اچھی لومڑی

390

احمد عدنان طارق
کہیں دور ایک ننھی سی لومڑی رہتی تھی ، وہ اپنا گھر صاف ستھرا کرنے میں ہمیشہ اپنی امی کا ساتھ دیا کرتی تھی۔ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں سے بھی وہ بہت پیار کرتی تھی اورکبھی اُن سے غصہ نہیں ہوتی تھی۔
اُسکے ابا اُسے کہتے بھی نہیں تھے پھر بھی وہ اُن کے کام بھی دوڑ دوڑ کر کردیتی تھی۔ اُسکے روئیے سے شاید پہلی باریوں لگنے لگا تھا کہ لومڑیاں بھی اچھی ہوسکتی ہیں۔لیکن پھر بھی مسئلہ یہ تھا کہ لومڑیوں کو کوئی اچھا نہیں سمجھتا تھا۔
جس سے اِس ننھی لومڑی جسکا نام نیلو تھا کوبہت صدمہ ہوتا تھا۔ اُسکی خواہش تھی کہ ہر کوئی لومڑیوں سے پیار کرے۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس صورتحال کو درست کرکے ہی رہے گی۔ یہ کام اُس نے مرغیوں سے شروع کیا۔ جیسے ہی شام ہوئی وہ مرغیوں کے ڈربے کے قریب چلی گئی اور اُنہیں لوری سنانا شروع کردی۔
مرغیوں نے نیلو لومڑی کی آواز سنی تو گھبراگئیں او ر زور زور سے اپنے پر پھڑ پھڑانے لگیں اور غصے سے نیلو سے کہنے لگیں؛’’ ظالم لومڑی چلی جاؤ یہاں سے ہم تمہیں پسند نہیں کرتیں‘‘۔ نیلو کچھ دیر اُن کے غصے کو برداشت کرتی رہی پھر مایوس ہو کر لوٹ آئی۔
وہ سوچ رہی تھی کہ جب میں اُن سے بات ہی نہیں کرسکتی تو یہ میری دوست کیسے بنیں گی؟وہ پہاڑی سے نیچے اُتری تو چند میمنوں کا اچھلتا کودتا دیکھا۔ وہ سونے سے پہلے کا کھیل کھیل رہے تھے۔ وہ بولی ’’ میمنو…میمنو آؤ میں تمہیں نرم گرم بستر میں سلادوں‘‘ لیکن اُسکی آواز سُن کر میمنے بدک گئے اور زور زور سے اچھلنے کودنے لگے۔
اُن کے زور سے میما نے کی آواز سن کر ایک بوڑھا میڈھا گھر سے نکلا۔نیلو کو وہاں دیکھ کر اُس نے کہا؛’’یہاں سے چلی جاؤ ورنہ میں تمہیں اپنے سینگ ماردوں گا‘‘ نیلو بولی؛’’ میں اِنہیں نقصان نہیں پہنچانا چاہتی، میں تو اِنہیں اپنا دوست بنانا چاہتی ہوں ‘‘ مینڈھے نے غصے سے جواب دیا’’ لیکن وہ تو تمہیں اپنا دوست نہیں بنانا چاہتے ، تم تو پہلے ہی اِن میں سے کئی ایک کو ہڑپ کر چکی ہو‘‘نیلو یہ بات سن کر سخت شرمندہ ہوئی وہ دل میں خود کو کہنے لگی کہ وہ تو سبزی خور ہے، وہ میمنے کیسے کھا سکتی ہے۔
نیلو کو معلوم ہو رہا تھا کہ وہ بہت مشکل کام کرنے گھر سے نکلی ہے۔وہ تھوڑا اور آگے گئی تو کچھ دور میدان میں اُس نے خرگوش کے بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا تو وہ دوڑ کر اُن کے پاس پہنچ گئی اور اُن سے کہنے لگی’’ بچو آؤ میں تمہیں پیار سے سلادوں‘‘ چھوٹے بچے اُسے دیکھ کر اتنا ڈرے کہ دوڑنے کی بجائے وہ وہیں پھدکنے لگے اور چیخنے چلانے لگے۔
