انجمن فروغِ ادب بحرین کے زیرِ اہتمام، دسواں عالمی مشاعرہ بہ یادِ سعید قیس

375

خالد معین
حصہ آخر
تاہم کسی چھوٹے یا بڑے ملک کو اس کی بڑی سڑکوں ،جدید مالز ،اشیائے ضروریہ کی فراوانی ،بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے علاوہ بھی کئی اور حوالوں سے دیکھا جاتا ہے ،تاہم ہم یہاں بحرین کے کے پاک و ہند پر مشتمل ثقافتی ،ادبی اور تہذیبی معاملات پر بات کر رہے ہیں ،ویسے بھی ’میرا پیغام محبت ہے ،جہاں تک پہنچے ‘ ۔خیر ! جب ہم تینوں دوست مل بیٹھے تو ادبی معاملات پر بے تکلف گفت گو کرتے رہے ،چائے کے ساتھ غیبت کا تڑکا بھی لگتا رہا ۔عرفان ستار کینڈا کے ادبی ماحول اور وہاں کے دو نمبر اور تخلیقی شعرا پر بات کرتے رہے ،جون ایلیا کا ذکر مستقل اُن کے اندر سے پھوٹتا رہا ،جو بڑا فطری بھی تھا اور جون بھائی سے اُن کی سچی وابستگی کا اعلامیہ بھی تھا ۔ ویسے بھی جون ایلیا رخصت ہونے کے بعد پہلے سے زیادہ ادبی دنیا میں اِن ہیں،وہ ایک کریز اور فیشن بنے ہوئے ہیں اور دنیا بھر کے ادبی حلقے اُن کی شخصیت اور شاعری کے دیوانے ہیںجب کہ اپنی تخلیقی شاعری اور عالمانہ شخصیت کے ساتھ جون بھائی اپنے روزو شب کے تضادات اوراپنے برجستہ رنگا رنگ علمی و ادبی چٹکلوں کے سبب بھی تمام ادبی حلقوں میں ایک دل پسند موضوع تصور کیے جاتے ہیں ۔اس مختصر نشست کے اختتام پر قرار پایا کہ تینوں دوست اپناتازہ کلام سنائیں گے۔اس حصے کو عرفان ستار نے اپنے موبائل پر ریکارڈ کرکے مزید یاد گار بنایا اور اسی رات فیس بُک پر اس نشست کی منتخب غزلیں لگا دی گئیں ۔
اب رات ہوچکی تھی ،اور مر حلہ مشاعرہ کا تھا ،اسی ہوٹل میں اسٹیج سجایا جا چکا تھا،سامعین کے لیے کرسیاں بھی بچھائی جا چکی تھیں ،اور ایک خوب صورت ماحول مرتب کر دیا گیا تھا۔اُدھر تمام انتظامات کے بعد طاہر عظیم پر ایک کام یاب مشاعرے کادبائو شروع ہوچکا تھا ،اگرچہ وہ اپنے ٹھنڈے مزاج اور ذہانت بھرے رویے سے تمام انتظامات کو آخری شکل کے بعد آیندہ کے مرحلے کی تیاری میں مصروف تھا ،لیکن اندر باہر ایک سخت دبائو تو بہ ہر حال ہر منتظم پر ہوتا ہی ہے،اور وہ دبائو اُس پر بھی ہوگا ،لیکن جیسے جیسے مہمان شعرا اور اہم شخصیات پنڈال پہنچیں اورسامعین بھی تیزی سے آتے رہے ہال بھرتا رہا ،منتظین کا دبائو کم سے کم ہوتا گیا ہوگا،جلد ہی سامعین کی تعداد پانچ سو کی حد عبور کر گئی ، اور یوںکئی سامعین نے کھڑے ہو کر مشاعرہ سماعت کیا ۔پہلا سیشن سعید قیس کے فن اور شخصیت پر گفت گو کا تھا،جیسے جیسے یہ دور آگے بڑھا،ویسے ویسے مشاعرہ کے خدو خال بھی واضح ہوتے چلے گئے ۔پہلے سیشن میں چند مختصر تقاریر ہوئیں ،جن میںلاہور سے آئے ہوئے سینیر صحافی ،طفیل اختر کی خصوصی گفت گو بھی شامل تھی۔ اُنہوں نے سعید قیس کی شخصیت اور شاعری کو خراج ِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کا بھی ذکر کیا ۔سعید قیس کے صاحب زادے یوسف سعید نے اپنے والد کو بڑی محبت سے یاد کیا اور بتایا کہ اُن کا پورا خاندان اور قریبی احباب یہاں موجود ہیں اوراس مشاعرے کو ذاتی جذبات کے ساتھ قدر کی نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں ۔اس سیشن کا اختتام قائم مقام سفیر ِ پاکستان جناب مراد علی وزیر کے خطاب پر ہوا ،اُنہوں نے مشاعرے کی روایت کو خوش آیند قرار دیا ، اسی دوران مشاعرے کے حوالے سے ترتیب دیے گئے خصوصی سوینئر ’اظہار ‘ کی رونمائی کی گئی اور یہ سوینئر خاص خاص مہمانوں میںتقسیم بھی کیا گیا۔
اب مشاعرہ شروع ہونا تھا۔کرسی ِ صدارت پر محترم انور مسعود جلوہ افروز ہوئے ،باقی شعرا بھی اسٹیج پر مدعو کر لیے گئے ،نظامت کے فرائض بھارت سے آئے معروف نظامت کار منصور عثمانی نے سنبھالے اور مشاعرے کی ابتدا اپنی سجی ہوئی مرصع گفت گو سے کیا اور مشاعرے سے قبل ایک بہترین شاعرانہ فضا مرتب کر دی ۔سب سے پہلے بحرین کے نوجوان شاعرعمر سیف کو دعوت ِ کلام دی گئی اُنہوں نے اچھے شعر سنائے۔اس کے بعد نوجوان شاعرعدنان افضال کا نام پکارا گیا ،جنہوں نے ابتدا ہی میں مشاعرے کو اُوپر اٹھانے میں مدد فراہم کی اور عمدہ شعر سنائے ۔طاہر عظیم کے کلام سنانے تک مشاعرہ اپنے ابتدائی عروج کی جانب گام زن ہوچکا تھا ،تاہم طاہر نے ایک غزل ہی پر اکتفا کرکے بتایا کہ مشاعرے کی کام یابی کے لیے منتظم کو اپنی ذات منہا کرنی پڑتی ہے ، اور اس طرح مشاعرہ اُوپر اٹھتا ہے ۔بحرین کے آخری دو شاعر احمد عادل اور رخسار ناظم آبادی تھے ۔یہ دونوں ہی وہاں کے سینیر شاعر ہیں اور ان دونوں نے ہی اپنے انداز کا کلام سنا کے خوب داد سمیٹی ۔اس مر حلے پر پاکستان کے شہر شیخوپورہ سے آئی ہوئی ایک ابھرتی ہوئی با صلاحیت نوجوان شاعرہ، سعدیہ صفدر سعدی کو دعوت ِ کلام دی گئی اور سعدیہ نے نسائی لہجے میں ڈوبے ہوئے جو خوب صورت شعر سنائے ،اُن میں سنجیدگی بھی تھی ،وقار بھی تھا اور ذاتی کیفیات کی عمدہ عکاسی بھی تھی ،انہیں سامعین نے بھرپور داد سے نوازا ۔سعدیہ کے بعد بھارت سے آئے ہوئے نوجوان شاعر مشتاق احمد مشتاق نے مائیک سنبھالا اور سامعین کے دلوں تک جھانکتے ہوئے مزاحمتی اور سماجی طنز پر مبنی غزلوں کے اشعار سنانے شروع کیے اور جلد ہی پورے مشاعرے کو اپنی گرفت میں کر لیا ، یوںمشتاق احمد مشتاق نے تحت الفظ میں ایسا جادو جگایا کہ مشاعرہ لوٹ لیا ،انہیں زبردست تالیوں میں دوسری بار بھی زحمت ِ کلام دی گئی ،اگرچہ دوسرے حصے میں وہ کچھ دھیمے ضرور پڑے مگر مجموعی طور پر مشاعرے کے کام یاب شاعر قرار پائے ۔