روزے کے مسائل

939

درصدف ایمان
اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:’’رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا۔‘‘ (البقرہ )۔ نزول قرآن پاک کی برکت سے اس ماہ مبارک کو یہ فضیلت ملی کہ اسکے لیے جنت آراستہ کی جاتی ہے جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ خطائیں مٹائی جاتی ہیں۔ سرکش شیطان مقید کر دیے جاتے ہیں۔ باب نار بند کر دیے جاتے ہیں۔ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ رب کی منشاء سے جسے چاہے جہنم سے آزادی ملتی ہے۔ دعائیں مستجاب ہو جاتی ہیں۔ نفل وسنت کا ثواب فرضوں کے برابر اور فرضوں کا ثواب ستر گناہ اور بڑھ جاتا ہے۔
رحمتوں کا مہینہ ہے اس کا پل پل، لمحہ لمحہ، غرض ہر ساعت ہمارے لیے انعام عظیم ہے۔ رمضان المبارک رحمتوں و برکتوں والا مہینہ ہے۔ رمضان کا مقدس و پاکیزہ ماہ امت مسلمہ کیلئے ایک عظیم و محترم ماہ ہے۔ قرآن حدیث سے اس مبارک مہینے کی بے حد فضیلت بیان کی گئی ہے جس کا ہر ہر لمحہ خود اس پر نازاں ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’ جب رمضان مبارک آتاہے جنتوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے بند کر دیے جاتے ہیں، شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
رمضان المبارک کے حوالے سے بہت سی احادیث وارد ہیں۔ رمضان المبارک اور روزے کی فضیلت حدیث مبارکہ کے ان الفاظ سے بخوبی واضح ہو رہی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ہر چیز کا ایک دروازہ ہے اور عبادت کا دروازہ روزہ ہے۔‘‘۔ اسی طرح حضرت سہل بن سعد سے مروی ہے کہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’ جنت کے 8دروازے ہیں ان میں ایک کا نام ’باب الریان ‘ ہے اور اس میں سے روزے داروں کے سوا کوئی داخل نہ ہو۔ ‘‘ (بخاری و مسلم)
ایک اور حدیث مبارکہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد مبارکہ ہے کہ : ’’ بنی آدم کے اعمال براہ کرم و بندہ نوازی بڑھائے جاتے ہیں، ایک نیکی دو گنا سے سات سو گنا تک سوائے روزے کے۔ پروردگار عالم فرماتا ہے کہ روزے کا اجرو ثواب بے انداز و بے حساب ہے کیونکہ وہ خاص میرے لیے اور میں خود اسکی جزا دوں گا۔ بندہ میرے لیے اپنی خواہشات و خواراک کو ترک کرتا ہے‘‘۔
ان احادیث کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک میں بابِ رحمت کھول دیے جاتے ہیں۔ طلب کرنے والے کے لیے کوئی در بند نہیں ہوتا۔ جس طرح موسم ربیع میں ہر طرف بہار چھا جاتی ہے ہوائیں نکھر جاتی ہیں، ٹھنڈی ہوا چل پڑتی ہے اسی طرح مومنوں کے دل کھول دئیے جاتے ہیں۔ جب رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آتا ہے ، فضائیں معطر ہو جاتی ہیں ، دل ٹھنڈے ہو جاتے ہیں، فرش سے عرش تک رحمت ہی رحمت چھا جاتی ہے۔ ہر سو نورانیت کی ایک چادر تن جاتی ہے۔
رمضان المبارک کی یہ فضیلت بھی ان ہی کے لیے ہے جو ماہ صیام میں صوم کا احترام کریں۔ کامل روزے کی ادائیگی کریں۔ مکمل طور پر اس کے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے ، فر ض جانتے ہوئے، نور مانتے ہوئے روزہ مکمل کریں۔
یہاں مختصر طور پر بیان کر دیا جائے کہ ہمارے معاشرے میں ایک روایت بنتی جا رہی ہے کہ ہم روزہ تو رکھ لیتے ہیں مگر نہ اس کی فضیلت کے کچھ خیال ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے مقدس ہونے کا پتہ ہوتا ہے۔ روزہ فاقہ کشی کا نام نہیں کہ کھا پی کر سویا جائے سحری کے نام پر اور بیدار ہو کر افطار کے نام پر کھا پی لیا جائے۔روزے دار کی نیند بھی عبادت ضرور ہے مگر ہمیں اپنے طور پر رکن اسلام کی مکمل اور صحیح طور پر ادائیگی کرنا چاہیے۔
روزہ اور اس کے مختلف احکام