اُن کی مائیں بھی بہت خوفزدہ تھیں۔ وہ چلائیں ’’کم بخت لومڑی ! دیکھو کیسے اسکے منہ میں پانی آرہا ہے۔ ہمارے بچوں کو چھوڑ دو‘‘ اُن بیچاری ماؤں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ بیچاری نیلو پیچھے ہوگئی اور کہنے لگی’’ میں انہیں نقصان نہیں پہنچانا چاہتی لیکن کوئی اس بات کو نہیں سمجھتا‘‘۔
جب کچھ بن نہ پڑا تو بیچاری نیلوگاؤں کی طرف چل دی۔ راستے میں اُسکے ہم عمر لومڑی کے بچے ملے۔ اُنہوں نے نیلو کو آواز دی اور کہنے لگے’’نیلو ہمارے ساتھ چلو، ہم گاؤں میں چھایا مارنے جارہے ہیں‘‘ نیلو نے انہیں ہنستا مسکراتا دیکھا تو وہ بھی اُن کے ساتھ ہولی۔
سب نے ملکر گاؤں میں گھروں میں گھس کر کوڑے والی کئی ٹوکریاں اُلٹا دیں اور خوب گندڈالا وہ بہت دلبرداشتہ تھی۔ اُس نے سوچا وہ شرارت کیوں نہ کرے۔ ویسے بھی کوئی لومڑیوں کو پسند نہیں کرتا۔ لہذا اُس نے سب سے ملکر چیزیں بھی چرائیں۔
لیکن جب وہ لوٹے تو وہ دل ہی دل میں شرمندہ تھی۔ وہ اس طرح کبھی بھی لومڑیوں سے نفرت کر کم نہیں کرسکتی تھی۔ اُسکے ساتھی اپنے اپنے بھٹوں میں لوٹ گئے اور وہ تنہا سڑک پر بیٹھ کر سوچنے لگی۔ تبھی اُس نے چچا عقلمند کو آتے ہوئے دیکھا جو وہاں کے ویرانے کے تنہا الو تھے۔
سب اُنہیں اُن کی بزرگی کی وجہ سے پسند کرتے تھے۔ اب اُنہیں اُن کی بزرگی کی وجہ سے پسند کرتے تھے۔ چچا عقلمند اپنی گردن کو چاروں طرف گھماتے ہوئے بولے؛ ’’سب لوگ لومڑیوں کو بُرا سمجھتے ہیں، تمہیں اُن کو سمجھانا ہوگا کہ سب لومڑیاں خراب نہیں ہوتی ہیں اور کچھ نہیں تو گاؤں صاف کرنے میں میری مدد کرو‘‘ اُن کے کہنے گاؤں جو ان کے مطابق خود لومڑیوں نے ہی گندہ کیا تھا، بیچاری نیلو نے بابا عقل مند کے ساتھ دوڑ دوڑ کر صاف کیا۔
کہیں جھاڑ و پھیرا ، کہیں پوچہ لگایا پھراگلے دن نیلو نے سوچا کہ کیوں نہ وہ سب جانوروں کو دعوت پر بلائے۔ اُس نے سب کو دعوت نامے بھجوائے۔ جلد ہی ایک ایک کرکے جانور آنے لگے۔ نیلو نے اُنہیں خوش آمدید کہا پھر اُن کے ساتھ مختلف کھیل کھیلے پھر سب نے اکھٹے چائے پی۔
واپس جاتے وقت سب کو تحفے دیئے گئے۔ چچا عقلمند ، مرغیاں بطخیں، خرگوش، میمنے سب دل سے کہہ رہے تھے کہ انہیں بہت مزاآیا۔ ابھی تک یہ بات تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ جانور سب لومڑیوں کو پسند کرنے لگے ہیں لیکن سب کا خیال ہے کہ نیلو بہت اچھی ہے او ر نیلو بھی سمجھتی ہے کہ اچھائی سے دل جیتے جاسکتے ہیں تو چلیں یہ بارش کا پہلاقطرہ ہی سہی۔

حصہ