ثمینہ نعمان
اللہ تعالیٰ کا کروڑہا بار شکر ہے کہ اُس نے ہمیں پھر سے نیکیوں کے موسمِ بہار سے مستفید ہونے کا موقع دیا۔
قرآن مجید میں سورۃ البقرہ کی آیات 183 تا 185 میں روزوں کی فرضیت کا حکم آیا ہے جس میں اللہ نے ہمیں بتایا ہے کہ روزے ہم سے پہلے بھی تمام امتوں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس اطلاع سے ہم پر نفسیاتی طور پر یہ اثر ہوتا ہے کہ ہم آسانی محسوس کرتے ہیں کہ حکم الٰہی کا بارِ گراں اٹھانے میں ہم تنہا نہیں۔ روزے میں اللہ ہمیں حلال سے بھی روک کر ہمارے نفس کی تربیت کرتا ہے، اور ہم میں تقویٰ کی صفت کو ابھارتا ہے۔ ہر ذی ہوش شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ اعمال و افعال میں وہ مطلق العنان نہیں بلکہ اللہ کے آگے جوابدہ ہے۔ یہی احساس تقویٰ کے فطری جذبے کی پیداوار ہے۔ ہمیں اِس بار بہت توجہ رکھنی ہے کہ تقویٰ کے حصول کے ساتھ اُس کا استعمال بھی جانیں۔ اپنی عملی زندگی کے مختلف میدانوں میں اسے استعمال بھی کریں۔ اگر جھوٹ بولتے وقت، غصہ، بدگمانی اور حسد کرتے ہوئے ہم تقویٰ کو پسِ پشت ڈال دیں گے تو پھر خسارہ ہی ہمارا مقدر ہوگا۔ (خدانخواستہ)
حدیث نبویؐ ہے کہ روزہ ڈھال ہے، جب تم میں سے کوئی شخص روزے سے ہو تو اپنی زبان سے فحش بات نہ نکالے اور نہ گالم گلوچ کرے، اگر کوئی اس سے لڑے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ ایمان اور احتساب کے ساتھ روزہ رکھنے والے کے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ جنت کو سارا سال روزہ داروں کے لیے سجایا جاتا ہے اور اس ماہ میں جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ شیاطین کو پابندِ سلاسل کردیا جاتا ہے۔ روزہ داروں کے جنت میں داخلے کے لیے ایک خاص دروازہ ’’باب الریان‘‘ ہے۔ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے۔ اس کتاب کو سمجھ کر پڑھنے سے ہم اپنی آخرت سنوار سکتے ہیں۔ روزہ اور قرآن لازم و ملزوم ہیں۔ قرآن ہمیں ہدایت فراہم کرتا ہے اور روزہ ہماری تربیت کا سامان کرتا ہے۔ روزوں کا حکم قرآن میں صرف ایک جگہ آیا ہے لیکن اس بات سے روزوں کی اہمیت میں کوئی کمی نہیں آتی بلکہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ اگر کسی شخص نے رمضان کا ایک فرض روزہ بھی بلا عذرِ شرعی چھوڑا تو باقی تمام زندگی بھی روزہ رکھے تو اس کا کفارہ نہیں ادا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی اللہ بیماروں اور مسافروںکو روزے میں رعایت بھی دیتا ہے کہ چاہیں تو بعد میں ان روزوں کی قضا کرلیں۔ اپنے بندوں کو مزید آسانی فراہم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ لاعلاج مریضوں اور ضعیفوں کو روزہ نہ رکھنے اور فدیہ دینے کی سہولت دیتا ہے۔ قمری مہینہ ہونے کی وجہ سے یہ بھی اللہ کی مہربانی ہے کہ ہر دفعہ رمضان گرمی اور لمبے دنوں میں ہی نہیں آتا بلکہ ٹھنڈے موسم میں بھی آتا ہے۔ اللہ نے ہمارے لیے جو سہولیات، برکات اور فیوض رکھے ہیں ان پر اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ انسان کو جس چیز کے نعمت ہونے کا احساس ہوتا ہے اسی پر وہ شکر بھی ادا کرتا ہے۔ ایمان کی دولت کا حاصل ہونا، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہونا اور رمضان کا بار بار ہماری زندگیوں میں آنا انتہائی بیش بہا نعمتیں ہیں۔ ہمیں ان پر زبان سے شکر ادا کرنے کے علاوہ قلبی طور پر اللہ کے سامنے اعتراف بھی کرنا ہے کہ جن نعمتوں سے تُو نے ہمیں سرفراز کیا ہے اُن میں ہم دوسرے انسانوں کو بھی شامل کرنے کی کوشش اور فکر کریں گے، کیونکہ حقیقی شکر یہی عملی کوشش ہوگی۔ پھر ہمیں اپنے تمام اعمال و افعال سے اللہ کی کبریائی اور بڑائی کا اظہار کرنا ہے۔ اللہ کو بااختیار مان لینے کے بعد اس کے تمام احکام بھی ماننے ہیں اور تمام نواہی سے بچنا ہے۔
رمضان میں جن خاص خاص باتوں کا ہمیں خیال رکھنا ہے ان کا مختصراً ذکر کردوں تاکہ تذکیر و یاددہانی ہوجائے اور ہمارے جذبے جوان اور تروتازہ ہوجائیں۔
-1 اخلاصِ نیت:
سب سے پہلے ہمیں اپنی نیتوں کا گہرائی سے جائزہ لینے کی فکر کرنی چاہیے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ نیت کی پاکیزگی اور درستی پر ہی ہمارے اعمال کا نتیجہ ہوگا۔ نیت کا کھوٹ یا تو ہمیں ریاکاری کی طرف لے جائے گا، یا منافقت کی جانب۔ ریا کاری کے ضمن میں عالم، سخی اور شہید والی حدیث پھر سے تفصیل سے پڑھ لیں کہ کیسے اتنے بڑے بڑے اعمال کرنے والے جہنم رسید ہوئے، اور منافقت کے ذیل میں سورۃ النساء کی آیت 145 (ترجمہ) ’’یقینا منافق جہنم کی سب سے نچلی تہ میں ہوں گے‘‘ ہمیں دعوتِ فکر دیتی ہے۔ ہمیں اس ماہ کی ابتدا میں اپنے ایمان کا بھی جائزہ لینا ہے کہ آیا ہم نے کلمہ شعوری طور پر سمجھ کر پڑھا ہے یا طوطے کی طرح رٹا ہوا ہے، اور ہم اس کلمے کے تقاضوں سے سراسر ناواقف ہیں۔ جب تک ہمارا دل، ہماری آنکھیں، ہماری زبان اور تمام اعضائے جسمانی اس کلمے کے مطابق نہیں ڈھل جاتے ہمارا ایمان ہمارے مالکِ حقیقی کی بارگاہ میں معتبر نہیں ہوگا۔ بقول اقبال:
خرد نے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
-2 عزمِ بلند:
ہم نے خود کو ذہنی طور پر اللہ کی مکمل اطاعت اور عبادات کے لیے تیار کرنا ہے۔ اللہ سے اپنے قرب، اپنے تعلق اور اپنی محبت کو بڑھانا ہے، کیونکہ محبت میں انسان بڑے بڑے کام آسانی سے کرجاتا ہے۔ بڑی آزمائشیں ہلکی لگنے لگتی ہیں۔ اللہ سے محبت جتنی زیادہ ہوگی، نیکیاں کرنا ہمارے لیے آسان اور گناہ کی طرف راغب ہونا مشکل ہوجائے گا۔ ہم تمام کٹھن گھاٹیاں سبک روی سے عبور کرلیں گے ان شاء اللہ۔
-3 عبادت کی حسنِ ادائیگی:
