ایمن طارق
چھوٹے چھوٹے بادلوں کے سفید ٹکڑے نیلے آسمان کی یکسانیت کو پُرکشش بناتے میرے اعصاب پر چھائی بوریت اور یاسیت کو رخصت کررہے تھے۔ ہلکی ہلکی دھوپ لطف دوبالا کررہی تھی۔ شاید اپنی زندگی کی یکسانیت کبھی کبھی اس قدر بے زار کردیتی ہے کہ آپ مناظر کی تبدیلی کو مسائل کا علاج سمجھ لیتے ہیں۔ ’’ولید، تم ہر روٹین سے اتنی جلدی بے زار ہوجاتے ہو، زندگی ایسے گزرے گی!‘‘ میرے دوست بلال کو میری ذاتی نفسیات پر پوری دسترس تھی۔ یہ اس کے مخصوص جملے تھے میرے بارے میں، جنہیں وقتاً فوقتاً وہ مجھے سناتا رہتا تھا۔ ایک وہی شخص تھا جو پچھلے 15 سال سے کالج، یونیورسٹی، شادی اور شادی کے بعد کی زندگی میں میرے ساتھ سائے کی طرح لگا رہا، ورنہ اور کسی میں میرے ساتھ رہ کر بور ہونے کی اتنی ہمت شاید نہیں تھی۔
’’تمہیں کیا بتائوں، پورا دن بچوں کے ساتھ کس قدر مشکل ہوجاتا ہے مینج کرنا، ابھی تمہارے بچے نہیں ہیں ناں اس لیے تم جب چاہے، جہاں چاہے نکل جاتی ہو۔ بہن بچوں کی خواہش کرنا بہت آسان ہے، پالنا جان جوکھوں کا کام ہے اور پھر بچے بھی اگر شیطان ہوں تو الامان الحفیظ…‘‘ پیچھے سے آنے والی نسوانی آوازوں نے میری محویت کو اس بری طرح توڑا کہ ناگواری کے احساس سے میں چند لمحے کی اس خوب صورت بے فکری پر لعنت بھیج کر اٹھ کھڑا ہوا۔ بالوں اور کپڑوں پر لگی گھاس کو ہاتھ سے جھاڑتے ہوئے میں نے اپنے پکنک بیگ میں سے پانی کی بوتل نکال کر منہ سے لگائی۔ یہاں کی گرمی بھی عجیب ہی ہے، بالکل ناقابلِ اعتبار۔ آج گھر سے نکلتے ہوئے Weather چیک کرکے ہلکا کارڈیگن پہن کر نکلا تھا، لیکن اس وقت اچانک تیز دھوپ نے پیاس کی شدت بڑھا دی تھی۔
’’پاپا… پاپا‘‘ یامین کے چیخنے کی آواز میرے لیے الارم تھی اور میں پیچھے بینچ پر بیٹھی ان دو خواتین کی دلچسپ گفتگو اختتامی مراحل تک سننے سے محروم رہ گیا۔ ’’پتا نہیں بے چاری بغیر بچوں والی کے تاثرات اور جذبات کیا ہوں گے؟ انتہائی غیر اخلاقی حرکت ہوگی اگر اب باتیں سننے کے ساتھ میں گردن گھماکر اس کے چہرے کے تاثرات پر بھی نظر ڈالوں۔‘‘
یامین کے چہرے پر نظر ڈال کر مجھے اندازہ ہوا کہ اسے اکیلا چھوڑ کر کچھ دیر گھاس پر لیٹ جانا مجھے کتنا مہنگا پڑا ہے۔ بھاگ کر اس تک پہنچنے میں مجھے کچھ سیکنڈ لگے، لیکن اُس وقت تک وہ شاک میں آچکا تھا اور اپنے ہاتھ منہ پر رکھ کر زمین پر بیٹھ چکا تھا۔ ’’یامین! میری جان کیا ہوا بیٹا؟‘‘ کتنا کمزور تھا یہ سوال جس کے جواب کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ میں اس کتے کو دیکھ چکا تھا جس نے پارک میں کھیلتے ہوئے غلطی سے یامین کی طرف دوڑ لگا دی تھی۔ اپنے کانپتے ہوئے بیٹے کو گلے سے لگا کر میں نے ندامت ہی ندامت محسوس کی۔ ’’کیا ضرورت تھی اسے اکیلا چھوڑنے کی؟ یہ لاپروائی تو وہ باپ کرسکتے ہیں جن کے بچے یامین جیسے خاص بچے نہ ہو، عام سے ہوں۔ جوگر سکتے ہوں اور گرنے کی تکلیف ان کے دماغ پر خوف نہ طاری کرتی ہو۔ جو ماں باپ کی نظر سے کھیلے کھیلتے اوجھل ہوجاتے ہوں اور کھو جانے کا ڈر ان کی بے فکری اور آزادی کو محدود نہ کرتا ہو۔ جو بے فکری کی فضا میں چیخ پکار کرتے ہوں اور کوئی تیز آواز ان کی ننھی سماعتوں میں گھس کر انہیں سہمنے پر مجبور نہ کرتی ہو۔
یامین کو گود میں لے کر کار پارکنگ کی طرف جاتے ہوئے میری نظر پھر انہی خواتین پر پڑی جو اردگرد سے بے خبر ابھی تک باتوں میں مگن تھیں اور غالباً ان میں سے ایک کے بچے سلائیڈ کے مزے لوٹ رہے تھے۔ کار تک پہنچتے پہنچتے میرے ہاتھ شل ہوچکے تھے۔ چھ سال کے بچے کوگود میں لے کر واک کرنا آسان کام نہیں تھا۔
گھر سے نکلنے سے پہلے جھنجھلاہٹ سے برا حال تھا میرا۔ آخر ایک ہی دن ملتا ہے مجھے چھٹی کا، اور اس دن بھی یامین کے ساتھ یہ خواری مجھے سخت کھلتی تھی۔ ’’آخر تم خود کیوں نہیں لے جاتیں اس کو پارک؟ آرام سے بینچ پر بیٹھ جایا کرو، یامین کھیلتا رہے گا۔‘‘ آج بھی گھر سے نکلتے ہوئے عظمیٰ کو فارغ کھڑے دیکھ کر مجھے شدید غصہ آرہا تھا۔ ’’اب ایسا کرنا میرے گھر سے نکلتے ہی اپنا فون لے کر بیٹھ جانا۔ کہیں دنیا کا کوئی کام رک نہ جائے تمہارے بغیر‘‘۔ عظمیٰ کی طرف سے وہی مانوس سی خاموشی تھی جو ایسے وقت میں مجھے اور بری لگتی۔ ’’دھیان رکھیے گا یامین کا پلیز۔ اس کو قریب ہی رکھیے گا‘‘۔ اس کی آواز دروازے کے پیچھے ہی دب گئی جب میں نے غصہ دروازے پر نکالتے ہوئے اسے زور سے بند کیا اور باہر نکل آیا۔
گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے آج بار بار عظمیٰ کا اداس چہرہ ذہن میں آرہا تھا اور پارک میں بیٹھی ہوئی خواتین کی گفتگو بھی۔ بچے پالنا کیا واقعی مشکل کام ہے؟ اتنی بیزاری جو اس عورت کے لہجے میں تھی، کبھی عظمیٰ کے کسی انداز سے مجھے کیوں محسوس نہیں ہوئی؟ البتہ ہر اتوار کو یامین کو پارک لے جاتے ہوئے میری بے زاری اور جھنجھلاہٹ شاید کچھ مختلف نہیں ہوتی۔ ’’یامین مختلف بچہ ہے ناں۔ Autistic ہے، اسی لیے اُس کے اچانک رویّے مجھے شرمندہ کردیتے ہیں‘‘۔ میرے دل نے مجھے میرے بدصورت رویّے کی توجیہ پیش کی۔ ’’لیکن پھر تو مجھ سے زیادہ عظمیٰ کو گھبرانا اور الجھنا چاہیے جو ایک خاص بچے اور دو عام سے بچوں کے ساتھ اپنا پورا دن گزارتی ہے اور کبھی ان کی شرارتوں، بدتمیزیوں اور نت نئے تقاضوں سے بے زاری کا اظہار نہیں کرتی۔‘‘
