حفاظ کرام کے فضائل

1330

فخرالدین
قرآن مجید کا اتنا حصہ حفظ کرنا جس سے نماز ادا ہو جائے ہر مسلمان عاقل بالغ پر فرض ہے اور تمام قرآن کا حفظ کرنا فرض کفایہ ہے۔ موجودہ دور میں جہاں مسلمانوں میں اور بہت سے دینی امور میں گمراہی پھیل رہی ہے وہاں پر کچھ لوگ قرآن مجید کے حفظ کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ اس کے الفاظ رٹنے کو حماقت بتلایا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ بتلایا جاتا ہے کہ اصل بات تو یہ ہے کہ لوگ اس کو سمجھے اور بغیر سمجھنے کی اس رٹے کی کیا ضرورت ہے۔ اکثر مسلمان اپنی اولاد کو حفظ قرآن اور دینی تعلیم دلانے کے بجائے دنیاوی تعلیم انگریزی ، انجینئر، پروفیسر، ڈاکٹر ، ایڈوکیٹ وغیرہ بنانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
ایک عام تاثر یہ پیدا ہوا ہے کے دنیاوی تعلیم سے انسان کی زندگی سنور جاتی ہیں۔ سکھ ، چین اور راحت ملتا ہے اور معاشرے میں عزت کا مقام پالیتا ہے یہ سب باتیں خوف، خدا فکر آخرت اور اسلامی معاشرے سے دور لے جاتی ہے جس کی وجہ سے انسان دین سے دور ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس صحیح معنوں میں اسلامی تعلیمات کے حصول اور اس پر عمل کرنے کے بعد انسان کی حقیقی زندگی بنتی ہے اور رزق اور انسانی ضروریات کی کفالت تو اللہ تعالی کی ذمہ داری ہے۔ اصل مشاہدہ تو یہ ہے کہ بے شمار لوگ بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کر کے بھی خوش نہیں رہتے اور فٹ پاتھوں پر رہنے والوں سے بھی بدتر زندگی بسر کر رہے ہیں یہاں پر میں ایک مثال پیش کرنا پسند کرونگا کہ جو لوگ مدارس والوں پر تنقید کرتے ہیں اور اس کا جواب بھی خود اپنے ہی منہ سے دیتے ہیں وہ یہ بولتے ہیں کہ اگر میں اپنے بیٹے کو عالم بنا لونگا تو وہ تو دنیا کے کاموں سے بیزار ہو جائے گا اور مدارس والے تو غریب لوگ ہیں ان کی تنخواہیں بھی بہت کم ہوتی ہے وہ بڑا ہوکر کھائے گا کیا اور پھر دوسری جگہ یہ بولتے ہیں کہ سب کچھ تو ملاؤں نے کھایا۔
اب یہ جملہ قابل غور ہے ایک جگہ بولتے ہیں کھائوں گا کیا، دوسری جگہ بولتے ہے سب کچھ تو انہوں نے کھایا۔ یہ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ رزق کا وعدہ تو اللہ نے کیا ہے سب کو رزق دینے والا ہے۔ اس کے برعکس جس نے قرآنی تعلیم حاصل کی اور عالم دین بن گیا ان کی زندگی میں تنگدستی نہیں رہتی اور تقریباً ہر ایک اطمینان کی زندگی گزار رہا ہوتا ہے اور اس کی ترویج و عمل سے لوگوں کو بھی سیراب کر رہا ہوتا ہے اور اپنی آخرت بھی سنوار لیتا ہے۔
قرآن مجید حفظ کرنے کے فضائل تو بہت زیادہ ہے لیکن میں یہاں پر ان میں سے کچھ ذکر کرنے کی کوشش کروں گا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ ’’انسانوں میں سے کچھ لوگ اللہ کے اپنے (مقرب) ہیں‘‘، صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول وہ کون لوگ ہیں، فرمایا ’’وہ حفاظ کرام ہیں جو اللہ کے اپنے اور خاص لوگ ہیں‘‘۔
حفاظ کرام کو اللہ تعالیٰ اپنے اہل اور خاص بندے بتلاتا ہے جیسا کہ خانہ کعبہ کو اپنا گھر بتلاتا ہے اور ایک آج کل کے جاہل لوگ حفاظ کرام کو بیوقوف کہتے ہیں۔ تو اس قسم کے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آج کے حکمرانوں کی صورت میں نہیں آئے گا کیا؟؟؟؟؟
ایک اور جگہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد نقل کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’حفاظ کرام اللہ تعالیٰ کے اولیاء ہے پس جس نے ان سے عداوت کی اس نے اللہ تعالی سے عداوت کی اور جس نے ان سے دوستی کی انہوں نے اللہ تعالی سے دوستی کی‘‘۔ حافظ قرآن قیامت کے دن دس ایسے بندوں کی شفاعت کرے گا جن پر جہنم کی آگ واجب ہوچکی ہوگی۔ حافظ القران کا جسم قبر میں خراب نہیں ہوگا اور وہ آخر تک تروتازہ رہے گا۔
اس کے علاوہ بھی حفاظ کرام کے فضائل اتنے زیادہ ہے کہ اس کے لیے یہ پورا صفحہ بھی کم پڑ جائے اس لئے میں اتنے ہی پر اکتفا کرتا ہوں۔امیر اور غریب طبقے کے ہر فرد کو اس کی مسلمانیت کے پیش نظر اپنی اولاد کو قرآن کی تعلیم دلانا ضروری ہے اور اپنی اور اپنے جگرگوشوں کی دنیا اور آخرت بہتر کرنا فرض ہے ورنہ موت کے بعد قبر اور اس کے بعد کے لمحات بہت خطرناک اور قوت برداشت سے باہر ہے۔ وہاں ایک اسلامی تعلیمات کام آئیگی،وہاں پر کوئی ڈگری نہیں چلتی اس لیے یورپی تہذیب و ثقافت، رسم و رواج، انگریزی تعلیم و تعلم اور انگریزی معاشرہ کے تقلید کے بجائے اسلامی فکر، اسلامی تعلیم، اسلامی معاشرہ اور اسلامی تعلیم آخرت کی فلاح کے لئے بہت ضروری ہے۔
چنانچہ ہر مسلمان کی فلاح اور آخرت کے انعامات حاصل کرنے کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ قرآن مجید ہے ، اس لئے خود اور اپنے بچوں کو اس کی تعلیم دیکر اور اس کے احکام پر عمل کرکے آخرت کے بے شمار انعامات حاصل کرے اور اخروی زندگی کے عذاب سے نجات حاصل کرے ، ورنہ بصورت دیگر بعد میں پشیمان اور سزا بھگتنی پڑے گی۔

حصہ