اسلام امن کا داعی ہے

1055

اگر ہم ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایک وقت تھا کہ جب پوری انسانیت مظالم کے شکنجے میں جکڑی ہوئی تھی۔ انسانیت کے لئے کہیں کوئی جائے امان نہ تھی مسیح کی تعلیمات مسخ ہو چکی تھیں۔ یونان کا فلسفہ سکتے میں تھا۔ دنیا میں ہر طرف اندھیرا تھا۔ امن وامان نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی، کبھی رنگ ونسل کے نام پر، کبھی زبان و تہذیب کے عنوان سے اور کبھی وطنیت و قومیت کی آڑ میں انسانیت کو اتنے ٹکڑوں میں بانٹا گیا اور آپس میں ٹکرایا گیا کہ آدمیت ہی چیخ پڑیں۔ پوری دنیا بدامنی و بے چینی سے لبریز تھی۔ وہ پسماندہ علاقہ ہو یا ترقی یافتہ، روم وافرنگ ہو یا ایران وہندوستان، عجم کا لالہ زار ہو یا عرب کے صحراء و ریگزار، الغرض ساری دنیا اس آگ کی لپیٹ میں تھی۔ اسلام سے قبل بہت سے مذہبی پیشواؤں اور نظام اخلاق کے علمبرداروں نے اپنے اپنے طورپر امن ومحبت کے گیت گائے، پر سب کچھ وقتی تھا۔
کنفیوشس اور مانی کی تعلیمات دم بخود تھیں ، ویدانت اور بدھ مت کے تصورات اور منو شاستر کے نکات سربا گریباں تھے۔ سولن کا قانون بے بس تھا۔ انسانیت حالات کے آئینی قفس میں مقید تھی،کہیں سے کوئی نجات کا راستہ دکھائی دیتا تھا نہ ہی کہیں کوئی حل نظر آتا ہے۔ ان اندھیروں میں اسلام کی مشعل روشن ہوئی اور تمدنی بحران کا سینہ چیر کر ہر طرف اجالا پھیلا دیا۔ اسلام نے پہلی بار دنیا کو امن ومحبت کا باقاعدہ درس دیا اور اس کے سامنے ایک جامع ضابطہ اخلاق پیش کیا۔ وہ دین کہ جس کا نام ہی ’’اسلام‘‘ رکھا گیا یعنی دائمی امن وسکون اور لازوال سلامتی کا مذہب۔ یہ امتیاز دنیا کے کسی مذہب کو حاصل نہیں، اسلام نے مضبوط بنیادوں پر امن وسکون کے ایک نئے باب کاآغاز کیا۔

اسلام نے آ کر کر دیا امن و سکون کا سائبان
بندے کو آکر کر دیا پھر سے خدا سے ہم زبان

پوری علمی و اخلاقی قوت اور فکری بلندی کے ساتھ اس کو وسعت دینے کی کوشش کی، آج دنیا میں امن وامان کا جو رجحان پایا جاتا ہے اور ہر طبقہ اپنے اپنے طورپر کسی گہوارہ سکون کی تلاش میں ہے۔ یہ بڑی حد تک اسلامی تعلیمات کی دین ہے۔ اسلام سے قبل انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہ تھی مگراسلام نے انسانی جان کو وہ عظمت و احترام بخشا کہ ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ ’’جو کسی جان کو ناحق قتل کرے یا زمین میں فساد پھیلائے یہ گویا ایسا ہی ہے جیسے پوری انسانیت کا قتل کر دیا جائے اور جس نے کسی ایک کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا‘‘ (القرآن)۔ اسلام قتل و غارت اور فسادات کو پسند نہیں کرتا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے’’اللہ تعالیٰ فسادیوں کو پسند نہیں کرتے‘‘۔
اسلام کے وجود میں آتے ہی سرکشی اطاعت میں بدل گئی۔ ظلم کا خاتمہ ہوا، فتنوں اور سازشوں کے تاریک دور کو پیار اور محبت سے بدل دیا گیا۔ ارشاد خداوندی ہے: ’’اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کام) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو‘‘۔ (القرآن)
ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دیا۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ’’کہ مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ تو اس پر ظلم کرے اور نہ اسے ظالم کے حوالے کرے اور جو شخص اپنے بھائی کی حاجت براری میں رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی ضروریات پوری کرتا ہے جو شخص کسی مسلمان سے مصیبت دور کرے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی مصیبت دور کرے گا جس نے کسی مسلمان کی ستر پوشی کی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب چھپائے گا ‘‘۔ (صحیح البخاری)
اسلام نے عدل و مساوات کا ایک الگ ہی نظام قائم کیا۔ وہ نظام کہ جس کے تحت دنیا آج تک سر تسلیم خم کیے ہوئے ہے‘ سچ اور دیانت داری کا بول بالا ہوا‘ دنیا نے صادق اور امین کے مطلب کو پہچانا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’امانت دار خزانچی کے لیے بھی صدقہ کرنے والے کے برابر ہی ثواب ہے جب وہ امیر کے حکم کے مطابق خوش دلی سے پورا پورا مال اس شخص کے حوالے کردیتا ہے جس کے لیے حکم ہوا ہے۔ (سنن ابی دائود)
فتح مکہ کے وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہتے تو ایک ایک ظلم کا بدلہ لے سکتے تھے۔ ایک ایک زیادتی کا جواب دیا جا سکتا تھا لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا تھا، عام معافی کا اعلان کر کے تاریخ کو حیرت میں ڈال دیا۔ اس وقت وہ ظالم ہندہ بھی موجود تھی جس نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ چبایا تھا۔ وہ ظالم بھی موجود تھا جو حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو دہکتے انگاروں پر لٹایا کرتا تھا۔ وہ ظالم بھی موجود تھا جس نے حضرت بی بی زینب رضی اللہ عنہا کو اونٹ سے گرا کر شہید کیا تھا۔ تمام لوگ معافی کے طلبگار تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم پر آج کوئی گرفت نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو‘‘۔ شریعت اسلامیہ نے جنگوں کے دوران سپہ سالاروں کو باقاعدہ حکم نامہ جاری کیا کہ دوران جنگ بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو ہاتھ نہیں لگایا جائے گا۔ املاک کا نقصان نہیں کیا جائے گا۔ فتح مکہ کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ ایک تنہا عورت زیورات پہنے بے خوف و خطر صنا سے حضر موت تک اکیلی سفر کر سکتی ہے۔ نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دائمی امن کی بنیاد رکھی۔
ان تمام باتوں سے واضح ہے کہ دین اسلام ہی وہ دین ہے جو امن کا داعی اور تمام ادیان کے ماننے والوں کے لیے سب سے زیادہ عزت و احترام والا ہے۔ ایسے دین اسلام کو امن کے مخالف کہا جائے تو یقین ایسے لوگ حقیقت سے ناواقف ہوں گے اور جو اس کا ایسا استعمال کرتے ہیں وہ حقیقت میں گمراہ لوگ ہیں۔

حصہ