اب باری تھی لاہور سے آئے ہوئے ڈاکٹر محمد کلیم کی،وہ آئے اور اپنے اشعار پڑھ کے واپس چلے گئے ،فضا کچھ نیچے کی طرف آئی ۔اب پاکستان کے شہر بھاول پور سے آئے ہوئے معروف شاعر افضل خان کی باری تھی ،افضل خان دوسری بار بحرین آئے تھے،اس لیے یہاں کے مشاعروں کی فضا سے قدرے آشنا تھے، اُنہوں نے آتے ہی اپنی خوب صورت اور جان دار شاعری سے مشاعرے کی فضا تبدیل کرنی شروع کردی اور جلد ہی مشاعرے کو ایک بار پھر اُوپر اٹھا دیا ۔افضل خان کی شاعری میں نئی لفظیات بھی ہیں ،مضمون آفرینی بھی ہے اور انفرادیت کی لپک بھی ہے ۔ برجستہ انتخاب اوراس فنی رچائو نے انہیں مشاعرے کا کام یاب شاعر بنایا ۔افضل خان تالیوں کی گونج میں واپس ہوئے تو بھارت سے آئے ہوئے جدید لب ولہجے کے شاعر شارق کیفی کو دعوت ِ کلام دی گئی ،شارق کیفی کی شاعری تہہ دار بھی ہے اور عام روش سے مختلف بھی ،اُنہوں نے غزلوں کے ساتھ نظمیں بھی سنائیں اور با ذوق سامعین سے داد بھی حاصل کی ۔اس کے بعد کینڈا سے آئے ہوئے معروف پاکستانی شاعر عرفان ستار نے مائیک سنبھالا اور اپنے مخصوص لہجے میں رچی بسی سنجیدہ غزلوں سے سما ں باندھا ،عرفان ستار کی شاعری میں ذات اور کائنات کے ساتھ انسانی نفسیات کی پیچیدہ گرہیں بھی کھلی ہوتی محسوس ہوئیں۔
اب باری تھی ناظم مشاعرہ منصور عثمانی کی ،اُنہوں نے بھی اپنے رچے بسے شعری ذوق اور شعری تربیت سے سجی ہوئی کچھ عمدہ شعر اور غزلیں نذر ِ سامعین کیں اوراس کے بعد ہمیں بلایا اور سامعین نے ہمیں بھی ہمارے حصے کی محبتوں سے نوازا ۔اب باری تھی صاحب ِ صدر محترم انور مسعود کی ،جنہیں سننے کو تمام پنڈال بے چین تھا ،یہاں طاہر عظیم کی حکمت ِ علمی بھی سمجھ میں آئی کہ ہر مشاعرے میں کسی ایک ایسے سینیر شاعر کو ضرور مدعو کیا جائے، جسے سننے کے لیے سامعین آخر تک مشاعرے میں موجود بھی رہیں اور مشاعرے کا ماحول بھی بنا رہے ، مقامی شعرا کی تعداد مختصر رکھی جائے اور چند ڈھنگ کے شعرا بیرونِ ملک سے مدعو کیے جائیں،باذوق اور سنجیدہ سامعین پر زیادہ محنت صرف کی جائے ،جو مشاعرے کی فضا کو آخر تک بنائے رکھیں۔محترم انور مسعود نے تقریباً ایک گھنٹے تک سامعین کے سامنے اپنا اردو اور پنجابی کلام سنایا اورمشاعرہ داد و تحسین کی آخری بلندیوں تک پہنچا ۔فرمایشوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا اور جواباً انورمسعود کے دل چسپ مکالمے ، چٹکلے اور مزاحیہ کلام تھا ۔ دوسری جانب پورے مشاعرے کے دوران ناظم ِ مشاعرہ منصور عثمانی نے نہ صرف متاثر کُن ادبی گفت گو کا سلسلہ جاری رکھا، بل کہ گاہے گاہے سعد قیس کے بر جستہ اشعار بھی سناتے رہے اور ساتھ ساتھ اپنے والد ِ گرامی گوہر عثمانی کے ایسے اشعار سے بھی نوازتے رہے ،جو اس مشاعرے کے بنیادی موضوع یعنی سعید قیس کے فن و شخصیت سے جڑے ہوئے تھے ۔