اللہ کا مہمان

614

یہ بات ہے سن 1996 کے آخری مہینے کی، میں آفس جانے کے لئے تیار ہوکر بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا۔ ابھی آدھا ہی ناشتہ کیا تھا کہ فون کی گھنٹی نے چونکا دیا۔ اللہ خیر کرے، میرے منہ سے بیساختہ یہ کلمہ نکلا اس لئے کہ بہت سویرے کبھی کوئی ٹیلیفون نہیں آیا تھا۔ اس زمانے میں موبائیل فون کا رواج ہی نہیں تھا، اور لینڈ لائین فون کچھ فاصلے پر تھا۔ فون کی جانب بڑھتے ہوئے میں نے اچھی طرح محسوس کر لیا تھا کہ سب اہل خانہ جس میں میرے بیوی بچے اور والدہ محترمہ بھی شامل تھیں، انھوں نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لئے ہیں اور ان سب کی توجہ میری جانب ہی مبزول ہے۔
میں نے ٹیلیفون اٹھا یا تو دوسری جانب سے میرے آفس کے ایک ساتھی نے کپکپاتی ہوئی آواز کے ساتھ مجھے دنیا کی سب سے بڑی خوش خبری سنائی جس کو سن کر میرا رواں رواں رقصیدہ ہوگیا۔ جس میں کپکپی طاری ہوگئی اور میں نے اور کچھ سنے بغیر فون کریڈل پر رکھ دیا اور اپنی والدہ کی گود میں سر رکھ کر زار و قطار رونے لگا۔ گھر والوں کی پریشانی اور اضطراب اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا، ہر چہرہ سوالیہ نشان بنا ہوا تھا، والدہ میرے سر پر اور کمر پر بہت پیار سے لیکن اضطرابی کیفیت کے ساتھ ہاتھ پھیر رہی تھیں اور انتظار کر رہی تھیں کہ مجھے کچھ قرار آئے تاکہ میں انھیں کچھ بتا سکوں۔
میری حالت کچھ سنبھلی تو میں نے کہا کہ میرا نام حج کی قرآندازی میں نکل آیا ہے اور یہ کہہ کر میں نے اپنا سر پھر اپنی والدہ کی گود میں رکھ دیا ہر زبان سے مبارک باد مبارک باد کے الفاظ بیساختہ بلند ہوئے۔
میں ایک آئیل کمپنی میں ملازم تھا، جس میں ملازم ہوئے مجھے اس وقت 18برس ہو چکے تھے۔ ہماری کمپنی ہر سال 27 ملازمین کو حج پر بھیجا کر تی تھی، پتا نہیں کیا بات ہے کہ ان اٹھارہ برسوں میںمیرے دل میں کبھی یہ تڑپ کیوں نہ پیدا ہوئی کہ میں بھی کبھی اسی طرح ـ ’’اللہ‘‘ کا مہمان بنوں، میرا بھی کبھی قراندازی میں نام نکلے لیکن، گزشتہ دو برسوں سے دل میں یہ تمنا شدت سے جنم لے رہی تھی کہ میں بھی ان خوش قسمتوں میں شامل ہو جاؤں۔ گزشتہ سال نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ اس مرتبہ کی قراندازی میں میرا نام ضرور آئے گا ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ اس میں میرا نام شامل نہیں تھا، میں اپنے دل میں بہت رویا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ خود مجھ کو اس قابل بنادے کہ میں اپنے بل بوتے پر حج کر سکوں۔
ہوتا یہ ہے کہ بہت سارے جذبے ہوتے تو بہت سچے ہیں لیکن نہ جانے کیوں بہت جلد سرد ہوجاتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا اور میں اس کسسک اور تڑپ کو قریب قریب فراموش کر چکا تھا جو گزشتہ سال حج کی قراندازی میں اپنا نام نہ پاکر ہوئی تھی بلکہ اب تو مجھے یہ بھی یاد نہیں رہا تھا کہ اس ماہ کوئی قراندازی ہو نے والی ہے
