زاہد عباس
ایک زمانہ تھا جب زیادہ تر گھروں میں فریج نہ ہوتے۔ آنگن کے کسی کونے میں رکھے مٹکے کا پانی پی کر ہی تازگی محسوس ہوتی۔ اُس زمانے میں والد صاحب جب دفتر سے گھر آتے تو کوئی نہ کوئی پھل ضرور لاتے۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ ابو جب آم لاتے تو کسی بالٹی یا کھلے برتن میں پانی بھر کر اُس میں آم ڈال دیا کرتے، اور آموں کو دوسے تین گھنٹے پانی میں ہی رہنے دیا جاتا۔ پھر رات سونے سے قبل ہم سارے بہن بھائی مزیدار آموں پر حملہ کردیا کرتے۔ بعدازاں آم کی گرم تاثیر کو مارنے کے لیے کچی لسی کا استمعال کیا جاتا جس سے جسم میں ٹھنڈک اور تازگی محسوس ہوتی۔ چونکہ ہم متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لیے بچپن سے پھل کھانے کا یہی طریقہ دیکھا۔ رفتہ رفتہ خوشحالی آنے لگی اور لوگوں کا معیارِ زندگی بہتر ہوتے ہی بازاروں میں الیکٹرونکس اشیاء کی بھرمار ہونے لگی۔ یوں برف خریدنے والے بھی فریج کے مالک بن گئے۔ جیسے جیسے معاشی بہتری آئی الیکڑونکس چیزیں ایک عام شہری کی دسترس میں آگئیں۔ مجھے بچپن سے ہی پھلوں کا بادشاہ آم پسند ہے اس لیے مَیں گھر میں آنے والے فریج کو آم کے گودام کی صورت میں دیکھتا۔ اُس وقت چند روپوں کے عوض آم سے بھری پیٹی مل جاتی، بلکہ سو روپے میں چار سے پانچ کلو درجہ اوّل کا کوئی بھی پھل بآسانی مل جاتا تھا۔ بدلتے ملکی معاشی حالات اور گلوبل وارمنگ کے ساتھ ساتھ مہنگائی کا وہ طوفان آیا جس سے پھل کھانا تو درکنار پاکستان میں بڑے پیمانے پر کاشت ہونے والا میٹھا اور خوش ذائقہ آم بھی عوام کی پہنچ سے دور ہوتا چلا گیا۔ جس تیزی سے آم غریبوں کی پہنچ سے دور ہورہا ہے یہ حالات دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ آنے والی نسلوں کو آم کی تاریخ پڑھ کر ہی گزارا کرنا ہوگا، سو ہم بھی یہاں اس پاکستانی سوغات کی چند اقسام کی خصوصیات تحریر کرکے تاریخ دان بننے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستانی آم کے بارے میں دنیا بھر کے شعبۂ زراعت سے وابستہ افراد کی متفقہ رائے ہے کہ اس سے زیادہ میٹھا اور خوش ذائقہ آم کرۂ ارض پر کہیں اور پیدا نہیں ہوتا۔ بے شک دنیا کے دیگر ممالک میں پیدا ہونے والی آموں کی اقسام کے مقابلے میں پاکستانی آم اپنے ذائقے، تاثیر، رنگ اور صحت بخش خوبیوں کے لحاظ سے سب سے منفرد ہیں۔ پاکستان میں دوسو سے زائد اقسام کے آم پائے جاتے ہیں، ان میں خاص طور پر دسہری، چونسا، سندھڑی، فجری، دیسی، اور الماس قابلِ ذکر ہیں۔
’’دسہری‘‘: لمبوترا اور اس کا چھلکا خوبانی کی رنگت کا ہوتا ہے۔ اس کا گودا گہرا زرد، نرم، ذائقے دار اور میٹھا ہوتا ہے۔
’’سندھڑی‘‘: سابقہ وزیراعظم پاکستان محمد خان جونیجو مرحوم کے علاقے سندھڑی کے نام سے منسوب یہ آم سائز میں بڑا ہوتا ہے، اس کا چھلکا زرد، چکنا، باریک اور گودے کے ساتھ ہوتا ہے۔ گودا شیریں، رس دار اور گٹھلی لمبی اور موٹی ہوتی ہے۔ میں ذاتی طور پر سندھڑی آم کا شیدائی ہوں، اس کا جوس خوش ذائقہ اور لاجواب ہوتا ہے۔
