خالد معین
قرین از قیاس 4 ستمبر 1923ء کو راجستھان (بھارت) میں پیدا ہونے والے اور طنزو مزاح کے عظیم لکھاری، مشتاق احمد یوسفی بھی اس برس 20 جون کو رخصت ہوگئے ۔ اس طرح پاکستان کی بزرگ نسل کے ایک مقبول ترین، اہم ترین اور روشن ترین طنزو مزاح نگار کے جانے سے شعرو ادب کی دنیا میں ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا، جسے پُر کرنا ناممکن تو نہیں البتہ انتہائی دشوار ضرور ہوگا، جب کہ یہ واقعہ آیندہ کئی عشروں تک ظہور پذیر ہونا خارج از امکان دکھائی دیتاہے۔ مشتاق احمد یوسفی کو متفقہ طور پر شعرو ادب کی موجودہ جدید دنیا میں جو اہمیت، عزت اور احترام حاصل تھا، وہ بہت کم کسی شاعر اور ادیب کو دیا جاتا ہے۔ طنزو مزاح کی دنیا میں یہ مقام انہوں نے اپنی گہری انفرادیت، معیاری نثری اثاثے، برجستہ شستہ مزاح اور کاٹ دار طنز کی بہ دولت ایک طویل ریاضت کے بعد بتدریج حاصل کیا۔ ایک تو انگریزی اور دیگر زبانوں کے مقابلے میں اردو مزاح کا خانہ کچھ ایسا بھرا پُرا نہیں، اور دوسرا گزشتہ تیس سال میں جو طنزو مزاح نگار ابھرے، اُن کا معیار بڑا پست رہا، اس کے نتیجے میں قارئین کی نگاہیں بار بار مشتاق احمد یوسفی کی جانب اٹھتی رہیں، جو ابن ِ انشا کے بعد طنزو مزاح کی مملکت کے آخری تاج دار کی حیثیت سے سب کے چہیتے، پسندیدہ اورمحبوب رہے۔
مشتاق احمد یوسفی نے تعلیم تو فلسفے اور قانون کی حاصل کی، بھارت میں مقابلے کا امتحان پاس کرکے ڈپٹی کمشنر بھی بنے، مگر پاکستان ہجرت کرکے زندگی بھر بینکنگ کی دنیا کے اعداد و شمار میں الجھے رہے۔ البتہ وہ بینکنگ کے شعبے میں بھی کسی کم عہدے پر براجمان نہ تھے، بلکہ بینک منیجر سے بتدریج ترقی کرتے ہوئے اعلیٰ ترین عہدوں پر متمکن رہے، جن میں بینک کا صدر اور بینکنگ کونسل کا چیئرمین بننا بھی شامل ہے۔ پاکستان کے بعد مشتاق احمد یوسفی جب بی سی سی آئی بینک کے حوالے سے لندن میں طویل عرصے کے لیے مقیم ہوئے تو یقینا یہیں اُن کی حیران کُن مقبولیت اور طنزو مزاح کے میدان میں بلا شرکت ِغیرے مقبولیت کا آغاز بھی ہوا، اور یہیں سے انہیں پوری اردو دنیا میں ایک ممتاز اور بلند مقام بھی حاصل ہوا۔ لندن میں معروف شاعر افتخار عارف کے ادارے ہی کے نہیں، بلکہ اُن کے انتہائی رازدار اور ذاتی دوستوں میں شامل رہے، اُدھر ’اردو مرکز لندن‘ کے ذریعے افتخار عارف نے اپنی روایتی دوراندیشی، ذہانت اور معاملہ فہمی سے پورے پاکستان اور بھارت کے اہم ترین اور بڑے لکھنے والوں کو لندن یاترا بھی کرائی اور اُن سے ذاتی تعلقات بھی استوار کیے، مشتاق احمد یوسفی بھی یقینا اس مہم جوئی سے فیض یاب ہوئے اور دیگر اہم شخصیات کے ساتھ فیض احمد فیض، زہرہ نگاہ، احمد فراز سے بھی اُن کے قریبی مراسم بن گئے، جنہوں نے اُس زمانے میں عارضی طور پر لندن کو اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا، جب کہ ساقی فاروقی تو لندن کو مستقل طور پر اپنا چکے تھے۔