پاکستان سیاسی اعتبار سے شاید ہی کبھی مستحکم رہا ہو، ادھر قراندازی میں میرا نام نکلا ادھر حکومت کا عبوری دور شروع ہوگیا، حج کا مہینہ اپریل 1997میں آنا تھا۔ میرا ٹرانسفر بلوچستان کی ایک دور دراز کی فلیڈ میں ہو چکا تھا۔ لیکن حج کی وجہ سے اعلیٰ افسران نے اسے موخر کیا ہوا تھا۔ کاغذات حکومت کی منظوری کے لئے گئے ہوئے تھے۔ اسی دوران ایک بری خبر ملی کہ حکومت نے سرکاری حج کوٹے پر مکمل پابندی لگا دی ہے۔ اس خبر کو سن کر خیال آیا کہ شاید مجھ گناہگار کی دعوت فی الحال رب العزت نے ابھی قبول نہیں کی ہے، بہت رونا آیا لیکن میں نے یہ خبر بد گھروالوں سے پوشیدہ رکھی۔
ٹرانسفر آرڈر آئے ہوئے تھے، اب تاخیر کا جواز نہیں رہ گیا تھا اس لئے مجھے اسلام آباد سے بلوچستان بھیج دیا گیا۔ جس طرح قراندازی کی خبر ہر ہر لوکیشن کو کر دی جاتی ہے اسی طرح حکومت کی لگائی گئی پابندی کی خبر بھی ہر ہر لوکیشن کو ہوچکی تھی، میرا قراندازی میں نام آنے کی اطلاع تو اس لئے بھی اس لوکیشن کو تھی کہ ٹرانسفر آرڈر کے ساتھ ہی اس میں تاخیر حج کے لئے تیاری بطور جواز لکھی گئی تھی۔
حج میں ایک ماہ اور شاید بیس دن رہ گئے تھے لیکن میں حیران تھا کہ مجھے خواب میں جو جو بھی اشارے ملتے تھے وہ ’’حج‘‘ کے ہی ملتے تھے جبکہ حکومت پاکستان نے اس پر سختی کے ساتھ پابندی لگائی ہوئی تھی۔
دوسرے ساتھیوں کا تو پتہ نہیں البتہ میرے فیلڈ منیجر جب جب بھی ملتے وہ یہی کہتے کہ دیکھو حبیب یہ دعوت اللہ کی جانب سے ہے ، تمہیں حج پر جانے سے اب دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی، ان کی اس بات سے مجھے حوصلہ ملتا اور مجھے وہ اشارے جو خواب میں ملتے تھے حقیقت معلوم ہونے لگتے ، لیکن کیسے؟ اس کا جواب مجھے دینے والا کوئی نہیں تھا۔
جب میں فیلڈ سے گھر کے لئے روانہ ہوا اس وقت حج کی آخری فلائٹ جس کو اسلام آباد سے روانہ ہونا تھا اس میں فقط چار دن باقی رہ گئے تھے اور اس وقت تک حکومت کی پابندی بر قرار تھی، میں حیران تھا کہ دل اسقدر مطمئن کیوں ہے اور ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں اللہ کا مہمان بن چکا ہوں۔
ایک دن کا سفر کرکے جب میں اگلی صبح گھر پہنچا ہوں اور جونہی اپنے گھر میں داخل ہوا ہوں، میں نے اپنے لئے والدہ، بیوی اور بچوں کو اپنا منتظر پا یا، سب بہت خوش تھے اور بہت پر جوش بھی۔ ان کی اسطرح کی کیفیت دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ اللہ جانے کیا ماجرہ ہے۔ میری اس بیتابی کو محسوس کرتے ہوئے والدہ نے کہا کہ کل ہی تمہارے ہیڈ آفس سے کوئی آیا تھا اور کہہ رہا تھا کہ تم آج گھر پہنچنے والے ہو، اور نیہ بات اسے فلیڈ سے پتہ چلی ہے، جو نہی حبیب صاحب پہنچیں انھیں بلا تاخیر ہیڈآفس بھیجیں، حکومت نے پابندی ہٹالی ہے اور وقت بہت کم ہے، کاغذات کی تیاری میں بہت ہی کم وقت رہ گیا ہے۔
