امید کے چیری بلاسم

265

ایمن طارق
(آخری قسط)
کھانا حسب معمول شاندار تھا لیکن سب نے ہی خاموشی سے کھایا سوائے عثمان بھائی کے، جو میزبانی کا حق نبھاتے رہے۔ ’’بھائیو! آپ سب کھانا ختم کرکے ریسیپشن روم میں بیٹھیں، میں پانچ منٹ میں آپ کی بھابھی کو پک کرکے لے آتا ہوں۔‘‘ اتنا سکون تھا ان کے انداز میں کہ مجھ سمیت کوئی بھی تبصرہ نہ کرسکا۔ مجھے عظمیٰ کی گھر سے باہر کی مصروفیات کبھی نہ بھاتی تھیں اور ہمیشہ یہی محسوس ہوتا کہ یہی ٹائم وہ اگر گھر، باورچی خانہ اور بچوں کو دے تو زیادہ بہتر ہے۔ دوسرے کبھی مجھے اتنی فرصت نہیں ملی کہ میں اُس کے کاموں کے لیے خود کو تھکائوں، اس لیے اُس کی گاڑی بھی لے دی تھی، اب وہ جانے اور اُس کے کام۔ اب اُس کے پاس کوئی بہانہ نہیں تھا کہ کسی کام کے لیے میرا انتظار کرے۔ عثمان بھائی کے نکلنے کے بعد ہم سب ہی ان کے ریسیپشن میں آگئے۔ بہت سی باتیں ذہن میں ہلچل سی مچا رہی تھیں اور بلال کی طرف نظر ڈالنے پر مجھے احساس ہوا کہ وہ کچھ بور ہورہا ہے، شاید ابھی بچے نہ ہونے کی وجہ سے اس کی دلچسپی کے موضوعات میں اولاد کی تربیت یا بگاڑ آخری نمبر پر تھے۔ شادی کے دس سال بعد بھی اس کے ہاں اولاد نہ تھی، اور جتنی حسرت اس کو ہمارے بچے دیکھ کر ہوتی اتنی ہی ہمیں اس کی فارغ زندگی پر۔ دونوں میاں بیوی اب تک نئے نویلے دلہا دلہن کی طرح ایک دوسرے کی محبت کا دم بھرتے اور ہر دوسرے مہینے ورلڈ ٹور پر نکلے ہوتے۔
’’میرا خیال ہے اب ہم سب نکلنے کی تیاری کریں۔‘‘ قیصر کی آواز سے بھی کچھ بیزاری ظاہر تھی۔
’’ابھی عثمان بھائی کو تو آنے دو تاکہ اس موضوع پر وہ اپنی رائے بھی رکھ سکیں۔‘‘
ڈور بیل کی آواز پر ہم سب چونکے اور سلام کی زوردار آواز کے ساتھ عثمان بھائی ہمارے درمیان موجود تھے۔ ’’ہاں جناب! تو ہمارے پیچھے کچھ سوچا آپ لوگوں نے کہ کیوں آئے تھے آدم اور حوا ساتھ ساتھ؟‘‘
’’عثمان بھائی ظاہر ہے کہ میاں بیوی کو بنانے کا مقصد اولاد کے ذریعے نسل بڑھانا تھا۔‘‘
’’ہاں بالکل یہی مقصد تھا میرے بھائی کہ عورت اور مرد کا باہمی رشتہ جس ننھی جان کو دنیا میں لاتا ہے چاہے وہ ہابیل قابیل کی شکل میں ہوں یا کوئی اور نام اور کسی اور زمانے میں… لیکن ان کی نشوونما اور تربیت کے لیے دو انسانوں کا اکٹھا ہونا ضروری ٹھیرا۔ چاہے وہ غلطیاں بھی کرجائیں، کبھی غلط راستے کی طرف جاکر ممنوع پھل بھی کھالیں، لیکن توبہ بھی ساتھ کریں گے اور سیکھیں گے بھی ساتھ ساتھ، اور مشکلات سے نکلنے کا راستہ بھی اللہ تعالیٰ ان کو ایک دوسرے کے ساتھ ہی سکھائیں گے۔ میرے بھائیو! ہم سب یہاں کے کلچر میں خود کو ایڈجسٹ کرنے کی ہر ممکن مشقت سے گزر جاتے ہیں پھر بھی قدم قدم پر اجنبیت اور مختلف روایات اپنے وجود کا احساس دلاتی رہتی ہیں، لیکن ہمارے بچے جس سوسائٹی میں پیدا ہوئے ہیں یہ اسی کی قدروں کو اپنی اوّلین قدریں سمجھتے ہیں۔ ان کے سب سے بڑے استاد ہم ہیں، جو انہیں سوسائٹی کی قدروں اور دین کی قدروں میں فرق سکھائیں گے، سیاہی اور سفیدی کا فرق دکھائیں گے۔ ان کے کچے اور معصوم ذہنوں کو کھوجنے اور پالش کرنے کے لیے اس وقت صرف حوا کا وجود کافی نہیں، آدم کو بھی میدان میں آنا پڑے گا، ورنہ وقت بڑا ظالم ہے، وہ مہلت نہیں دے گا اور ہمارے بچے ہماری غفلت کا شکار ہوکر تباہی کے کنارے پہنچ جائیں گے۔‘‘ عثمان بھائی کی آواز میں کچھ ایسا درد تھا جو اُن کے دل سے ہم سب کے دلوں میں اترتا ہوا محسوس ہوا۔ اس کی تکلیف ہر ایک کے چہرے پر عیاں تھی۔ میں نے چاہا کہ کوئی مجھے بھی ہلا کر یہ پوچھے کہ تم اب بھی خوابِ غفلت سے نہیں چونکے؟
