حوریہ ایمان ملک
جناب یہ ظلم ہے۔۔ یہ ظلم ہے۔۔ گستاخ چڑیا جب تک ہاتھ میں رہی پھڑپھڑاتی رہی۔ جب اڑی تو ہاتھ بھی ساتھ لے گئی۔۔ چڑی مار نے روتے ہوئے اپنی زخمی کلائی کٹہرے کے جنگلے پر قاضی کے سامنے رکھ دی اور پھر چلایا۔۔ عالی جاہ یہ ظلم ہے۔۔ یہ ظلم ہے۔ عدالت نے چڑیا کے خلاف یکطرفہ فیصلہ سناتے ہوئے چڑیا کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔۔ یہ خبر اخبارات میں چھاپی گئی ، ٹی وی پہ دکھائی گئی ، ریڈیو نے بھی سنائی پھر لوگوں کا جم غفیر چڑیا کے تعاقب میں شہر سے نکل پڑا۔ ان میں کچھ چڑی مار تھے ، کچھ انکے رشتے دار اور باقی تماش بین تھے۔
جب پورا شہر خالی ہوگیا تو سنسان شہر میں گرفتار چڑیوں کے درمیان کھسر پھسر شروع ہوگئی۔ ایک چڑیا نے دوسری کو، دوسری نے تیسری کو یہ ماجرا سنایا اور یوں شہر بھر میں چڑیوں نے پر مارنے شروع کردیے۔ سنسان شہر چڑیوں کے پروں کی پھڑ پھڑاہٹ سے گونج اٹھا۔ پروں کی تھرتھراہٹ سے سارا شہر تھرتھراگیا اور فلک بوس عمارتیں ایک ایک کرکے زمین بوس ہونے لگیں۔ عمارتوں کے گرنے کی آوازیں سن کر لوگ الٹے پاؤں شہر کی طرف بھاگے لیکن شہر میں ملبے کے ڈھیر کے سوا کچھ نہ تھا۔
یوں یہ خبر پہنچی ظل الٰہی تک، ملک کی سب سے بڑی عدالت تک۔ ظل الٰہی نے حکم دیا کہ اگر کل تک ساری چڑیوں کو گرفتار کرکے پیش نہ کیا گیا تو ویران شہر کے اجڑے ہوئے باسیوں کو آگ لگادی جائے گی۔ لوگ دوڑ پڑے۔۔ ساری چڑیاں گرفتار کرکے لائی گئیں، حتیٰ کہ وہ گستاخ چڑیا بھی۔ لوگوں کے ہاتھوں پر ابھی تک وہ لہو تازہ تھا جو چڑیوں کو گرفتار کرتے ہوئے لگا تھا۔ لوگ اپنے ہاتھوں کے لہو کو منہ پر مل کر میک اپ کرنے لگ گئے اور ظل الٰہی ان کے چہروں کی سرخی دیکھ کر انہیں انعامات سے نوازتے گئے۔ جس کے چہرے پر جتنی زیادہ سرخی تھی اسے اتنا ہی بڑا انعام دیا گیا۔ظل الٰہی کے دربار میں مقدمہ چلا ، کچھ چڑیوں نے وعدہ معاف گواہ بننے کی کوشش کی ۔ کچھ نے اقبال جرم کرنے کی ٹھانی ۔کچھ نے دانے دنکے پر ہی گزارہ کرنے کی سوچی اور کچھ نے قفس میں ہی اپنی باقی زندگی گزارنے میں عافیت سمجھی۔
ایسے میں وہ گستاخ چڑیا پھڑپھڑاتی ہوئی ظل الٰہی کے تاج پر آکر بیٹھیں اور بولیں۔۔۔ ارے نادان چڑیو! انسانوں کی طرح اپنی صنف سے غداری نہ کرنا۔انسانوں کی طرح اپنے سماج میں کالے بھڑیوں کی فصل نہ بونا۔۔ یاد رکھو۔۔ چڑی ماروں کے درباروں سے چڑیوں کو انصاف نہیں ملا کرتا۔ جب تک چڑیاں بنی رہوگی یہ لوگ تمہارے خون کی سرخی سے میک اپ کرتے رہیں گے کبھی اسرائیلی فوج بن کر تمہیں شامی اور فلسطینی عوام کی طرح خون میں نہلا دیں گے کبھی برما میں تمہاری نسلوں کو کاٹ کر پھینک دیں گے ، کبھی کشمیر میں تمہارے خون سے ہولی کھیلیں گے ، کبھی قندوز میں تمہاری نسلوں کے خون سے اپنی پیاس بجھائیں گے۔ کبھی ریمنڈ ڈیوس تو کبھی جوزف بن کر تمہیں سرعام کچل ڈالیں گے ، کبھی تمہارے پر کاٹ کر زندان میں قید کردیں گے ، کبھی تمہارے لیے وزیرستان تو کبھی کراچی بنائیں گے۔
جہاں انسان کی قیمت چڑیا سے بھی کم ہے۔۔ چڑیاں حیران ہوگئیں ہم سے بھی کم۔۔ جی ہاں۔۔ کالے نظام پر پلنے والے کالے انگریز اور کالے کرتوتوں کے مالک ظل الٰہی انسان کی قیمت کیا جانیں۔ اگر تم چاہتی ہو آزاد رہو اور تمہاری نسل کشی نہ کی جائے تو سب متحد ہوجاؤ ، اپنے حصے کا زور لگاؤ ، اپنی طاقت آزماؤ۔ یہ کہہ کر چڑیا پھڑپھڑائی اور پھر ساری چڑیاں پھڑپھڑائیں ، لوگ پھڑ پھڑاہٹ سے گھبرائے اور دیکھتے ہی دیکھتے چڑیاں کسی کی آنکھ، کسی کے کان، کسی کی کلائی لے کر اڑ گئیں۔ شام ہونے تک سب کی آنکھیں، کان اور کلائیاں غائب تھیں۔ شہر میں کوئی سالم شخص باقی نہ رہا، پورے شہر میں صرف ایک شخص کی ایک آنکھ بچی تھی۔ کہتے ہیں کہ چڑیوں نے اس کی ایک آنکھ خود ہی چھوڑ دی تھی تاکہ وہ اپنی ایک آنکھ سے بے نواؤں کے خون سے میک اپ کرنے والوں کا انجام دیکھ سکے۔ آخر وقت کے زندان میں ایک روشن صبح کے آغاز کا کوئی ظالم بھی تو عینی شاہد ہو۔