بنتِ عطا
حدیث مبارکہ کے الفاظ ہیں کہ ’’دعا عبادت کا مغز ہے، اللہ کے نزدیک دعا سے بڑھ کر کوئی شے نہیں‘‘ (رواہ ا الترمذی)۔مذکورہ حدیث میں دعا کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ کسی بھی چیز کے اصل کو مغز کہتے ہیں عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اللہ کے حضور خشوع و خصوع کے ساتھ ظاہر و باطن کو جھکائے، گڑگڑائے۔ یہ کیفیت سب عبادتوں سے زیادہ دعا میں پائی جاتی ہے اس لیے اسے عبادات کا مغز کہا گیا۔ اللہ کے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی شے نہیں اللہ خود فرماتا ہے ’’مجھ سے مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا‘‘۔ جب کوئی بندہ اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس سے ناراض ہوجاتا ہے۔
وہ اپنی حاجت کے اظہارکو اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے اس کا یہ طرزعمل اس کا تکبر اور اللہ سے بے نیازی دکھاتا ہے جبکہ وہ اپنی ہر سانس کے لیے اللہ کا محتاج ہے تو ایسے بندے سے اللہ ناراض ہوجاتا ہے اور اس کے غضب کو دعوت دینا کسی ذی ہوش شخص کا کام نہیں۔ پھر یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ بندہ اللہ سے کچھ مانگے اور اللہ اسے نہ دے وہ اسے اپنی شان کے منافی سمجھتا ہے اس بات سے حیا محسوس کرتا ہے کہ بندہ مجھ سے مانگے اور میں نہ دوں۔ اللہ ہم سے 70 مائوں سے زیادہ پیار کرتا ہے ہم اپنی امی سے کوئی چیز مانگیں وہ نہ دیں ہم ضد کرتے ہیں روتے ہیں زبردستی اپنی بات منواتے ہیں ہمیں مطلوبہ چیز مل جاتی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اللہ کے آگے روئیں ضد کریں اور اللہ نہ مانے۔
دعا قبول ہر صورت ہوتی ہے بس اس کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں کبھی ہمیں بعینہ وہی چیز مل جاتی ہے جو ہم نے مانگی، کبھی ہم سے اس دعا کی برکت سے کوئی مصیبت ٹال دی جاتی ہے، کبھی وہ دعا ہماری آخرت کے لیے ذخیرہ بن جاتی ہے اس کا بدلہ ہمیں آخرت میں ملتا ہے۔ ہماری مصلحت کس چیز میں زیادہ ہے یہ اللہ ہم سے بہتر جانتا ہے اور وہ ہم سے بہتر معاملہ فرماتا ہے۔ اور اگر بالفرض کبھی ہماری کوئی دعا قبول نہیں ہوء تو اس میں بھی کہیں نہ کہیں ہماری ہی کوتاہی ہوگی یا تو ہم نے دعا کے آداب کی رعایت نہیں رکھی ہوگی یا ہم کسی ایسے گناہ میں ملوث ہوں گے جو ہماری دعا کی قبولیت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوں گے تو اللہ سے بدگمان ہونے کے بجائے اپنے اعمال پر نظر دوڑائیے اللہ سے بدگمانی میں بھی ہمارا اپنا ہی نقصان ہے اللہ بندے سے اس کے گمان کے مطابق ہی معاملہ فرماتا ہے۔ لہذا دعا کا اہتمام اس کے آداب کی رعایت رکھتے ہوئے کریں۔ ہر عبادت کی کچھ شرائط و آداب ہوتے ہیں ایسے ہی دعا کے بھی ہیں ان کا خیال رکھنا لازم ہے۔
* آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی دعا مانگے تو ایسا نہ کہے کہ اگر چاہو تو بخش دو بلکہ پختگی اور عزم سے مانگے(رواہ مسلم)۔ اللہ سے یوں کہنا کہ چاہو تو دو چاہو تو نہ دو یہ ایک طرح کی بدتمیزی ہے ایک طرح سے آپ یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ آپ کو ضرورت نہیں ہے تو ایسے بندے کی دعا کیسے قبول ہوگی اللہ سے زبردستی بچوں کیطرح ضد کرکے روکر گڑگڑا کر مانگیں اللہ کو اپنے بندے کی یہ ادا بہت پسند ہے۔
٭ باوضو قبلہ رخ ہوکر خشوع خصوع سے دوزانو بیٹھ کر اس یقین سے دعا مانگے کہ دعا ضرور قبول ہوگی۔
٭ دعا سے پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے، درود شریف پڑھے، دو رکعت صلوۃ الحاجت پڑھے۔
٭ کم ازکم 3 مرتبہ مطلوبہ چیز مانگے آسمان کی طرف نہ دیکھے۔
٭ کسی گناہ یا ناممکن شے کی دعا نہ مانگے۔ کسی اور کے لیے دعا کرنے سے پہلے اپنے لیے دعا مانگے۔
٭ قرآن و حدیث میں موجود جامع دعائیں مانگے۔ ہر چیز اللہ سے مانگے یہاں تک کہ جوتے کا تسمہ بھی اللہ سے مانگے۔
٭مریض کی دعا، بارش کے وقت، اخیر شب میں، اذان و اقامت کے درمیان، فرض نماز کے بعد، روزے کی حالت میں۔ ان اوقات میں دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں ان کا اہتمام کریں۔
٭ حرام کمانے اور کھانے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی، نافرمان اولاد کی دعا قبول نہیں ہوتی۔
ان آداب کی رعایت رکھتے ہوئے دعا کا اہتمام لازمی کریں نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی کسی نہ کسی صورت دعا کے ثمرات ہمیں ضرور حاصل ہو ہی جائیں گے۔ اللہ کا قرب اس کی رضا حاصل ہوجائے گی اس سے بڑھ کر کیا چاہیے۔ بچوں کی طرح اللہ سے ایک دفعہ مانگ کر تو دیکھئے۔ اپنی بات منوانے کا طریقہ تو آپ کو آنا چاہئے یہ تو آپ کا کام ہے کہ آپ اپنی بات کس طرح منواتے ہیں۔ تو پھر دیر کس بات کی۔