قراندازی نام نکلنے کی خبر جب ملی تھی تو میں ناشتہ کر رہا تھا، پابندی اٹھنے اور ہیڈ آفس پہنچنے کا جب حکم ملا ہے تو وہی وقت ہے اور ناشتہ تیار ہے، واہ وا، سبحان اللہ، ایک مرتبہ بھر میری آنکھوں سے شکرانے کے اشک جاری ہوگئے تھے۔
ہیڈ آفس گیا ہوں تو متعلقہ ڈپارٹمنٹ کے سارے افراد کے گویا پر لگے ہوئے تھے۔ عام طور پر گورنمنٹ ڈپارٹمنٹ کام کے سلسلے میں بہت سست ہوتے ہیں لیکن لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ شعبہ کسی گورنمنٹ آرگنائیزیشن کا ہے، دو دن ، رات گئے تک مصروف رہے اور تیسرے دن میں احرام باندھے آنسؤں ، بیوی بچوں اور والدہ کی دعاؤں کے ساتھ اللہ کے گھر کی جانب محو پرواز تھا۔
اس بات کا سخت ملال تھا کہ میں اپنی والدہ اور بیوی کو اپنا ہمراہی نہ بنا سکا لیکن اس میں میرا کوئی قصور نہیں تھا، حکومت کی جانب سے لگائی گئی پابندی نے کسی بھی قسم کی بھاگ دوڑ سے روک دیا تھا۔ جب میرا خود کا جانا ہی قریب قریب ممکن نظر نہیں آرہا تھا تو میں مزید کیا ہاتھ پاؤں مارتاکہتے ہیں کہ خانہ کعبہ پر جس وقت پہلی نظر پڑے اس وقت جو دعا مانگی جائے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول و مقبول ہوتی ہے۔ نامعلوم دل میں کن کن دعاؤں کا سوچا، کتنے جملے جوڑے کہ بس پلک چھپکائے بغیر یہ دعا مانگوں گا۔ ہماری بس غالباً کسی ایسے مقام پر پہچی جہاں سے کعبہ نظر آرہا ہوگا، بس میں ایک شور اٹھا ، میں نے گھبرا کر اپنی توجہ اپنی سیٹ کی جانب ہی رکھی اس لئے کہ میں نے تحیہ کر رکھا تھا کہ میں مسجد کے صحن میں پہنچ کر ہی اللہ کے گھر کا دیدار کرونگا اور پلک چھپکائے بغیر ڈھیروں دعائیں مانگونگا۔
اقامت گاہ ’’مسجد جن ‘‘کے قریب اس وقت کی ایک جدید عمارت بنی، سامان رکھا اور دیدار بیت اللہ کے لئے روانہ ہو ا۔ جب صحن حرم میں داخل ہوا اور کعبے پرپہلی نگاہ پڑی، ہوش و حواس سب جواب دے گئے، وہ خوبصورت خوبصورت جملے، وہ بڑی بڑی دعائیں نہ جانے کہاں گم ہو گئیں، آنسؤں کی لڑی تھی اور بس یہ جملہ کہ اللہ تعالی میرے سارے چھوٹے بڑے گناہ معاف کردے۔
مجھ سے زیادہ شاید ہی کوئی خوش قسمت ہوجس نے نہ جانے کتنے نوافل حطیم میں میزاب رحمت کے نیچے پڑھے اور جب جب ارادہ کیا تب تب پڑھے، کوئی طواف صحن حرم سے باہر نہیں کیا، خانہ کعبہ کی دیواروں سے لگ لگ کر دعائیں مانگیں، جب جب چاہا ہجر اسود کو بوسہ دیا ، رکن یمانی کے پاس کھڑے ہو کر نوافل ادا کئے اور خانہ کعبہ کے دروازے کو اپنے گناہگار ہاتھو سے جھوا ۔۔۔ میں چاہوں بھی تو اس رب کا شکریہ ادا نہیں کرسکتا جس نے میری ایسی دعوت کی، ایسی میزبانی کی ایک بات میں اور بتاؤں، میں نے خانہ کعبہ کی دیواروں کو پکڑ پکڑ کر نہ جانے کتنے حاجیوں کو دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے دیکھا اور یقین جانے جب میں بالکل کعبے کی دیوار کے ساتھ لگ کر طواف کر رہا تھا توفرش پر میرے پاؤں پسیج رہے تھے اور یہ ساری تراوٹ لوگوں کے ان آنسؤں کا سبب تھی جو ان کی آنکھوں سے رواں تھے۔