’’چونسا‘‘: اس کی تو بات ہی نرالی ہے۔ یہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ وہ لاجواب آم ہے جو اپنے ذائقے اور مٹھاس کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس کا چھلکا درمیانہ موٹا اور ملائم، اور رنگت کے اعتبار سے پیلا ہوتا ہے۔ اس کا گودا گہرا زرد، خوشبودار اور شیریں ہوتا ہے۔گٹھلی پتلی لمبوتری، سائز بڑا اور ریشہ کم، جبکہ میٹھا ایسا گویا جیسے شکر ہو۔
’’انور رٹول‘‘: یہ سب سے مقبول آم ہے، اس کا سائز درمیانہ، سبزی مائل زرد، چھلکا چکنا، گودا ٹھوس سرخی مائل زرد، خوشبودار، نہایت شیریں اور بے ریشہ ہوتا ہے۔
’’لنگڑا‘‘: پہلے پہل تو ہم اسے ایک ٹانگ والا سمجھتے تھے، ہمارا خیال تھا کہ شاید اسی لیے اسے لنگڑا آم کہا جاتا ہے۔ لیکن شعور آنے پر معلوم ہوا کہ یہ مختلف سائز کا ہوتا ہے، اس کا چھلکا چکنا، بے حد پتلا، نفیس، سرخی مائل، جبکہ اس کا گودا ملائم اور رس دار ہوتا ہے۔
اس کے بعد آتی ہے’’الماس‘‘کی باری، جس کی شکل گول، سائز درمیانہ، چھلکا زرد، گودا خوبانی کے رنگ جیسا ملائم اور رسیلا ہوتا ہے۔ اس میں ریشہ برائے نام ہوتا ہے۔ آموں کی مشہور اقسام کے بعد ملکی پیداواری صلاحیت پر بھی نگاہ ڈال لیتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان سالانہ تقریباً 18 لاکھ ٹن آم کی پیداوار حاصل کرتا ہے۔ اگرچہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں آم کی پیداوار ہوتی ہے، لیکن قومی پیداوار کا بڑا حصہ پنجاب اور سندھ سے حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان میں 2002ء سے 2012ء کے دوران آم کی مجموعی پیداوار بالترتیب دس لاکھ چونتیس ہزار ٹن، دس لاکھ پچپن ہزار ٹن، سولہ لاکھ تہتر ہزار ٹن، سترہ لاکھ تریپن ہزار ٹن، سترہ لاکھ انیس ہزار ٹن، سترہ لاکھ ٹن، اٹھارہ لاکھ دس ہزار ٹن، اٹھارہ لاکھ ٹن اور دس لاکھ ٹن تھی۔ جبکہ رواں سال موسم میں ناخوشگواری اور پانی کی کمی کے باعث آم کی پیداوار میں پینتیس فیصد تک کمی کا سامنا ہے۔ جبکہ گوبل وارمنگ اور پھلوں کے چھوٹے سائز پر بھی تشویش پھیل رہی ہے۔ سندھ میں پانی کی کمی کی وجہ سے حیدرآباد، ٹندوالہیار اور میرپورخاص کے اضلاع میں آم کے باغات متاثر ہوئے ہیں، جبکہ اسی طرح کی صورتِ حال پنجاب میں بھی ہوگی، جس کی وجہ سے مجموعی طور پر اِس سال آم کی پیداوار میں تیس سے پچاس فیصد تک کمی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ یوں رواں سال آم کی مانگ میں اضافے اور سپلائی میں کمی کی وجہ سے ہول سیل مارکیٹ میں آم کی قیمت میں فی 40کلو 24 سو سے 3 ہزار روپے تک اضافے کا امکان ہے۔ ملک بھر میں آم 156 ہزار ایکڑ رقبے پر کاشت کیے جاتے ہیں، لیکن اکثر علاقوں میں آم کے درختوں کی درست طریقے سے نگہداشت نہ ہونے کے علاوہ کھاد اور اسپرے کے بروقت استعمال میں کوتاہی کے باعث بھی آم کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ درختوں سے پھل اتارنے کے بعد ہونے والے نقصانات پر قابو پانے کے ناکافی اقدامات، پکنے سے پہلے ہی پھلوں کا اتار لینا، اسٹوریج تک معیاری ترسیل کے لیے سہولیات کا فقدان اور پھل ذخیرہ کرنے کی غیرمناسب سہولیات ایسے عوامل ہیں جو اندرون ملک اور برآمدی منڈیوں میں آم کی زیادہ سے زیادہ فروخت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
