زاہد عباس
میں اپنے دوستوں کے ساتھ اکثر کورنگی انڈسٹریل ایریا سے متصل آبادی میں قائم کوئٹہ پیالہ ہوٹل پر جا بیٹھتا ہوں۔ سڑک کے کنارے کھلی جگہ پر قائم اس ہوٹل کی خاص بات یہاں کا پُرسکون ماحول ہے۔ اِس مرتبہ میرا وہاں جانا بہت دن بعد ہوا۔ اس دن ہوٹل سے چند گز دور سے گزرتی سڑک پر لوگوں کا ہجوم معمول سے کچھ زیادہ ہی تھا، درجنوں افراد دائرہ بنائے کھڑے تھے۔ لوگوں کے ہجوم کو دیکھ کر یوں لگا جیسے کوئی مداری کرتب دکھا رہا ہو۔ یہ جم غفیر ہم سب دوستوں کے لیے حیران کن تھا۔ میں ہوٹل سے اٹھ کر اس ہجوم کی جانب چل پڑا۔
اوہو یہ کیا!
یہ تو معاملہ ہی کچھ اور ہے، چند نوجوان کنویں نما گڑھے میں اترے ہوئے ہیں، جبکہ گڑھے سے باہر کھڑے درجنوں افراد اُن کی حوصلہ افزائی کرنے میں مصروف ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں گڑھے کے مزید قریب ہوتا، لوگ زوردار تالیاں بجاتے ہوئے ایسے نعرے مارنے لگے گویا جشن منایا جا رہا ہو۔ شور شرابہ بڑھنے پر میں نے اپنے قریب کھڑے شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’یہ ماجرا کیا ہے؟‘‘
’’روز کا ناٹک ہے‘‘۔
میں نے اُس کی جانب سے دیے گئے غیر تسلی بخش جواب پر کہا: ’’کیا مطلب؟‘‘
’’بھائی، یہ روز کا ڈراما ہے، ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے، علاقے میی پانی نہیں آرہا۔ یہ لوگ اسی طرح آتے ہیں اور پانی کی مین لائن پر لگے وال کی پلیٹ نکال دیتے ہیں۔ ابھی سامنے علاقے والے آجائیں گے اور وال کی پلیٹ دوبارہ لگانے کے لیے جھگڑا کریں گے۔ اسی دوران واٹر بورڈ کا عملہ اور علاقائی تھانے کی موبائل آجائے گی۔ لوگ احتجاج کریں گے، بھگدڑ مچے گی، واٹر بورڈ کا عملہ وال کی پلیٹ لگا دے گا۔ رات گئے تک بس یہی کچھ ہوتا رہے گا۔‘‘
میں نے کہا: ’’دوست! کھل کر بتاؤ کہ ایک علاقے والے وال پلیٹ نکالنے اور دوسرے علاقے کے لوگ لگانے پر کیوں اصرار کرتے ہیں؟‘‘
’’اگر مین سپلائی لائن پر نصب وال کھول دیا جائے تو پانی کی سپلائی اگلے سیکٹر کی جانب ہوجاتی ہے، اس طرح سامنے والے سیکٹر کو پانی نہیں ملتا، اور وال بند کردیا جائے تو پانی کا رخ قریبی علاقے کی جانب ہوجاتا ہے۔ ان کے نزدیک وال پلیٹ نکالنے کا مقصد نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ہے۔ عوام معصوم ہیں جو وال پر جھگڑا کرتے ہیں۔ پانی کی سپلائی تو واٹر بورڈ نے پیچھے سے بند کررکھی ہے۔ یہ لوگ خوامخواہ آپس میں جھگڑتے رہتے ہیں۔ ان کو کون سمجھائے کہ اگر پانی کے حصول کے لیے کچھ کرنا ہے تو واٹر بورڈ کے دفاتر پر جاکر اس راشی انتظامیہ کے خلاف احتجاج کرو جو غریب شہریوں کے حصے کا پانی انڈسٹریل ایریا میں قائم فیکٹریوں کو فروخت کرتے ہیں، اس ٹینکرز مافیا کے خلاف سڑکوں پر آؤ جن کی وجہ سے آج کراچی کے عوام آپس میں دست و گریباں ہیں۔‘‘
اس نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ’’آپ مزید کچھ دیر یہاں ٹھیر کر دیکھ لیں، وہ تماشا لگے گا جس کی کوئی مثال نہیں۔ مجھے تو یہ ڈر ہے کہ کہیں کوئی بڑا واقعہ نہ ہوجائے۔ رمضان المبارک کا مہینہ، اوپر سے سخت گرمی، اور لوگوں کے گھروں میں پینے تک کا پانی بھی نہیں۔ لوگ مرنے مارنے پر تیار ہیں۔ واٹر بورڈ نے علاقوں میں پانی کی سپلائی بند کرکے عوام کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا، گویا پاکستان اور انڈین افواج۔ آئے دن اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں کہ مستقبل میں دنیا بھر میں پانی پر جنگیں ہوا کریں گی۔ اس علاقے کی کشیدہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ بات سو فیصد درست ہے۔‘‘