اس طرح مشاعرے کی کام یابی میں منصور عثمانی بھائی کا بڑا ہم حصہ رہا ۔یوں ’انجمن فروغ ِ ادب ،بحرین ‘ کا دسواں بہ یاد سعد قیس سالانہ مشاعرہ اپنے اختتام کو پہنچا ۔مشاعرے کے اختتام پر سامعین نے اپنے پسندیدہ شعرا کے ساتھ ملاقات کی اور گروپ فوٹو ز کے ساتھ سیفلیاں بھی بنائی گئیں ،اور منتظمین نے رات گئے شعرا کو ڈنر بھی کرایا گیا ۔
دوسرے دن ناشتے جب ناشتے پر طاہر عظیم اور عدنان افضال سے ملاقات ہوئی تو ہم اور افضل خان رات کے کام یاب مشاعرے پر گفت گو کر رہے تھے،اس دوران طاہر عظیم کے چہرے پر مسرت کے کچھ رنگ ضرور اُبھرے مگر وہ اپنے جذبات کو چھپانے کا ماہر نوجوان ہے ،ویسے بھی یہ اُس کا دسواں کام یاب مشاعرہ تھا ،اس لیے اُس کی نظر میں یہ کام یابی شاید اتنی اہم نہ ہو اور ہو بھی تو وہ اس کا اظہار ضروری نہ سمجھتا ہو ۔ظہرانے پر ایک بار پھر تمام شعرا ایک ہوٹل میں جمع ہوئے اور تمام وقت کام یاب مشاعرے کے ساتھ شعرو ادب پر گفت گو کا سلسلہ جاری رہا ،۔یہاںبھارت سے آئے ہوئے شعرا کے ساتھ ایک بار پھر بات چیت کا موقع ملا اور اس سہ پہر بھارتی شعرا سے بحرین میں آخری ملاقات بھی تھی ،خرم عباسی اور رخسار ناظم آبادی سے بھی یہیں آخری ملاقات ہوئی ۔تاہم بحرین کی آخری شام بڑی یاد گار اور خوب صورت تھی ۔اس شام میں عرفان ستار ،افضل خان ،طاہر عظیم اور عدنان افضال نے اپنی شرکت کے منفرد رنگ بھرے تا دیر شعرو ادب کے حوالے سے اجتماعی گفت گو جاری رہی ،پھر شاعری کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ،درمیان سے طاہر عظیم کسی اور فضا کی طرف چلا گیا،تاہم یہ یاد گار شام اپنی تمام تر خوب صورتیوں اور انفرادیت کے ساتھ جاری رہی ۔
اجتماعی شعرو ادب پر گفت گو کے ساتھ شاعری کا خوب صورت دور بھی چلا اور یہ شام اپنی تمام تر حسن آفرینی کے ساتھ شب کے اُس پہر تک آگئی ،جہاں ہم سب ڈنرکے لیے بھی روانہ ہوئے اور ہمارے ساتھ، عرفان ستار نے رخت ِ سفر بھی باندھا ،ہمیں کراچی اور عرفان ستار کو کینڈا جانا تھا لیکن ایک پُر تکلف ڈنر کے بعد،جس میں طاہر عظیم اور سعدیہ صفدر سعدی بھی شریک ہوئے،یوں چند دنوں کی یاد گار رفاقت اختتام ہوئی،یار زندہ صحبت باقی۔ہم اور عرفان ستار ساتھ ائیر پورٹ پہنچے مگر ائیر پورٹ پہنچنے کے بعد ہماری سمتیں مختلف ہو گئیں ۔افضل خان اور سعدیہ کی فلائٹ دوسرے دن کی تھی ۔اس خوش گوار سفر کی یادیں سمیٹے، جب ہم طیارے کے اندر داخل ہوئے تو ایک خوب صورت سی ائیر ہوسٹس نے اکنامی ٹکٹ ہونے کے باوجود ہمیں برنس کلاس میں بیٹھا دیا اور یوں واپسی کا سفر مزید خوب صورت ہوگیا۔

حصہ