آم کی فصل تیار ہونے کے بعد کاشت کار کو آم خراب ہونے کے باعث 30 سے 40 فیصد تک نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے آم کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ باغبان آم کو پکنے کے بعد جدید مشینری کے بجائے ہاتھوں سے اتارتے ہیں جس سے آم کو نقصان پہنچتا ہے اور پیداوار میں کمی آتی ہے۔ آم کے بہترین حالت میں رہنے کا عرصہ بہت کم ہوتا ہے، جبکہ آم کی فصل کی تیاری کے موسم میں درجہ حرارت 50 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پھلوں کی حفاظت کے لیے معقول انتظام نہ ہونا آم کی پیداوار میں کمی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کسانوں نے حکومت کے عدم تعاون پر آموں کی کاشت کاری کم کردی ہے۔ اگر حکومت آم کی کاشت پر توجہ دے تو آم کی پیداوار کو دگنا کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں آم کی پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے امریکی ادارہ برائے عالمی ترقی یو ایس ایڈ کے تعاون سے صوبہ سندھ اور بلوچستان میں آموں کی پیداوار بڑھانے کے لیے مینگو پروگرام پر کام کیا جارہا ہے۔ امریکی حکومت اپنے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے کے توسط سے سال 2009ء سے پاکستان میں اس منصوبے پر کام کررہی ہے۔ اِس وقت یہ ادارہ پنجاب اور سندھ میں آموں کے پچاس سے زائد باغات میں پروسیسنگ کے آلات نصب کرنے میں مدد کررہا ہے جِس کی وجہ سے آموں کو بین الاقوامی منڈیوں بشمول مشرقِ وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور یورپ میں برآمد کرنے میں مدد ملے گی۔ یو ایس ایڈ اب تک تین ہزار سے زائد کسانوں کو آموں کی پروسیسنگ اور ان کی ذخیرہ کرنے کی مدت بڑھانے کے حوالے سے تربیت فراہم کرچکا ہے۔ یہ اعانت 60 لاکھ پاکستانیوں کے لیے براہِ راست فائدہ مند ثابت ہوگی، بے شمار کاروباروں کی آمدن میں اضافہ کرے گی، ملازمت کے مواقع پیدا کرے گی اور پاکستان بھر میں، بالخصوص جنوبی پنجاب اور شمالی سندھ میں معیشت کو فروغ دے گی۔
ماہرین کی رائے اور اعدادو شمار اپنی جگہ، لیکن اس کے برعکس اندرون ملک عام شہری جو بچپن سے یہی سنتے آرہے ہیں ’’آم کے آم گٹھلیوں کے دام‘‘… وہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور پھلوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کے باعث یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ’’نام کے آم، انتہائی مہنگے دام‘‘۔ ماضی کے مقابلے میں آج عوام کے نصیب میں درجہ سوئم سے بھی نچلے درجے کے آم ہیں، یہی وجہ ہے کہ آم کے درخت گننا تو ایک طرف، غریب آموں سے لدے ٹھیلے دیکھ کر ہی اپنا دل بہلا رہے ہیں۔