مختصر پُراثر

491

گستاخ بیٹا
امام قرطبی نے اسناد کے ساتھ حضرت جابرؓ سے روایت کی ہے کہ ایک نوجوان حضور رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ میرے باپ نے میرا مال لے لیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ’’اپنے والد کو بلا لائو۔‘‘ نوجوان اپنے باپ کو بلانے گیا تو اس دوران حضرت جبریل ؑ امین جناب رسولؐ پاک کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور کہا:
’’جب اس لڑکے کا باپ آجائے تو آپؐ اس سے دریافت فرمائیں کہ وہ کلمات کیا ہیں جو تم نے اپنے دل میں کہے ہیں، اور ابھی تک تمہارے کانوں نے انہیں نہیں سنا۔‘‘ جب وہ نوجوان اپنے والد کو لے کر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے اس کے والد سے کہا کہ اصل معاملہ کیا ہے، تمہارا بیٹا تمہاری شکایت لے کر میرے پاس آیا ہے کہ تم نے اس کا مال چھین لیا ہے۔ اس کے والد نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، آپؐ اس سے یہ سوال فرمائیں کہ میں اس کی پھوپھی اور خالہ اور اپنی ذات کے سوا اور کہاں اس کا مال خرچ کرتا ہوں؟‘‘ حضور اکرمؐ نے فرمایا: بس حقیقت معلوم ہوگئی، اب کچھ اور سننے کی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد اس کے والد سے دریافت فرمایا کہ وہ کلمات کیا ہیں جن کو ابھی تک خود تمہارے کانوں نے بھی نہیں سنا۔ اس شخص نے عرض کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ، آپؐ پر ہمارا ایمان و یقین بڑھا دیتے ہیں۔ جو بات کسی نے نہیں سنی اس کی بھی آپؐ کو اطلاع ہوگئی اور یہ ایک معجزہ ہے‘‘۔ پھر اس نے عرض کیا کہ ’’میں نے اپنے دل میں چند اشعار کہے تھے۔ ابھی ان کو میرے کانوں نے بھی نہیں سنا‘‘۔ آپؐ نے فرمایا ’’وہ ہمیں سنائو‘‘۔ اس وقت اس شخص نے یہ اشعار سنائے: (ترجمہ)
’’میں نے تمہیں بچپن میں غذا دی اور جوان ہونے کے بعد بھی تمہاری ذمے داری اٹھائی، تمہارا سب کھانا پینا میری ہی کمائی سے تھا‘‘
’’جب کسی رات تمہیں کوئی بیماری پیش آئی تو میں نے تمام رات بیداری اور بے قراری میں گزار دی‘‘
’’گویا تمہاری بیماری تمہیں نہیں‘ بلکہ مجھے لگی ہے اور اس وجہ سے میں تمام رات روتا رہا‘‘
’’میرا دل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا، حالانکہ میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن معین ہے اور وہ آگے پیچھے نہیں ہوسکتی‘‘
’’پھر جب تم اُس عمر اور حد تک پہنچ گئے جس کی میں تمنا کیا کرتا تھا اور جس کی ہر باپ خواہش کرتا ہے کہ اپنی آنکھوں سے دیکھوں‘‘
’’تو تم نے مجھے سختی اور سخت کلامی سے بدلہ دیا، گویا تم مجھ پر یہ احسان وانعام کررہے ہو‘‘
’’اگر تم باپ کا حق ادا نہ کرسکتے تھے تو کم از کم اتنا ہی کرتے جو ایک شریف پڑوسی کیا کرتا ہے‘‘
’’تُو نے مجھے کم از کم پڑوسی کا حق تو دیا ہوتا اور میرے ہی مال میں میرے حق میں بخل سے کام نہ لیا ہوتا‘‘
جناب رسالت مآبؐ نے یہ اشعار سننے کے بعد نوجوان سے فرمایا ’’جا تُو بھی اور تیرا مال بھی سب تیرے باپ کا ہے۔‘‘
شرک
سیدہ عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ سیدہ اُمِ حبیبہؓ اور سیدہ اُم سلمہؓ نے ایک گرجا دیکھا تھا، اس میں تصویریں تھیں۔ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپؐ نے فرمایا: ان لوگوں میں جب کوئی نیک مرد ہوتا اور وہ مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے اور اس میں تصویریں بنادیتے۔ اللہ کے نزدیک یہ لوگ قیامت کے دن بدترین خلائق ہوں گے۔‘‘ (بخاری 420)
اگر اسلامی قانون میں تصویر سازی اور مصوری پر پابندی نہ ہوتی تو آج ہمارے ہاں بھی یہی کچھ ہورہا ہوتا۔ انبیاء اور بزرگوں کی تصویریں اور مجسمے گھروں اور مساجد میں رکھے جاتے۔ عقیدت و احترام کے نام پر ان کے آگے جھکتے اور ان کی قدم بوسی کرتے۔

حصہ