معاذ بن مستقیم
سیٹھ باقر کواپنی دولت پر بڑا فخر تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بہت مغرور تھے۔ وہ فطرتاََ اچھے آدمی تھے اور لوگوں سے ہمیشہ اچھے طریقے سے پیش آتے تھے۔ ان کی مل میں بناہوا کپڑا دنیا بھر میں سپلائی ہوتا تھا۔
مل کے ملازمین کے ساتھ بھی ان کاسلوک اچھاتھا۔ اپنے ملازمین کی بہت سی غلطیوں کو وہ اکثر نظرانداز کرجاتے تھے۔ ملازمین کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرنے کی کوشش کرتے اور تنخواہ بھی اچھی دیتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ان کے ملازمین نے بہت کم ہی ریٹائرمنٹ پہلے اس مل کو چھوڑا۔
چنددنوں پہلے ہی مالی نے اپنی دو بیٹیوں کی شادی کے لیے پیسے مانگے۔ انھوں نے صرف اسے قرضہ فراہم کیا، بلکہ شادی کی دعوت بھی مِل کے پرائیویٹ لان میں کرائی۔ ان کی مِل کے ایک ملازم ، جسے ابھی کام کرتے ہوئے چار پانچ دن ہی ہوئے تھے ، سڑک پر ایک حادثہ پیش آگیا تھا، جس کی وجہ سے وہ دو مہینے کے لیے کام کے قابل نہیں رہا۔
سیٹھ باقر نے اس کا پورا علاج کروایا، بلکہ جب تک وہ دوبارہ کام کے قابل نہیں ہوگیااسے تنخواہ بھی برابر ملتی رہی۔ غرض یہ کہ وہ بڑی حدتک ایک فرشتہ صف انسان تھے۔ وہ لوگوں کی مدد کرکے خوش ہوتے تھے۔ ان کاخیال تھا کہ ان کی ترقی کارازانہی غریبوں کی دعائیں ہیں اس کے باوجود ان کے دل میں ایک خیال تھا کہ وہ امیرآدمی ہیں۔
یہ احساس انھوں نے آج تک کسی پر ظاہر نہیں کیا تھا۔ یہ تو بس اس خیال سے ہی سرشار رہتے تھے۔
وہ شہر میں موجود غریبوں کی ضروریات کاخیال رکھنے والے ایک ادارے کو ہر ماہ ایک بڑی رقم بھی دیتے تھے۔ ویسے تو ہر ماہ کی چار پانچ تاریخ کو پیسے باقاعدگی سے اس ادارے کو مل جاتے تھے، مگر پھر بھی وہ ہر مہینے ایک دوبارہ دوپہر کے کھانے سے پہلے وہاں کا چکر ضرور لگاتے اور ادارے کے پاس موجود ضرورت مندوں کے کھانے پینے اور راشن وغیرہ کی صورت حال کاجائزہ لیتے۔
پچھلے دو مہینوں سے جب بھی وہ ادھر صورت حال کا جائزہ لینے جاتے تو ایک تیرہ چودہ سال کے بچے کواسکول یونی فارم میں سائیکل پر بہت سے اخبارلیے ادارے سے نکلتے دیکھ کر وہ افسوس کرتے کہ بے چارے کو اس عمر میں کام کرنا پڑرہا ہے… اور اسی لمحے اپنی امیری کاخیال آتااوران کے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی۔
ایک دن اس اخبار والے بچے کی مدد کی نیت سے اپنے معمول سے ایک گھنٹہ پہلے وہی وہاں پہنچ گئے اور انتظار کرنے لگے۔ آدھے گھنٹے کے انتظار کے بعد وہ بچہ آتا دکھائی دیا۔ وہ گیٹ سے اپنی سائیکل سمیت ہی اندر آگیاتھا۔ انھوں نے بچے کو ہاتھ کے اشارے سے قریب بلاا اور اس کی جیب میں ہزار کا نوٹ ڈالنے لگے تو انھیں حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا۔
بچے نے ان سے وہ نوٹ لینے سے انکار کردیا۔
نہیں انکل ! میرے والدین کہتے ہیں کہ اوپر والا ہاتھ، نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اللہ میاں کا شکر ہے۔ ہم مل کرکام کرتے ہیں اور ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ اس بچے نے معصومیت سے کہا اور انھیں حیران وپریشان چھوڑ کر ایک جانب چل دیا۔
ان کے قدم غیر ارداری طور پر اس بچے کے پیچھے اٹھ گئے۔ اب جو منظر انھوں نے دیکھا تو ان پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ وہ بچہ اپنی جیب سے دس روپے کانوٹ نکال کر ادارے کے خیراتی بکس میں ڈال رہاتھا۔ پیسے ڈال کر اس نے سائیکل گھمائی اور گیٹ سے باہر نکل گیا۔
انھوں نے ادارے کے منتظمین سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ غریب بچہ یہاں روزانہ اپنی معمولی آمدنی کے باوجود دس روپے ضرور ڈال کر جاتا ہے اور کبھی یہاں کاپانی تک نہیں پیتا۔ سیٹھ باقر کے دل پرایک چوٹ سی لگی۔ آج انھیں معلوم ہوا کہ حقیقت میں امیر کون ہے۔
وہ محنت کرنے والا بچہ جس کادل اس دنیا کے سب امیروں سے زیادہ امیر تھا۔
اب جب بھی ان کے دل میں کبھی امیری کا خیال آتا تو ان کی آنکھوں کے سامنے وہ بچہ آجاتا تھا، جس کے سامنے وہ اپنے آپ کو بہت غریب محسوس کرتے ہیں، انتہائی غریب۔