حج کا یہ سال وہ بد قسمت سال تھا جب منیٰ میں آگ لگ گئی تھی اور ستر ہزار خیمے جل کر راکھ ہو گئے تھے، یہ ایک ایسی داستان ہے جس کا ایک ایک لمحہ میں نے اپنی آنکھوں سے اس طرح دیکھا جس طرح کوئی فلم دیکھتا ہے، اگر اللہ نے توفیق دی اور زندگی نے مہلت ، تو میں اس دردناک واقعے کو ضرور قلم بند کرنگا حج کے سارے ارکان ادا ہو گئے، حج مکمل ہو گیا، ابھی مدینے کا سفر باقی تھا، میں کیونکہ سب سے آخری فلائٹ کا مسافر تھا اس لئے ابھی مدینے کی جانب جانے میں بہت دن باقی تھے، عمرے کرنے کا بہترین موقعہ تھا اس لئے اس دوران متعدد عمرے کئے، بیشمار طواف اپنے نصیب میں لکھے طواف روک دیا گیا تھا، نماز ظہر کا وقت قریب تھا، ابھی صف بندی نہیں ہوئی تھی، میرے پاس تھر موس نما بوتل میں زم زم تھا، میرے دائیں جانب بیٹھے ایک صاحب نے پانی مانگا، میں نے گلاس بھر کر اس کو پیش کیا، اس کی ایک جھلک دیکھی، اور پھر دوسری مرتبہ دیکھنے پر مجبور ہو گیا لیکن بہت دیر نہ دیکھ سکا، میں نے آج تک اتنا خوبصورت چہرہ نہیں دیکھا تھا۔ نسلاً ترکی ہی لگا لیکن میں اس کی خوبصورتی کی تعریف لفظوںمیںبیان نہیں کر سکتا۔
وقت کے ساتھ ساتھ بہت ساری یادیں ماہ و سال کے گرد و غبار میں گم ہو جاتی ہیں، وہ شخص بھی گم ہو ہی گیا تھا۔ ایسا کیوں ہوا تھا اللہ ہی جانتا ہے۔ لیکن اللہ کو شاید یاد دلانا اور اس کو ہمیشہ یاد رکھنا ہی منظور تھا ۔ فلیڈ سے میری پوسٹنگ کراچی ہو گئی تھی۔ میں اپنے گھر کو فروخت کر کے بیوی بچوں اور مال و اسباب کے ساتھ کراچی شفٹ ہوچکا تھا اس لئے کہ میرے والدین نے اسی شہر کو اپنا مسکن بنایا تھا۔
ایک دن میں کراچی ایئر پورٹ پر اپنے کسی عزیز کا منتظر تھا، لوگ اپنا اپنا سامان اٹھائے باہر آرہے تھے، فلائٹ غیر ملکی تھی، اتنے میں میری نظر دو نوجوانوں پر پڑی، ممکن ہے وہ پاکستانی ہی ہوں لیکن وہ پاکستانی لگتے نہیں تھے۔ اتنے خوبصورت لگ رہے تھے کہ ایئر پورٹ پر اپنے عزیزوں کے منتظر جتنے لوگ تھے ان کی نگاہیں انھیں میں گڑ کر رہ گئیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب لاشعور میں پڑی وہ شکل اپنا گرد و غبار جھاڑ کر تحت الشعور سے نکل کر شعور میں ابھری اور اس شکل کا ابھر نا تھا کہ ان پری زادوں کا حسن اس طرح ماند پڑ گیا جیسے چاند کو گہن لگ جاتا ہے۔ وہ دن اور آج کا دن، وہ شکل بھلائے نہیں بھولتی آج مسجد نبوی میں پہلی نماز ادا کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی تھی، میں وضو میں مصروف تھا، میرے دائیں جانب کوئی نہایت پاکیزہ ، خود بھی سفید، لباس بھی براق، شخصیت وضو کر رہی تھی، مجھے مخاطب کیا تو میں نے توجہ کی ، وہ صاحب کہنے لگے کہ میں ہر سال حج کرتا ہوں، پھر حج کی تعداد بتائی جو شاید ستر سے زیادہ تھی، نہ معلوم میں نے ان کی بات بہت توجہ سے کیوں نہیں سنی اور وہ کیا سودا تھا میرے سر میں جو میں ان کو بہت غور سے بھی نہ دیکھ سکا البتہ جو بات ان کی میرے ذہن میں ثبت ہو کر رہ گئی وہ یہ تھی کہ مسجد میں ’’استوان‘‘ ضرور تلاش کرنا۔