’چراغ تلے‘، ’خاکم بدہن‘، ’زرگزشت‘ اور ’آب ِ گم‘ نے مشتاق احمد یوسفی کے مرتبے اور مقام کا تعین کیا۔ اس کے ساتھ اسی دوران اُنہوں نے اپنی بینکوں سے طویل وابستگی کو مستحکم کیا اور اپنی وِٹ کے برجستہ استعمال کے ساتھ اپنے تجربات و مشاہدات کو انتہائی مشّاقی سے قلم بند کرنا شروع کیا۔ وہ صرف اچھا جملہ سجا کے، بنا کے اور نکھار کے لکھتے ہی نہ تھے بلکہ اُن کی عوامی پڑھت بھی اتنی ہی کاٹ دار، لطف انگیز، شوخ، بھرپور ٹائمنگ کے ساتھ اور اتنی حیران کُن خوش گواریت میں ڈوبی ہوتی تھی، جتنی اُن کی لچھے دار طنزیہ چوٹ شگفتہ انداز اور منفرد تحریریں تھیں۔ یوں اس عوامی پڑھت نے رفتہ رفتہ اتنا رنگ جمایا کہ یوسفی صاحب کے ساتھ دھڑا دھڑ ادبی شامیں منائی جانے لگیں، اور یہ حال ملک کے علاوہ بیرون ِ ملک اہم ادبی مراکز میں بھی بڑی شان و شوکت سے دیکھا گیا۔ وہ جہاں بھی گئے، اس علاقے کو فتح کرکے لوٹے، دلوں میں اپنی یادیں اور لبوں پر اپنے دل چسپ فقرے چھوڑ آئے۔ وہ بڑی نفیس شخصیت کے مالک تھے، بڑے شائستہ بھی تھے، کمال کی فقرے بازی کرتے تھے، اجنبی لوگوں کے سامنے تو کم کم کھلتے تھے، مگر اپنی جان پہچان کے لوگوں میں خوب چہکتے تھے اور نت نئے شگوفے چھوڑتے تھے۔ مشتاق احمد یوسفی نے اپنی خوش لباسی، اپَر کلاس لیونگ اسٹائل، اور انکسار میں ڈوبی منفرد شخصیت سے اپنی کٹیلی اور شگفتہ تحریروں کو مقبول بنانے کا کام بڑی عمدگی سے لیا۔ اُن کے پاس گفتگو اور تقریر کے درمیان اتنی ہی کمال کی ٹائمنگ تھی، جتنی ضیا محی الدین کے پاس ہے، وہی ضیا محی الدین، جو نظموں کی اعلیٰ پڑھت کے ساتھ شگفتہ نثری مضامین کی پڑھت میں بھی اپنا جواب نہیں رکھتے۔ اب ضیا محی الدین کچھ پڑھیں اور وہ جو کچھ پڑھیں، وہ مشتاق احمد یوسفی کی کوئی نادر تحریر ہو، تو بس ’وہ پڑھیں اور سنا کرے کوئی، والا معاملہ ہوجاتا ہے اور سامعین و ناظرین ہر فقرے اور ہر مضمون پر داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے رہ جاتے ہیں۔
یوں تو دیگر کتابیں بھی اپنی اپنی جگہ اہم ہیں، تاہم ’آب گم‘ مشتاق احمد یوسفی کا وہ شہ کار ہے، جس میں وہ اپنے فن کے انتہائی عروج پر نظر آتے ہیں۔ یہ ایک سوانحی ناول بھی کہا جاسکتا ہے، چند کرداروں کے نشیب و فراز پر مبنی دل چسپ اور دل سوز داستان بھی کہی جا سکتی ہے، ہجرت کے بعد ایک نئے وطن میں آمد اور نئے لوگوں کے درمیان جذباتی اور نفسیاتی کشمکش کی نوحہ خوانی بھی کہی جاسکتی ہے، تاہم پیرایۂ اظہار ایسا کہ ایک آنکھ روئے اور دوسری آنکھ ہنسے، زبان و بیان کا تڑکا ایسا کہ پڑھنے والا ہر سطر اور ہر جملے پر عش عش کرتا جائے، غرض مشتاق احمد یوسفی نے ’آب ِ گم‘ میں جتنے کمالات دکھائے ہیں، وہ سب کے سب قابل ِ ستایش ہیں اور اردو ادب میں اس پائے کی محض دوچار کتابیں ہی اور ہوں گی۔ بدقسمتی سے اس بلندی تک پہنچنے کے بعد اُنہوں نے اپنی پال میں لگی تحریروں میں سے قارئین کے لیے مزید کسی کتاب کی رونمائی نہ ہونے دی۔
نوّے برس چاق چوبند گزارکے، اپنی بیماری اور کمزوری کے آخری دور میں کچھ اہل ِ خانہ اور بیرونی دبائو پر مشتاق احمد یوسفی کی تمام فرمایشی اور تعزیتی تحریریں، ایک کتاب ’شام ِ شعر یاراں ‘ کے نام سے مرتب کردی گئیں، ہر چند کہ اس کتاب میں دو چار تحریریں مشتاق احمد یوسفی کے روایتی اسٹائل کی بھی ہیں، تاہم مجموعی طور پر اس کتاب کی اشاعت سے اُن کے اکثر مداحوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب جب کہ مشتاق احمد یوسفی دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ اُن کی غیر مطبوعہ تحریریں جو اب بھی خاصی معقول تعداد میں اُن کے اہل ِ خانہ کے پاس محفوظ ہیں،کتنی جلدی اور کس ترتیب و تہذیب سے سامنے لائی جاتی ہیں، چاہے وہ تھوڑی کم پکی ہوئی کیوں ناں ہوں، اُنہیں یقینا ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا، ویسے بھی کتاب نہ بکنے کے موجودہ دور میں بھی یوسفی صاحب کی کتابیں مسلسل بکتی رہیں۔ دوسری جانب یہ بات بھی طے ہے کہ پرفیکشن کی آخری حدوں کو چھونے والے خلاق ترین طنزو مزاح نگار آسانی سے اپنی تحریروں کو قبول نہیں کرتے تھے اور اُن کی مستقل کانٹ چھانٹ کرتے رہتے تھے، اور یہ عرصہ برسوں پر مشتمل ہوتا تھا، اسی لیے اُن کی تحریریں اتنا بلند معیار اور بلند رتبہ بھی رکھتی ہیں۔ وہ مشرقی اور مغربی شعرو ادب پر کمال کی نگاہ رکھتے تھے، جملہ سازی اور مشہور شعروں میں تحرفات کرنے میں بھی وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے، وہ جو بھی کرتے تھے یقینا کمال کرتے تھے، اور اب یہ کمال پر کمال دکھانے والا بلند قامت ادیب ہمارے درمیان موجود نہیں، البتہ اُس کے نادر فن پارے ہمارے لیے اور ہماری آیندہ نسلوں کے لیے ضرور موجود ہیں، اور اسی لیے طنزو مزاح نگاری میں عہد ِ یوسفی گزرے ہوئے کل کی طرح آنے والے کل میں بھی قائم و دائم رہے گا۔
جہاں تک ذاتی ملاقاتوں کی بات ہے، یقینا کچھ ملاقاتیں یوسفی صاحب سے ضرور ہوئیں مگر اُس طرح نہ ہوسکیں جیسے عزیز حامد مدنی، جون ایلیا اور عبیداللہ علیم وغیرہ سے ہوئیں۔ جب وہ لندن سے کراچی شفٹ ہوئے تو اُنہوں نے اپنے گھر پر ادبی نشستوں کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ اس سلسلے میں دو شاعروں کو مدعو کیا جاتا تھا اور اُن سے تفصیلاً کلام سنا جاتا تھا۔ سامعین میں شہر کی منتخب شخصیات شریک ہوتیں، تاہم ہم جیسے نئے شعرا تک آتے آتے یہ سلسلہ بہ وجوہ ختم ہوگیا۔ البتہ ایک ایسا موقع ضرور ملا جس میں صدارت یوسفی صاحب کے ذمے تھی اور اس نشست میں مجھے، ایاز محمود اور فاطمہ حسن کو کلام سنانا تھا، یہ محفل تقریباً دو گھنٹے جاری رہی اور یوں کسی مشاعرے کے بہ جائے الگ سے یوسفی صاحب کو کلام سنانے کی خواہش پوری ہوئی۔ اسی طرح قریشی برادران سال کے سال آموں کی فصل کے موقع پر ایک بڑی محفل کا انعقاد کرتے آئے ہیں اور یوسفی صاحب اس خاص محفل کی جان رہے۔
کھانے پینے کا شوق تقریباً سبھی لکھنے والوں کو ہوتا ہے، مشتاق احمد یوسفی کو بھی تھا، آم بڑے شوق سے کھاتے اور ساتھ جامن کا توڑ بھی رغبت سے لگاتے۔ کننا بنتا تو خوش ہوکر کھاتے۔ جہاں تک پینے کا تعلق ہے، وہ یقینا بھائی جون کے قبیلے سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ خورو نوش کے بعد قریشی برادران ایک مختصر شعری نشست بھی ضرور رکھتے ہیں، نظامت اپنے انیق احمد کے سپرد ہوتی اور صدارت یوسفی صاحب فرماتے۔ ایک تو قریشی برادران کا یوسفی صاحب سے عشق اور دوسرا یوسفی صاحب کا آموں سے عشق، اس لیے بیماری کے آخری ایک دو برس کے سوا یوسفی صاحب کئی برس تک تواتر سے اس سالانہ آم اور کننا پارٹی میں لازمی طور پر شریک ہوتے، اور جب تک محفل میںہوتے، محفل کی جان ہوتے، جہاں جہاں موقع ملتا وہ اپنے مخصوص انداز میں خوب صورت مزاحیہ اور طنزیہ فقرے بھی شرکا کی نذر کرتے جاتے۔ اب نہ وہ متبسم چہرہ ہے، نہ وہ وضع داری ہے، نہ وہ محفلیں ہیں اور نہ وہ یوسفی صاحب ہیں… بس یادیں ہیں اور یادوں کے ساتھ اُن کی بے مثال اور جیتی جاگتی زندہ تحریریں ہیں، جو یقینا آنے والی کئی صدیوں تک اپنی بھرپور انفرادیت اور خوب صورتی کی بناء پر اسی طرح زندہ رہیں گی۔