عبدالرحمٰن مومن
میں نے کتاب کے سوا کسی کو دوست نہیں بنایا۔ جو کلاس میں پڑھایا جاتا ہے ، وہ میں پہلی ہی یاد کرچکا ہوتا ہوں۔ تھیوری میں سب سے زیادہ نمبر میرے آتے ہیں۔ میں مانتا ہوں احمد بھی اچھا پڑھتا ہے لیکن اتنا نہیں کہ ہر استاد اور بچے کی زبان پر اُس کا نام ہو۔ احمد میں یہ خوبی ہے کہ وہ اچھے اخلاق کا مالک ہے اور پریکٹیکل میں اچھے نمبر لیتا ہے۔ مجھے پریکٹیکل سے نفرت ہے۔ ویسے بھی پریکٹیکل صرف ۱۵ نمبر کا ہوتا ہے۔ میںاُسے تھیوری میں ہرا کر پوری کلاس میں اول آجاتا ہوں۔ احمد کو بھی کتاب پڑھنے کا شوق ہے۔ وہ مہینے میں صرف دوکتابیں پڑھتا ہے اور میں ایک ہفتے میں دو کتابیں پڑھ لیتا ہوں۔
احمد کی مجھ سے کوئی دشمنی تو نہیں تھی لیکن وہ مجھے اچھا بھی نہیں لگتا تھا۔ میرے سوا کلاس کے سب لڑکے اس کے دوست تھے۔ میری تمام خوبیوں کے باوجود اساتذہ مجھ سے زیادہ احمد کو پسند کرتے۔ آپ حیران ہورہے ہیں؟ مجھے تو ایسا ہی لگتا تھا۔ وہ کسی بھی معاملے میں احمد کی راے کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ اچھے بچوں کی فہرست میںاحمد کا نام سب سے پہلے رکھا جاتا۔ اب آپ ہی بتائیں، یہ نا انصافی نہیں تو کیا ہے؟
پرسوں ہماری کلاس میںایسا واقعہ پیش آیاجس نے احمد سے متعلق میری راے تبدیل کردی۔ آپ پھر حیران ہورہے ہیں؟ کوئی بات نہیں، میں آپ کی حیرانی دور کر دیتا ہوں۔ ہُوا یوں کہ ہماری کلاس میں سر علی کتابوں کے دن پر گفتگو کر رہے تھے۔ ’’بچو! انسان کے لیے سب سے اہم کتاب قرآن مجید ہے۔ قرآن مجید کو’ اُم الکتاب‘ کہتے ہیں۔کتاب انسان کو جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔کتاب انسانوں سے دوستی اور محبت کرنے کا درس دیتی ہے۔ کتاب صرف پڑھنے کے لیے نہیں بلکہ پڑھ کر عمل کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ اچھا طالب علم وہ ہوتا ہے جو کتاب پڑھ کر اس کا پریکٹیکل بھی کرے۔ کچھ لوگ محض عادت کی وجہ سے ،تفریحِ طبع یا امتحان میں نمبر حاصل کرنے کے لیے کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ کتاب پڑھنے سے انسان کے عمل میں بہتری نظر آئے اور وہ دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دے۔ اس کے اخلاق اچھے ہوں،وہ دوسروں کے لیے قابلِ تقلید بن جائے۔میں کتابی باتیں نہیںکر رہا، آپ کو دونوں قسم کے لوگ اپنے اِرد گرد تلاش کرنے سے مل جائیں گے۔‘‘ سر پانی پینے کے لیے رُکے توکچھ بچوں کی نظریں میری طرف تھیں۔ میری نظر احمد کی طرف تھی اور ذہن میں علامہ اقبال کی کلیات میں پڑھا شعر گردش کر رہا تھا۔