وضو کرکے میں مسجد میں داخل ہوا، اور بغیر کسی رکاوٹ آپ ﷺ کی روضہ مبارک تک پہنچ گیا اس لمحے میرے ہونٹوں پر مولانا ماہرؔ القادری کی نعت کے یہ اشعارمچل رہے تھے:

وارفتہ و بیچارہ درماندہ و ناکارہ
دربار میں حاضر ہے اک شاعر آوارہ
پہلے مری آنکھیں تو اشکوں سے وضو کر لیں
اتنی مجھے مہلت دے اے حسرت نظارہ
مسجد کے ستوں کیا ہیں انوار کے فوارے
جالی ترے روضے کی رحمت کا ہے گہوارہ

ظہر کی نماز با جماعت ریاض الجنہ میں ادا کری، یہ مسجد کا وہ حصہ ہے جو اسی حالت میں جنت میں جائے گا۔
اپنی اقامت گاہ پہنچا تو مجھے ان صاحب کی بات جو دوران وضو ملے تھے یاد آئی کہ ’’استوان‘‘ ضرور تلاش کرنا، تو میں نے وہ کتب جو ہمراہ لے گیا تھا ان کے صفحات الٹ پلٹ کئے، ایک جگہ نقشے کے ساتھ سات استوان کی نشاندہی کی گئی تھی، اس نقشے کو غور سے دیکھا اور پھر ہر نماز میں ہر ہر ستوں کے ساتھ با جماعت نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کی جس کے لئے لوگ دو رکعت نفل نماز کے لئے خوشامد کرتے نظر آتے ہیں۔
اسی مسجد میں ایک یونیورسٹی بھی ہے جو مسجد کی پہلی منزل پر ہے اور جس راستہ بادی النظر میں ایک بڑے ستون کی مانند ہے، یہ سب مجھے بھی معلوم نہیں تھا، میںنے کچھ طالب علموں کو اس ستون میں گم ہوتے دیکھا تو اشتیاق پیدا ہوا کہ یہ کیا ماجرہ ہے، قریب پہنچ کر راز کھلا کہ یہ راستہ تو اوپر کی جانب جارہا ہے۔ خیال یہی تھا کہ شاید یہ اس چھت تک جاتا ہوگا جہاں گنبد ہیں اور جو اپنی جگہ بھی بدل لیتے ہیں ، یہ سوچ کر میں نے بھی اوپر جانے کی ٹھان لی لیکن دروازے پر دو مستعد پہرے داروں کو کھڑا پایاتو میں کوئی تاثر دیئے آگے بڑھ گیا لیکن موقع کی تلاش میں رہا، ایک مرتبہ میں نے چار پانچ طلباء کو ایک ساتھ جاتے ہوئے پایا تو میں دائیں بائیں دیکھے بغیر ان کے ہمراہ ہو لیا۔ میں نے محسوس کیا کہ ایک مرتبہ تو دربانوں نے میرے جانب روکنے کے لئے ہاتھ بڑھایا لیکن میں نے کوئی توجہ ہی نہیں دی اور اوپر چڑھتا چلا گیا۔ اوپر جا کر یہ راز کھلا کہ یہ تو یونیورسٹی ہے جہاں باقاعدہ کلاسیں لگی ہوئی تھیں۔ میں نے اعتماد کے ساتھ ایک دو کلاسوں میں جھانک کر دیکھا جہاںلیکچر جاری تھے۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا تو ایک بڑے سارے ہال میں کچھ شوکیس نما میزیں نظر آئیں جب ان کے قریب پہنچا تو ان ان نوادرات سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا جن کا دیدار ہر ملسمان کی تمنا ہو سکتی ہے۔
ان میں حضور پاک ﷺ کی مہریں، خطوط، موئے مبارک اور دیگر بیشمار اشیاء رکھی ہوئی تھیں۔
واہ میرے مولا ! میری زبان سے بیساختہ کلمہ شکر ادا ہوااور نگاہوں سے سجدہ شکر ٹپک پڑا۔