’’آنے والے دنوں میں پانی کے حصول پر جنگیں ہوا کریں گی‘‘۔
اُس کے اس جملے نے میرے ذہن کو ہلا کر رکھ دیا۔
میرے ذہن میں عظیم سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ کے الفاظ آنے لگے، اُس نے کہا تھا کہ میں دنیا چھوڑ کر جا رہا ہوں، اس کے تین بڑے مسائل ہیں: (1) پانی، (2) دنیا کو خوراک کی فراہمی، اور (3) گلوبل وارمنگ۔ ان کے سوا باقی سارے ہی مسائل ثانوی ہیں۔ اسی طرح جس نے یہ کہا تھا کہ دنیا میں آئندہ جنگیں پانی پر ہوا کریں گی، اس کو بھی وقت نے سچ کردیا۔
موسمیاتی تبدیلیاں کرۂ ارض کے فطری نظاموں کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہیں۔ صاف پانی کے سب سے بڑے ذخائر جو گلیشیرز کی شکل میں موجود ہیں براہِ راست اس کے نشانے پر ہیں، جبکہ پانی کے دیگر قدرتی ذخائر جن میں دریا، ندی، نالے، آبشاریں اور جھیلیں شامل ہیں، ان میں بھی کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ اس صورتِ حال میں اگر پانی کے استعمال اور اسٹور کرنے کے طریقِ کار پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی تو آئندہ آنے والے برسوں میں پانی کی فراہمی میں 40 فصید تک کمی ہوجائے گی۔
اس وقت دنیا بھر کے 70 فصید دریائوں کا رخ مختلف سمتوں میں موڑ کر انسانی استعمال کے لیے پانی کو سمندر میں گرنے سے محفوظ کرلیا گیا ہے۔ پانی کی قلت کا مسئلہ پاکستان میں ہر آنے والے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ایک زمانہ تھا جب ہمارے ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں وفاق کی علامت ہوا کرتی تھیں, سیاست دان ووٹ حاصل کرنے کے لیے سبز باغ دکھایا کرتے تھے،وقت کے ساتھ سب کچھ بدل گیا وفاقی جماعتیں صوبائی ولسانی طرز سیاست کر نے کو ترجیح دینے لگیں اور عوام سیووٹ لینے کے لیے سبز باغ کی جگہ کالاباغ دکھایا جانے لگا،
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں پانی جیسی نعمت کو سیاست کی نذر کردیا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں 85 فیصد پانی انڈین کشمیر اور افغانستان سے آتا ہے۔ انڈیا نے ڈیم بنانے شروع کردیے ہیں، اس طرح اُس نے 30 فیصد پانی کو نہ صرف محفوظ کرلیا ہے بلکہ وہ 500 ڈیم اور تعمیر کرکے مزید 50 فیصد پانی کو بھی محفوظ کرلے گا، جبکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈیا پاکستان آتے پانی کا رخ تبدیل کرنے یا اسے روکنے کا حق نہیں رکھتا۔ انڈیا افغانستان میں دریائے کابل پر بنائے جانے والے ڈیم میں بھی سرمایہ لگا رہا ہے۔ اگر یہی صورتِ حال رہی اور پاکستان میں بڑے ڈیم نہ بنائے گئے تو مستقبل میں پاکستان کو پانی کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
خدارا ملک وقوم کی خاطر تعصب کی عینک اتارکر آنے والی نسلوں کی بقا کی خاطر ڈیم بنا لیجیے۔ کالا باغ ڈیم پر سیاست کے بجائے حکمت، تدبر اور دانائی کا مظاہرہ کیجیے۔ ان حقیقی اعداد و شمار کو دیکھیے جن کے تحت کالا باغ ڈیم کی تعمیر انتہائی سودمند ہے، یہ معاشی انقلاب کا دروازہ ہے۔