روزے سے مراد یہ ہے کہ صبح صادق سے غروب آفتاب تک جو کھانا پینا اور نفسانی خواہشات کو ترک کر دینا ہے۔ روزہ در حقیقت کھانے پینے سے رکنا ہی نہیں بلکہ اپنے آپ کو ہر گناہ، لغو و بے ہودہ مشغلہ سے روکنا ہے۔ روزے دار کا ہر ہر عضو صائم ہوتا ہے۔ کان لغو بات نہ سنے، ممنوعہ راگ، گانے باجے، فلموں، ڈراموں سے بچے۔
زبان گالم گلوچ، جھوٹے قصے، غیبت سے اجتناب کرے۔ ہاتھ گناہ و بے حیائی سے بچے، ٹانگ گناہوں اور بے حیائی و لغو رستہ پر نہ چلے، الغرض تمام فجور سے کنارہ کر کے یاد الٰہی میں مصروف ذکر الٰہی میں تلاوت قرآن پاک کے کلماتِ خیر سے اپنے آپکو روشن رکھے۔ تب ہی روزے کا اصل مقصد حاصل کر سکے گا۔بخاری شریف میں اسی ضمن میں یہ ارشاد ہے:’’ جس نے لغو و باطل بات ، بے ہودہ عمل ترک نہ کیا للہ تعالیٰ کو اسکا خوردو نوش چھوڑنا درکار نہیں۔‘‘یہ حدیث ان لوگوں کے لیے ہے جو صرف کھانا پینا ترک کر لیتے ہیں باقی کچھ نہیں کرتے۔
روزہ اور اس کے مسائل
رمضان المبارک کے روزے ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہیں اس کا منکر کافر ہے۔
کافر، مجنون، نا بالغ پر فرض نہیں۔
مریض شدید اور مسافر پر فی الحال ادا واجب نہیں۔
مسواک کرنا جائز ہے۔ سرمہ لگانا، عطر لگانا جائز ہے۔
درد و تکلیف کی صورت میں بام لگانا جائز ہے۔
کسی شے کا چکھنا اور چبانا بلا عذر مکروہ ہے۔ ( بد مزاج شوہر کے لیے عورت کو کھانا چکھنے کی رخصت ہے)
کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے سے مبالغہ کرنا مکروہ ہے۔
مسافر کو روزے میں چھوٹ ہے۔
کسی نے جان بوجھ کر قصداً روزہ توڑا تو اس کا کفارہ مسلسل ساٹھ (60) روزے رکھنا ہے ایک روزہ اس کی قضا (60) روزے کفارہ کل (61) رکھے جائیں گے۔ ایسی بیماری جس میں روزہ توڑنا ضروری ہے تو ایسی صورت میں صحت یاب ہونے کے بعد صرف قضا کیا جائے گا۔ حالت روزے میں انجکشن لگانے پر دو رائے ہیں ،بطور دوا لگایا جا سکتا ہے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ بطور خوراک استعمال کا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ علما کرام کا اس میں اختلاف ہے لہٰذا نہ لگوایا جائے تو بہتر ہے۔اگر اتنا بیمار ہے کہ روزہ نہ رکھ سکے تو اتنے روزوں کا فدریہ ادا کیا جائے جتنے روزے نہیں رکھے ہیں۔
کینسر جب اس حد کو چھو جائے کہ اب مریض کی صحت یابی کی امید نہیں، اب پوری زندگی روزہ نہیں رکھ سکے گا تو ایسی صورت میں مریض فدیہ دے گا۔
ذیابیطس میں مبتلا مریض اگر بھوکا رہنے سے ذیابیطس بڑھ جانے کااور جان کو ضرر پہنچنے کا خدشہ ہو تو اس صورت میں بھی فدیہ دے گا اور صحت یابی کے بعد قضا روزے رکھے گا ۔فدیہ کی رقم علماء کرام نے صدقہ فطر کے مساوی بیان فرمائی ہے۔زکوٰۃ و صدقہ فطر کی ادائیگی بھی لازم طور پر کی جائے۔ زکوٰۃ مال کا میل ہے اور مال کو جلد از جلد صاف کر لینا چاہیے اور صدقہ فطر واجب ہے لہٰذا اس کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔
معتبر روایات کے مطابق ماہ رمضان میں خصوصی رحمتیں بارگاہ خدا وندی سے نازل ہوتی ہیں۔ ان میں یہ تمام باتیں شامل ہیں۔ ’’رزق کی فروانی، مال کی زیادتی، سحری و افطاری کے کھانے کا اجرو ثواب، دعائے ملائکہ حاصل ہوتی ہے، باب رحمت کھول دئیے جاتے ہیں، باب نار بند کر دیئے جاتے ہیں، دعائیں مستجاب ہوتی ہیں، جنت کو سجایا جاتا ہے، دوزخیوں کو رہائی ملتی ہے، خوشنودی و رضا الٰہی حاصل ہوتی ہے، فرض کا بدلہ ستر گناہ ملتا ہے ‘‘۔
ماہ صیام میں ہم سب اپنی اپنی کثافتوں و آلودگیوں کو اپنے قلوب و اذہان کو گناہ کی گرد سے پاک و صاف کرنے کی نیت کرے ہیں اور یہ عزم کریں رمضان میں اچھے مسلمان اور امتی ہونے کا ثبوت دیں گے۔ ریا کاری کے بغیر عبادت کریں گے۔ رب تبارک و تعالیٰ تمام امت مسلمہ کی عبات قبول فرمائیں۔ آمین

حصہ