میں نے کسی سے سناتھا کہ اگر کوئی مسجدنبوی میں مسلسل چالیس نمازیں با جماعت پڑھ لے تو میں ﷺ اس کی شفاعت کرونگا، مدینے جاتے ہوئے میں نے اپنے رب سے بہت عا کی کہ اے میرے رب مجھے مسجد بنوی میں چالیس کی چالیس نمازیں لگاتار باجماعت پڑھنے کی توفیق اور ہمت ضرور دینا
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہاایک مرتبہ نماز ظہر کے بعد میںخلاف معمول سوگیا، شدید گرمی کا زمانہ تھا، ایئرکنڈیشن ماحول میں آنکھ لگ گئی، نیند کچھ زیادہ ہی گہری ہو گئی، اچانک میرے کانوں میں اذان کی آواز گونجی، جس سے میں کسی حد تک بیدار تو ضرور ہوا لیکن جلد ہی پھر سے گہری نیند میں چلا گیا، کچھ دیر بعد کسی نے زور زور سے دروازہ کھٹکھٹایا، میں بوکھلا کر اٹھا تو کیا دیکھتا ہوں کوئی ایک فرد بھی اقامت گاہ میں نہیں، دماغ بھک سے اڑگیا ، یااللہ مجھے معاف کر میںغفلت کا شکار کیوں ہو گیا، عصرکی جماعت کا وقت نکلا جا رہا ہے اور میں سو رہا ہوں، یا اللہ میری چالیس نمازیں، میں نے نہ جانے کتنی تیزی کے سات وضو کی، دل رو رہا تھا، وضو کر کے میں اڑتا ہوا مسجد نبوی کی جانب روانہ ہوا ، مجھے یاد نہیں کہ کبھی میں اسقدر تیز رفتاری کے ساتھ پیدل چلا ہوں، بس اللہ ہی جانتا ہے کہ میں کیا کیا دعائیں کر تا گیا ، کاش مجھے آخری رکعت ہی مل جائے، تشہدد ہی مل جائے، نہ مجھے دائیں کی کچھ خبر تھی نہ بائیں کی، بس میں اڑتا ہوا جا رہا تھا۔ واہ میرے مولا، جب میں مسجد میں داخل ہوا تو جماعت کے لئے لوگ صف بندی کر رہے تھے ۔ سبحان اللہ
نماز سے فارغ ہوا، شکرانے دو نوافل اور ادا کئے، واپس اقامت گا ہ پہنچا اور جب ذہن پوری طرح بیدار ہوا تو اس وقت سے لیکر آج تک میں اس سوچ میں گم ہوں کہ وہ اذان کی آواز آخر آئی کہاں سے تھی اس لئے کہ اس عمارت میں تو کبھی اذان کی آواز سنائی ہی نہیں دی، اور وہ دروازہ کس نے بجایا تھا کیونکہ پوری عمارت میں میرے علاوہ اور کوئی فرد اس وقت موجود ہی نہیں تھا۔ گویا وہ میری دعا تھی جو میری نگہبان بن کر میری نمازوں کی حفاظت کر رہی تھی۔
آخر وہ لمحہ بھی آیا جب مجھ سمیت بہت سارے حاجی چشم نمدیدہ لئے ایک منور شہر سے رخصت ہو کر ایئر پورٹ کی جانب روانہ ہو رہے تھے، پھر وہ لمحہ آیا جب ہم سب جہاز میں سوار ہوکر اسلام آباد کی جانب محو پروازا تھے، میں سوچ رہا تھا تھا ایک وہ وقت تھا جب میں اسلام آباد سے اس مقدس سر زمین کے لئے روانہ ہو رہا تھا اور ڈر رہا تھا اس بات سے کہ کہیں یہ جہاز اللہ نہ کرے کسی حادثے کا شکار ہوجائے اور میں حج کی سعادت سے محروم رہ جاؤں اور آج میرے دل میں موت کا کوئی ذرہ برا بر بھی خوف نہیں کہ اگر یہ جہاز تباہ ہو گیا تو کیا ہوگا بلکہ میرے دل میں یہ خواہش ابھری کہ اگر اس جہاز کی قسمت میں (خدا نخواستہ) تباہی لکھی ہے تو اس سے اچھا وقت شاید اور کوئی نہیں ہے مرنے کا، اس لئے کہ آج میں ایسا معصوم ہوں جیسے کوئی نو مولود بچہ ہوتا ہے۔

حصہ