ساری دنیا اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ یہ ڈیم پاکستان کے عوام کو درپیش بنیادی مسائل یعنی توانائی و آب پاشی کے ساتھ ساتھ پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے ایک بہتر اور پائیدار منصوبہ ہے، اس کے علاوہ ڈیم کی جھیل میں جمع ہونے والا پانی ماحول پر مثبت اثرات مرتب کرے گا۔ ماہرین کی رائے ہے کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے بعد قریبی اضلاع کے درجۂ حرارت میں کمی واقع ہوگی۔ ڈیم کی تعمیر کے دوران ابتدائی طور پر 35 ہزار افراد کو روزگار ملے گا۔ ڈیم سے نہری پانی میں اضافہ ہوگا اور نہروں کے ذریعے اُن علاقوں تک بھی پانی پہنچایا جاسکے گا جہاں زراعت کے لیے پانی پہنچانا انتہائی مشکل ہے۔ پاکستان کے دریائوں کا 35 ملین ایکڑ فٹ پانی ہر سال سمندر میں گر کر ضائع ہوجاتا ہے۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے ضائع ہونے والے پانی کو نہ صرف محفوظ کیا جاسکتا ہے بلکہ 24 لاکھ ایکڑ بنجر زمین کو قابلِ کاشت بنایا جاسکتا ہے۔
اس طرح خیبر پختون خوا اور پنجاب کے جنوبی علاقے، بلوچستان کے مشرقی حصے اور سندھ کے زیریں علاقے کالا باغ ڈیم کے پانی کی بدولت قابلِ کاشت بنائے جاسکتے ہیں۔
کالا باغ ڈیم میں تین سال کے لیے پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ کالاباغ ڈیم سے خیبر پختون خوا کے جنوبی اضلاع کرک، بنوں، ٹانک، لکی مروت، اور ڈیرہ اسماعیل خان کو زرعی مقاصد کے لیے مزید 20 لاکھ ایکڑ فٹ پانی مل سکے گا۔ اس پانی سے دریائے سندھ کی سطح سے بلندی پر واقع علاقوں میں تقریباً 8 لاکھ ایکڑ زمین زیر کاشت آ سکے گی، جبکہ صوبہ سندھ کو 40 لاکھ ایکڑ فٹ اضافی پانی مہیا ہوسکے گا، یوں صوبہ سندھ میں خریف کی فصل کے لیے بھی پانی دستیاب ہوگا۔ اس کے علاوہ بلوچستان کو 15لاکھ ایکڑ فٹ، پنجاب کو 22لاکھ ایکڑ فٹ پانی مل سکے گا جس سے جنوبی پنجاب کی 16لاکھ ایکڑ سے زیادہ زمین قابلِ کاشت ہوجائے گی۔
کالاباغ ڈیم کی تعمیر میں مسلسل تاخیر سے نہ صرف ملک کی خوراک کی ضروریات بری طرح متاثر ہورہی ہیں بلکہ زرِمبادلہ کا خطیر حصہ مختلف اجناس کی درآمد پر صرف کرنا پڑرہا ہے۔ صورتِ حال یہی رہی تو 2025ء تک ملکی پیداوار میں 43 فیصد تک کمی ہوجائے گی اور تھرمل بجلی کے استعمال کا اضافی بوجھ خزانے پر پڑے گا۔ کالا باغ ڈیم سے 3600 میگا واٹ بجلی دستیاب ہوگی جو بجلی کی انتہائی طلب کا 20 فیصد کے لگ بھگ ہوگا، اور نہ صرف سستی پن بجلی کی فراہمی میں سالانہ11.4بلین یونٹ کا بہترین اضافہ ہوگا بلکہ نیشنل گرڈ کے ترسیلی نظام کے ذریعے صوبوں کو بآسانی بجلی کی سپلائی بھی ممکن بنائی جا سکے گی۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر اور سستی بجلی کی فراہمی سے بجلی کے ٹیرف کو مستحکم بنانے میں مدد ملے گی۔ اِس ڈیم کی تکمیل کے بعد آب پاشی نظام، بجلی کی ترسیل، اور سیلاب کی صورت حال کو کنٹرول کرنے کی مد میں سالانہ 60 ارب روپے کا فائدہ ہوگا۔ پاکستان میں ہر برس سیلاب کی صورت حال انتہائی خطرناک ہورہی ہے جس سے کھربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ پاکستان میں کسی بھی نامساعد حالات کے لیے پانی 45 دنوں کے لیے ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ کالا باغ ڈیم بن جائے تو اس میں 60 دنوں کے لیے پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا۔ یوں ہم اپنی زرعی ضروریات کے لیے 105دنوں کا پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں۔