گاڑی ٹریفک لائٹ پر رکی تو گرمی اور حبس کا شدید احساس ہوا۔ ’’اوہ! آج تو شاید گرم ترین دن ہے، لیکن سوچوں میں گم مجھے محسوس ہی نہیں ہوا۔ گردن موڑ کر یامین پر نظر ڈالی، وہ سو چکا تھا اور اس کی گردن ایک سائیڈ پر لڑھک گئی تھی، ماتھے سے پسینے کے قطرے بہہ رہے تھے۔ گاڑی کا اے سی خراب تھا۔ ’’اُف…‘‘ کوفت کا ایک شدید احساس تھا جس نے حقیقت کا چہرہ دکھاتی سوچوں کا گلا گھونٹ کر پھر وہی بے حسی مزاج پر حاوی کردی جس کا اُبال باہر آنے کو بے تاب تھا۔ گاڑی کا شیشہ نیچے کرتے اور گاڑی سگنل سے آگے دائیں ہاتھ پر موڑتے ہی زیبرا کراسنگ تھی جو اتنے اچانک آگے بڑھنے سے روکتی تھی جیسے زندگی کے چیلنجز۔ ڈبل اسٹرالر کو پکڑے اس آدمی کے پیچھے شاید اس کی بیوی تھی جو کسی بات پر ہنستے ہوئے بھول گئی تھی کہ وہ پکنک اسپاٹ پر نہیں، زیبرا کراسنگ پر ہے۔ بڑا ہی فارغ بندہ ہے بھئی جو بیوی ہاتھ ہلاتی چلی آرہی ہے اور وہ بے چارہ اسٹرالر کھینچ رہا ہے۔ شاید اپنی شادی شدہ زندگی کے 15 سال میں ایسی کوئی فراغت مجھے کبھی نصیب نہیں ہوئی، کہ یوں میں بھی عظمیٰ اور بچوں کے ساتھ ٹہلتا۔
گھر کے سامنے گاڑی روک کر احساس ہوا کہ کسی نے غلطی سے ڈرائیو وے بلاک کردیا تھا۔ لیکن اب غصہ کرنے کا وقت نہیں تھا کیونکہ یامین کو گھر پر اتارکر راستے سے بلال کو پک کرتے ہوئے مجھے سات بجے تک عثمان بھائی کے گھر پہنچنا تھا جہاں ہفتے وار محفل جمنی تھی، جس کے آخر میں عثمان بھائی کے گھر کا شاندار ڈنر ہمیشہ سب کو انگلیاں چاٹنے پر مجبور کردیتا، اور اگلے ہفتے تک سب یہی اندازہ لگاتے رہتے کہ اب کون سی ڈشز منتظر ہوں گی۔
مجھ جیسے آدم بے زار کے لیے ابتدا میں ان محفلوں کا حصہ بننا بڑا مشکل تھا، لیکن کبھی کبھی مجھ جیسے پتھروں میں بھی کوئی سوراخ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ یامین کو گود میں لے کر نیچے اتارتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ وہ سوتے میں ابھی تک سسکیاں لے رہا تھا۔ گھر کے دروازے تک پہنچتے ہوئے اُس کی آنکھ کھل چکی تھی، ایک ہاتھ سے اس کو پکڑے ہوئے بڑی مشکل سے دروازہ کھولا تو عظمیٰ سامنے ہی کچن سے تیزی سے آگے آکر یامین کو لینے لگی۔ ’’کافی لمبا ٹائم مل گیا آج تو تمہیں آرام کے لیے‘‘۔ غیر ارادی طور پر زبان سے یہ جملہ پھسل جانے پر ایک لمحے کے لیے شرمندگی محسوس ہوئی لیکن وہ یامین کو گود میں لے کر مڑ چکی تھی اس لیے میں اندازہ نہیں کرسکا کہ اس کے تاثرات کیا تھے۔
’’السلام علیکم پاپا! کب سے انتظار کررہی ہوں آپ کا۔ آپ نے آج میرے ساتھ Coding کے گیمز کھیلنے تھے… یاد ہے؟‘‘ سیڑھیوں سے اترتی محاسن کی شکل دیکھ کر مجھے لگا کہ اس وقت وہ واقعی میری شدت سے منتظر تھی۔
’’بیٹا! پرامس اگلے ویک اینڈ پر‘‘۔ اور اس کے چہرے کی مایوسی کو نظرانداز کرتے ہوئے میں جلدی سے دروازے کی طرف واپس مڑا۔ ’’اللہ حافظ میری جان، رات میں ملتے ہیں۔‘‘
