وقت کی اہمیت

294

جویریہ ندیم
’’السلام علیکم! ابو ہم کب سے آپ کا کھانے پر انتظار کررہے ہیں ابراہیم تو سو بھی گیا آپ انتی دیر سے آئے ہیں۔‘‘ میں نے شکوے اور پیار کے ملے جلے انداز میں کہا۔
’’بتاتا ہوں، بتاتا ہوں، بیٹھنے تو دو مجھے!‘‘ ابو نے تھکن کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’سعدیہ آکر کھانا لگائو، سب کو بہت بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ امی کی باورچی خانے سے آواز آئی۔ ’’آرہی ہوں‘‘۔ میں نے باورچی کھانے خانے کا رخ کرتے ہوئے کہا۔
٭…٭
ہم سب کھانے پر بیٹھے تھے تو ابو نے امی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’نادیہ! ہمارے پرانے والے گھر کے برابر میں جو متین صاحب رہتے تھے ان کے بیٹے کا آج انتقال ہو گیا دوپہر میں، عشاء میں نمازِ جنازہ تھی، ادھر سے ہی آ رہا ہوں۔‘‘
انا للہ ا انا الیہ راجعون! کیوں خیریت، کیا ہوا تھا اسے؟ امی نے پوچھا۔ ’’بس جس کا وقت آجائے، بچارہ بچہ اسکول سے آخری پرچہ کرکے آیا تھا اور یونیفارم بدلے بنا ہی تھکن کی وجہ سے صوفے پر سو گیا تھا اس کو دو ایک دن سے نزلہ بخار تھا، سوتے ہوئے بلغم سانس کی نالی میں پھنسا اور اس کا انتقال ہو گیا۔ متین صاحب کہہ رہے تھے کہ صبح جاتے ہوئے بچہ کہہ رہا تھا کہ بس آخری پیپر دے لوں پھر ساری تھکن پوری کروں گا۔‘‘ ابو تو یہ کہہ کر کھانے کی میز سے اٹھ کر ہاتھ دھونے اٹھ گئے مگر میں وہیں ساکت بیٹھی رہی، میری آنکھیں نم ہو گئی اور ذہن میں سوال امنڈنے لگے کہ کیا اس بچے کو پتا ہو گا کہ یہ میری زندگی کا آخری دن ہے؟ کیا اس کو معلوم ہو گا کہ وہ جو پیپر دے کر آیا ہے اس کا رزلٹ تک نہ دیکھ پائے گا؟ اس نیند کے بعد کبھی اپنی آنکھیں کھول نہ پائے گا؟ اس سونے کے بعد پھر اٹھ نہ پائے گا؟ پھر کبھی اس دنیا اور اپنے ماں باپ کو نہ دیکھ پائے گا؟ کیا اس کو معلوم تھا کہ یہ اس کی آخری گھڑیہے؟ اس سوچ میں نجانے ایسا کیا تھا کہ میں روتی چلی گئی اور سوچنے لگی کہ کب ہمارا بھی وقت آجائے۔ ہم بھی اس دنیا کو چھوڑ کر چلے جائیں۔ لیکن افسوس! ہم اس وقت کو بھولے بیٹھے ہیںہمیں وقت کی قدر کرنا چاہیے۔

حصہ