ڈاکٹر نثار احمد نثار
گزشتہ دنوں بزم شعر و سخن اور ادارۂ فکر نو کے زیر اہتمام پروفیسر جاذب قریشی کے حوالے سے کے ایم سی آفیسرز کلب کشمیر روڈ کراچی میں تقریب ملاقات منعقد کی گئی اس پروگرام کا ایجنڈا یہ تھا کہ پروفیسر جاذب قریشی کی دو کتابیں ’’میری شاعری‘‘ اور ’’میری تنقید‘‘ لکھنے پڑھنے والوں کو پیش کی جائیں۔ اس پروگرام میں رشید خان رشید نے تلاوت کلام پاک کی سعادت حاصل کی اور محمد علی گوہر نے نعت رسولؐ پیش کی۔ سلمان صدیقی نے نظامتی فریضہ انجام دیا انہوں نے کہا ہ آج کی تقریب غیر رسمی اور غیر روایتی تقریب ہے آج اشعار نہیں سنے جائیں گے اور نہ کوئی تقریر ہوگی جب کہ اس سال میں لوگوں کی کثیر تعداد اس بات کی گواہی ہے کہ عوام جاذب قریشی سے محبت کرتے ہیں۔ خالد میر نے کہا کہ یہ ایک اہم تقریب ہے اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ قلم قبیلے کے لوگوں سے ملاقات کریں۔ پروفیسر منظر ایوبی نے کہا کہ موسم کی شدت اور ٹریفک کے مسائل کے باوجود خواتین و حضرات یہاں تشریف لائے ہیں یہ ایک قابل ستائش اقدام ہے۔ کتابوں کی تقریب اجرا تو ہوتی رہتی ہیں آج کی تقریب اپنی نوعیت کی واحد تقریب ہے۔ جاذب قریشی آج شہرت و مقبویت کے عروج پر ہیں لیکن انہوں نے اردو ادب میں اپنا مقام پیدا کرنے کے لیے بے شمار مسائل کا سامنا کیا ہے۔ ان کی ادبی و علمی خدمات سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ان کا تخلیقی سفر 60 برسوں پر محیظ ہے ان کی 24 کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں‘ ان کا شعری اثاثہ اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے عمر بھر ادبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور اپنا نقطۂ نظر بیان کیا ہے۔ انہوں نے دوسروں کے الفاظ نہیں چرائے۔ انہوں نے اپنی آواز سب سے الگ رکھی۔ پروفیسر منظر ایوبی نے مزید کہا کہ آج کی تقریب کا مقصد محبتوں کا اظہار ہے۔ ڈاکٹر معین قریشی نے کہا کہ جاذب قریشی نے نئے نئے استعارے‘ محاورات اور لفظیات ایجاد کیے ہیں۔ ان کی شاعری امیجری ہے‘ یہ سچائی کے ساتھ اپنی بات کہتے ہیں اس میں شک نہیں کہ ان کی شاعری زندگی سے مربوط ہے‘ ان کے ہاں مسائلِ جاناں کے ساتھ ساتھ غمِ روزگارِ زمانہ بھی پایا جاتا ہے۔ انہوں نے نوجوان نسل کی حوصلہ افزائی کے لیے بہت کام کیا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ نوجوان شعرا اردو زبان و ادب کے مستقبل میں اہم کردار ادا کریں گے۔ اس تقریب میں صاحبِ کتب جاذب قریشی نے اکمل نوید‘ نثار احمد نثار‘ شکیل دوالنین‘ نعیم ابرار‘ فہیم شناس کاظمی‘ غلامی علی وفا‘ صبا اکرام‘ ثروت سلطانہ‘ فیروز ناطق خسرو‘ ڈاکٹر اکرام الحق شوق‘ رونق حیات‘ راحت سعید‘ رفیع الدین راز‘ منیف اشعر‘ طارق جمیل‘ خالد میر‘ محمد علی گوہر رشید خان رشید‘ شاہد حمید‘ سلمان صدیقی‘ مسلم شمیم‘ سحرتاب رومانی‘ حسین مجروح‘ الطاف احمد‘ ظفر بھوپالی‘ یاسر سعید‘ معین الدین بلے‘ عزیر احسن‘ مظفر احمد ہاشمی‘ شاہد اقبال‘ ڈاکٹر معین قریشی‘ پروفیسر منظر ایوبی‘ عاشق شوکی‘ علی کوثر اور دیگر لوگوں کو اپنی کتابیں پیش کیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر اکرام الحق شوق اور رونق حیات نے اعلان کیا کہ وہ پروفیسر جاذب قریشی کے لیے بہت جلد پروگرام ترتیب دیں گے۔ جاذب قریشی نے کلماتِ تشکر ادا کیے انہوں نے کہا کہ علم و ادب کی ترویج و اشاعت ان کی زندگی کا نصب العین ہے اسی سلسلے میں اختر سعیدی اور طارق جمیل کے مشترکہ تعاون سے آج کی تقریب منعقد کی گئی ہے میں ان کا اور ان کے ساتھیوںکا ممنون و شکر گزار ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ میں ان تمام علم دوست شخصیات کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے میرے لیے اپنا قیمتی وقت نکالا۔ آج جن لوگوں کو کتابیں نہیں مل سکی ہیں انہیں آئندہ تقریب ملاقات میں کتابیں پیش کروں گا۔ اس موقع پر جاذب قریشی کی خدمت میں پھولوں کے تحائف بھی پیش کیے کیے گئے۔
اوراقِ سخن کی شعری نشست
گزشتہ دنوں اوراقِ سخن نے رونق حیات کی صدارت میں ایک شعری نشست منعقد کی جس میں اقبال خاور مہمان خصوصی تھے جب کہ پروگرام کے میزبان اسد قریشی تھے جو کہ ادبی حلقوں میں بہت تیزی سے اپنا مقام بنا رہے ہیں۔ اس نشست میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ سحر تاب رومانی‘ خالد رانا قیصر‘ کاشف حسین غائر‘ افضل ہزاروی‘ اسحاق خان اسحاق‘ اسد قریشی اور آزاد حسین آزاد نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔ صاحب صدر نے صدارتی خطاب میں کہا کہ کراچی بہت بڑا شہر ہے یہاں بڑے بڑے پروگرام ہوتے ہیں تاہم چھوٹی چھوٹی شعری نشستوں کا لطف ہی الگ ہے یہ نشستیں اس حوالے سے بھی اہم ہیں کہ یہاں ایک ایک شعر کو بہت غور و فکر سے سنا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان شعرا اور صفِ اوّل کے شعرا ایک جگہ جمع ہوں تاکہ قلم کاروں کے مسائل حل ہوں جن اداروں کو قلم کاروں کی خدمت کے لیے بنایا گیا تھا وہ سب اپنے اپنے مطلب کے لوگوں کو پروموٹ کر رہے ہیں‘ بندر بانٹ ہو رہی ہے اور ہم تقدیر و تاخیر کے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ یاد رکھیے اگر ہم متحد نہ ہوئے تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ مہمان خصوصی اقبال خاور نے کہا کہ شاعری کے ذریعے ہم انقلاب لا سکتے ہیں‘ ہم دو مصرعوں میں بڑے سے بڑا مضمون باندھ دیتے ہیں یہ خدادا صلاحیت ہے جو صرف شعرا کو حاصل ہے ہمیں چاہیے کہ ہم اس صلاحیت کا بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ معاشرے کے کرتا دھرتائوں کو آئینہ دکھائیں۔ لوگوں کو سیدھا راستہ بتائیں‘ انہیں نفع نقصان سے آگاہ کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ قوموں کے عروج و زوال میں قلم کاروں کا حصہ ہے وہ قومیں ترقی نہیں کرسکتیں جو شعرا اور ادیبوں کو نظر انداز کرتی ہیں۔