ہر عبادت کی روح اور اس کے اثرات حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ بے روح عبادت اور بے نتیجہ بندگی کس کام کی! عبادات میں یکسوئی کا التزام کریں۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ ہر عبادت کے وقت اپنی زینت سے آراستہ رہو۔ نماز باجماعت کا اہتمام، تراویح میں توجہ سے قرآن کا سننا تاکہ اللہ رحم کرے، اور تہجد میں مالکِ دوجہاں سے راز و نیاز، دعائوں اور توبہ کا اصرار… یہ سب ہماری طاقت کا ذریعہ ہیں۔ تینوں عشروں کی دعائوں سے بھی فائدہ اٹھانا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی بھی تلاش کرنی ہے اور معمولی سے معمولی گناہ سے بچنے کی حتی المقدور سعی کرنی ہے، قرآن سے جڑنا ہے، ترجمہ کے ساتھ سمجھ کر پڑھنا ہے تاکہ دل نرم پڑے اور عمل میں تبدیلی آئے۔ ہر وقت دوسروں کی ٹوہ میں رہنے کے بجائے اپنے محاسبے کا کام زیادہ سختی سے کرنا ہے۔ دوسروں کو رعایت دینی ہے مگر خود کو معاف نہیں کرنا۔ تمام عبادات کے دوران احسان کی صفت اختیار کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ نماز اور قرآن پڑھنے کے علاوہ اپنا حفظ بھی بڑھائیں اور نماز کا اردو میں ترجمہ یادکریں تاکہ آپ کی نماز کا معیار بہتر ہوسکے۔ بدنی عبادت کے علاوہ مالی عبادت بھی کرنی ہے، اس کی طرف سے ہرگز غفلت نہ کریں۔ زکوٰۃ، صدقہ، صدقۂ جاریہ، خیرات، اعانت اور فطرہ ہر مد میں بھرپور حصہ ڈالیے۔
اگر ہم نے اللہ سے جنت کا سودا اپنی جان و مال کے بدلے طے کرلیا ہے تو پھر مال خرچ کرنے میں ہچکچاہٹ کیسی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں سخاوت کی مثال ایسی ہے جیسے تیزچلتی ہوئی ہوا۔
-4 اپنی حقیقت پر غور:
قرآن ہمیں بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے غور و فکر کے ذریعے رب کو تلاش کیا اور پھر خود کو اُس کی سپردگی میں دے دیا اور یکسو ہوگئے۔ ہم سے اللہ اسی طرح کے طرزِ عمل کا متقاضی ہے۔ آج کل ہماری زندگیوں میں جو انتشار اور بے سکونی ہے وہ اللہ کی ناراضی کے سبب ہے، اور اس ناراضی کی بنیاد ہماری دین سے بے نیازی ہے۔ اللہ کی ہم سے محبت کبھی یک طرفہ نہیں ہوسکتی، اگر ہم اُسے یاد رکھیں گے تو وہ بھی ہمیں یاد رکھے گا، اُس کا شکر ادا کریں گے تو وہ ہمیں مزید نوازے گا۔ خوب غوروفکر کرنے کے بعد ہر طرف کا جائزہ لینے کے بعد ہمیں اپنی بے بضاعتی اور بے بسی کا احساس ہوگا اور ہم جانیں گے کہ ہم اللہ کے رحم و کرم کے کس درجہ محتاج ہیں تو ہمیں تکبر سے نجات ملے گی اور ہم عاجزی اختیار کریں گے، اور اس کیفیت میں مانگی جانے والی دعائیں ضرور مقبول ہوں گی۔
-5 حقوق العباد کی فکر:
اپنے مسلمان بھائی کو مسکرا کر دیکھنا بھی صدقہ ہے، مگر رحم اور سسرال کے رشتے ہم سے مزید کچھ تقاضا کرتے ہیں۔ حسبِ مراتب تمام رشتے داروں کے حقوق کی ادائیگی کرتے ہوئے رب کو نہیں بھولنا۔ صلۂ رحمی کو اپناتے ہوئے سب سے تعلقات درست کرلیں۔ کسی سے ناراضی ہے تو دور کرلیں تاکہ حصولِ خیر میں رکاوٹ نہ رہے۔ سلام میں پہل اور درگزر کا طریقہ اپنائیں۔ اللہ کو وہ لوگ محبوب ہیں جو اپنے ساتھیوں سے محبت کرتے اور اُن کے کام آتے ہیں۔ کسی کی حاجت پوری کرنے کے لیے چند قدم چلنا مسجدِ نبویؐ میںاعتکاف کرنے سے افضل ہے۔ حق پر ہونے اور قدرت کے باوجود اپنے بھائی کو معاف کردینا نہایت پسندیدہ عمل ہے۔