’’واپسی میں یحییٰ کو لائبریری سے پک کرلیجیے گا۔ وہ کل کے ٹیسٹ کی تیاری کے لیے فرینڈز کے ساتھ رک گیا تھا۔‘‘ پیچھے سے عظمیٰ کی آواز آئی اور پھر کوفت کے احساس سے میں نے اپنے پیچھے زور سے دروازہ بند کیا۔ ’’بس یہ تو انتظار میں رہتی ہے، گھر میں داخل ہوں اور اگلی ذمے داری کا ہدایت نامہ تیار۔‘‘
گاڑی کو تقریباً بھگاتے ہوئے میں بلال کی طرف پہنچا اور اس کے گھر پر اترنے کی زحمت کیے بغیر میں نے ہارن پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’خدا کا خوف کرو بور انسان! میرے پڑوسی تمہاری کمپلین نہ کردیں۔ جب آتے ہو ہارن سے تمہارا ہاتھ ہٹتا ہی نہیں‘‘۔ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اس نے اپنی مخصوص صلواتوں سے میری تواضع کی۔ ’’بلال! تم بھی خوف کرلو تھوڑا، نہ سلام نہ دعا، بس بجنے لگا تمہارا باجا‘‘۔ عثمان بھائی کی طرف پہنچتے پہنچتے سات بج چکے تھے، ان کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے اپنے کپڑوں پر نظر پڑی تو احساس ہوا کہ بری طرح شکنیں پڑی ہوئی تھیں، لیکن اس وقت واپس جانا ناممکن تھا اس لیے میں نے سب کے مذاق کا نشانہ بننے کے لیے خود کو تیار کرلیا۔ دروازہ کھولنے کے لیے عثمان بھائی خود موجود تھے۔ ان کا گرم جوشی سے گلے لگانا میری سارے دن کی تھکن ایک لمحے میں رخصت کرگیا۔ بلال پیچھے تھا اور میںآگے بڑھ گیا۔ ان کی ذات میں کچھ ایسی طلسماتی کشش تھی کہ دل کھنچتا تھا ان کی طرف۔ ان کی شخصیت، ان کی فیملی، ان کے آئیڈیل بچے، ان کے گھر کا سلیقہ اور رکھ رکھائو… ان کے گھر جاکر واپس اپنے گھر کا رخ کرنے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ عثمان بھائی سے گلے مل کر میں آگے بڑھا تو چھوٹا ابوبکر سامنے سے دیوار کا سہارا لیے چھوٹے چھوٹے قدم بڑھاتا میرے قریب آیا اور اس سے پہلے کہ وہ اپنے ہاتھ میں پکڑی چاکلیٹ سے میرے کپڑوں میں مزید چار چاند لگاتا، میں بچ کر آگے نکل گیا۔
’’ارے بلال! آئو یار آج دیر کردی‘‘۔ عثمان بھائی کی عقب سے آتی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ ’’اور ولید تم اب تک یہیں کھڑے ہو!‘‘ مجھے اندازہ تھا کہ اب ابوبکر صاحب ابا کی گود میں چڑھے ہمارے آس پاس ہی رہیں گے اور عثمان بھائی کی بھی ہمت تھی کہ دوستوں کی موجودگی میں بھی کبھی اپنے بچوں کی اردگرد موجودگی سے وہ نہ پریشان ہوتے، نہ ہی بار بار اپنی بیگم کو آوازیں دے کر بچے حوالے کرتے۔ ان کی ریسپشن میں داخل ہوکر مجھے لگاکہ شاید سب کی نظریں میرے ہی اوپر تھیں۔ کپڑوں کی شکنیں ہیں یا چہرے کی، جو سب کو کہانی سنا دیں گی کہ آج یامین کو پارک لے جانے کی ڈیوٹی میری تھی۔
’’ولید بیٹھو یار، اور بتائو کیا لو گے؟ چائے چلے گی یا جوس؟ بلال تم تو اپنی مدد آپ کرو بھائی‘‘۔ عثمان بھائی کی مہربان آواز اور ہلکے پھلکے مذاق نے مجھے ریلیکس کیا۔ (جاری ہے)