دانیہ بٹ
ایک بڑھیاکا بیٹاجس کو شیخ چلی کے نام سے پکارا جاتا بڑا کام چور تھا۔ بڑھیا محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بیٹے کا پیٹ پالتی۔ بڑھیا بیمار ہوئی تو گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا۔ رات کو ماں بیٹا دونوں نے فاقہ کیا۔
اگلے دن ماں نے کہا ’’اب تم کچھ کام کرو‘ جنگل سے لکڑیاں لا کر بیچ دیا کرو تاکہ گزر اوقات ہو سکے۔شیخ چلی نے جنگل کی راہ لی۔ جو درخت اس کے راستے میں آتا‘ اس سے پوچھتا ’’میں تجھے کاٹ لوں ؟‘‘ کسی درخت نے جواب نہ دیا۔
شیخ چلی گھر جانے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ ایک اور درخت نظر آیا۔ اس نے اس نے پاس جا کر پوچھا ’’میں تجھے کاٹ لوں؟‘‘درخت بولا۔ ’’ہاں کاٹ لے‘‘ مگر ایک نصیحت کرتا ہوں۔ میری لکڑی سے پلنگ بنانا اور بادشاہ کے دربار میں لے جانابادشاہ کو کہنا پہلے ایک دو راتیں اس پر سوئے‘ پھر قیمت طے کرنا۔
شیخ چلی نے لکڑیاں کاٹ کر پلنگ تیار کیا اور بادشاہ کے دربار میں پہنچا۔ بادشاہ نے قیمت پوچھی تو شیخ چلی نے کہا ’’پہلے آپ اس کو ایک دو رات استعمال کریں‘ پھر جو دل چاہے دے دیں۔‘‘ بادشاہ بہت حیران ہوا اور شیخ چلی کے کہنے پر نوکروں کو حکم دیاکہ آج یہی پلنگ میرے کمرے میں بچھایا جائے۔
جب رات کو بادشاہ پلنگ پر سویا تو آدھی رات کو پلنگ کا ایک پایا بولا۔ ’’آج بادشاہ کی جان خطرے میں ہے۔ دوسرے نے کہا ’’وہ کیسے؟‘‘ تیسرا بولا ’’بادشاہ کے جوتے میں کالا سانپ ہے۔ چوتھے نے کہا ’’بادشاہ کو چاہئے کہ صبح جوتا اچھی طرح جھاڑ کر پہنے۔
‘‘ دوسری رات جب بادشاہ سویا تو پھر پایوں نے باتیں شروع کیں۔ ایک بولاکہ تم پلنگ کو سنبھالے رکھنا میں کچھ خبریں جمع کرکے آتا ہوں۔ تینوں پایوں نے پلنگ کو تھامے رکھا۔ چوتھا واپس آیا تو اس نے خبر سنائی کہ بادشاہ کا وزیر سازش کرکے بادشاہ کو ختم کرنا چاہتا ہے۔
پھر دوسرا پایا بولابادشاہ کی بیوی وزیر سے مل کر بادشاہ کو زہر دینا چاہتی ہے۔ تیسرے پائے نے تجویز پیش کی کہ بادشاہ کو چاہئے کہ وہ وزیر کو مروا دے۔ چوتھا پایا گیا اور خبر لایا کہ بادشاہ کو ناشتے میں جو دودھ دیا جائے گا وہ زہریلا ہوگا۔
بادشاہ یہ سب سن رہا تھا۔ صبح بادشاہ نے دودھ خود نہ پیا بلکہ ایک کتے کو پلا دیا۔ کتا اسے پیتے ہی مر گیا۔ اس سے بادشاہ کو پتہ چل گیا کہ اس کا وزیر اور بیوی اس کی زندگی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ بادشاہ نے وزیر کومروا دیا اور اپنی بیوی کو محل سے نکلوا دیا۔
بادشاہ نے شیخ چلی کو بلوایا اور خوب انعام و کرام سے نواز۔ جس سے شیخ چلی مالدار ہوگیا۔ لوگ اسے شیخ صاحب پکارنے لگے اور بادشاہ کے دربار میں عزت بڑھ گئی۔ اس طرح دونوں ماں بیٹے آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