہ جانے کتنا وقت بیت گیا، اُس کی آنکھ کھلی تو کمرہ حبس زدہ تھا، کھلی کھڑکی سے آتی خنک ہوا مفقود تھی، اس کے بجائے دھوپ کی تیز روشنی سوئی کی مانند چبھ رہی تھی۔ اس نے بے اختیار چھت پر نگاہ ڈالی،گھومتا پنکھا بند تھا۔
’’اوہ…! بجلی گئی۔‘‘ بڑبڑاتے ہوئے اس نے موبائل فون اٹھایا اور وقت دیکھتے ہی اچھل کر بستر سے اتر گیا۔ واش روم سے نکلا تو ٹوتھ پیسٹ کی کھلی ٹیوب سے کریم شیلف پر بہہ رہی تھی۔ فرش پر خوب پانی تھا۔ شاور جیل بوکھلاہٹ میں ہاتھ سے گرا تو اٹھانے کی بھی مہلت نہ تھی، تولیے سے بال رگڑتے ہوئے اس نے بیوی کو آواز لگائی ’’ردا!‘‘
وہ ہوتی تو جواب دیتی۔ گھنٹہ بھر قبل وہ نوکری پر جا چکی تھی۔ اس کی کوفت اب خفگی میں بدل گئی’’مجھے جگائے بنا چلی گئی۔‘‘
ہیئر برش پٹختے ہوئے اس نے پرفیوم اسپرے کیا اور کمرے سے نکل آیا۔ کچن شیلف پر اس کا ناشتا تیار تھا، پیالے میں نکلے کارن فلیکس، فلاسک میں دودھ، ململ نیپکن میں لپٹا سینڈوچ اور دوپہر کے لیے لنچ باکس۔ اس نے شکن آلود پیشانی کے ساتھ کسی بھی چیز کو چھوئے بنا ریک پر رکھے جوتے پہنے اور گھر سے باہر نکل آیا۔ وہ بہت لیٹ ہوچکا تھا۔ آدھا گھنٹہ، چالیس منٹ تو وہ کئی بار ہی آفس تاخیر سے پہنچا تھا۔ نیم سرکاری ملازمت تھی، گویا ’’راج پاٹ‘‘ خاصا تھا۔ مگر آج پورے گھنٹے کی تاخیر کے بعد سیٹ پر پہنچا تو بھوک سے اس کا برا حال ہورہا تھا۔
فائلوں پر ایک نگاہِ غلط ڈالتے اس نے چائے، بسکٹ منگوائے اور موبائل کانوں سے لگا لیا۔ پیر صاحب کا فون تھا۔ ’’جی شاہ صاحب نمازیں پابندی کے ساتھ ادا ہونے لگی ہیں۔ آج ہی رقم آپ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہوجائے گی، بس مجھے انکوائری کی زد میں آنے سے بچا لیجیے۔‘‘
کال ختم کرنے کے بعد اس نے شاہ جی کی بتائی دعا کا ورد کیا اور سامنے رکھی فائل کھول لی۔ چائے کی چسکی لیتے ہوئے اس نے فائل پڑھنے کے دوران ایک کاغذ کی پرچی پر پانچ ہندسے لکھے اور فائل کے اندر پرچی رکھ دی۔
’’چلو جی، شاہ جی کی قسط کا بندوبست تو ہوگیا… واہ مولا کیا شان ہے تیری!‘‘
دوسری فائل پر قلم چلاتا وہ اُس کو دیکھ نہ سکا جو بڑی خاموشی سے اس کے کمرے میں آچکا تھا۔ زیر لب تسبیح کے ساتھ پرچیاں گاہے بہ گاہے رکھتا وہ بہت مطمئن تھا۔ جزیرے کی سیاحت کرنی تھی، بھوکوں کا پیٹ بھرنے کے لیے راشن بھجوانے کا بندوبست کرنا تھا۔ کام ہی کام تھے جن میں وہ گم تھا۔
آنے والے نے ساعت دیکھی اور اس کو مخاطب کیا’’آؤ چلو‘‘۔
وہ جو مصروف تھا شاہ جی کی ہدایت پر عمل کرنے میں، اس آواز پر چونک گیا۔ اس نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے آنے والے کی طرف نظر ڈالی اور بے چوں و چرا اس کے ساتھ ہو لیا۔ کمرے میں اب کوئی نہ تھا۔ بس ایک خوب صورت جسم کرسی پر ڈھلکا پڑا تھا۔ ترتیب سے رکھی فائلوں پر قلم ساکت تھا۔ انکوائری فائل کھل چکی تھی۔