’’عثمان بھائی! آفس میں سارے دن کی مغز ماری کے بعد اتنا دماغ بچتا ہی کہاں ہے کہ اولاد کی تربیت کے لیے بھی ہم ٹینشن لیں، کیا یہ ذمے داریاں مائوں کی نہیں! آخر آدمی کمائیں یا یہ الجھنیں نمٹائیں؟‘‘ عاصم نے کچھ الجھے ہوئے لہجے میں سب ہی کے دل کی بات زبان سے بیان کردی۔
’’میں مانتا ہوں میرے بھائی کہ ایک مصروف دن گزار کر آدمی گھر میں داخل ہوتا ہے تو دل چاہتا ہے کہ بس ایک پُرسکون ماحول، صاف ستھرا گھر، گرم گرم کھانا، مسکراتی ہوئی بیوی اور خوش و خرم بچے منتظر ہوں۔ اس کے بجائے جب بے ترتیب گھر، بچوں کی لڑائیاں اور بیوی کا سوجا ہوا منہ نظر آئے تو تھکن کے ساتھ غصہ بھی سر پر سوار ہوجاتا ہے، اور سب سے آسان ہمیں یہی لگتا ہے کہ اپنے دل کی کڑھن بیویوں پر اتار کر اور بچوں کی بدنظمی کے دوچار الزامات لگاکر ہم خود کو ٹھنڈا کرلیں۔‘‘ عثمان بھائی نے آئینے میں ایسا واضح چہرہ دکھایا کہ ہم اس کی بدصورتی سے نظریں ہٹانے کے بجائے گنگ ہی ہوگئے۔
’’عزیزو! اس دور میں یہ روایتی مردانگی کے مظاہروں کے بجائے ہوش سے کام لینے اور میاں بیوی کو مل کر اپنے خاندان کے لیے آئندہ آنے والے دنوں میں اپنی ترجیحات طے کرنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کو اسلامک اسکولوں میں پڑھا کر، ان کی خواہش کی ہر چیز مہیا کرکے اور مہنگی مہنگی Holidays پر لے جا کر ہی ہمارے فرائض اور ذمے داریاں ختم نہیں ہوں گی، بلکہ یہ سب کرکے بھی اگر ہم اپنی اولاد کو اسلامی اور اخلاقی قدریں نہ دے سکے، زندگی اور دنیا میں آنے کے مقصد کی پہچان نہ کراسکے، ادب واحترام، انسانی قدریں نہ سکھا سکے، اور سب سے بڑھ کر ذمے دار انسان، مضبوط مسلمان اور اچھا شہری نہ بنا سکے تو ہمارے ہاتھ میں ہمارے بچوں کی صرف تصویریں ہی رہ جائیں گی۔ ثقافتی، ذہنی، مذہبی اور اخلاقی خلیج کی ایسی دیوار درمیان میں حائل ہوجائے گی کہ اسے چاہتے ہوئے بھی پاٹنا ممکن نہ ہوگا۔‘‘
عثمان بھائی کے گھر سے نکلتے ہوئے مجھے اپنی چھتری کھولنی پڑی۔ اتنی گرمی کے بعد ہلکی پھوار موسم کی حدت کو کم کررہی تھی۔ گاڑی کو اسٹارٹ کرتے ہوئے پتا نہیں کیوں ایک دم میری نظر ٹھیر سی گئی۔ شیشے پر پانی کے قطروں کے ساتھ چیری بلاسم کے پھولوں کی جھڑی سی لگ گئی جو اوپر درخت سے ہوا اور بارش کے زور سے ایک ساتھ گرے تھے۔ زندگی اتنی مشکل نہیں، بس کچھ گتھیاں الجھ جاتی ہیں ریشم کے دھاگے کی طرح۔ ان کو سلجھانے کے لیے کسی باریک بین کی ضرورت ہوتی ہے جیسے آج ایک گتھی سلجھی۔ میں اپنی زندگی کے خوب صورت کرداروں سے محبت کے ساتھ ان کی ضرورت کا احساس نہیں کر پا رہا تھا۔ بارش تیز ہونے لگی اور میرے پائوں کا دبائو اسپیڈ بڑھاتا گیا، جب اتنی دیر پہلے ہی کردی تو اب میں اپنی خوشیوں کی طرف پلٹنے میں دیر نہیں کرنا چاہتا تھا۔

حصہ