بات یہ ہے

518

عبدالرحمٰن مومن
میں قلفی والے کے پاس کھڑا تھا۔ امتحان ختم ہوا تولڑکے اُچھلتے کودتے کالج سے باہر آنے لگے۔ ’’تین لڑکے میرے برابر میں آکر کھڑے ہوگئے۔ وہ تینوں میرے گھر کے نزدیک ہی رہتے تھے۔ ’’انکل تین قلفیاں دے دیں۔ ٹھنڈی ٹھار، د ل بہار۔‘‘عثمان بہت خوش دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے شاہد اور ساجد کے لیے بھی قلفیاں خرید لیں۔ وہ تینوں قلفیاں لے کر پاس ہی کھڑے ہوگئے اور باتیں کرنے لگے۔ میں بھی ان کے نزدیک ہی کھڑا ہوگیا۔ ’’میں تو موبائل میں جوابات کی تصویریں کھینچ کرلے گیا تھا۔ بڑی مشکل سے نقل کی لیکن پورا پیپر کر کے آیا ہوں۔ تم بتاؤ تمھارا پیپر کیسا ہُوا؟‘‘ ساجد نے عثمان کی طرف دیکھا۔’’یار عثمان سے تو پوچھو ہی مت، یہ تو کاپی خالی بھی چھوڑ کر آجائے تو اسے پورے نمبر ملیں گے۔ اس کے ابو نے انٹر بورڈ والوں کو اچھی خاصی رشوت دی ہے۔ شاہد نے قلفی کے مزے لیتے ہوئے کہا۔ عثمان ان دونوں کی باتیں سُن رہا تھا۔ اس نے جلدی سے اپنی قلفی ختم کی اور اس کی ڈنڈی پاس بیٹھے غریب بچے کے اوپر اُچھال دی۔ ’’یار تُم لوگوں کو نماز کی ذرا بھی فکر نہیں ہے۔ ظہر کا وقت نکلا جا رہا ہے۔ میرے ابو کہتے ہیں کہ نماز نہ پڑھنے والے کو بہت گناہ ملتا ہے اوراسے قبر میں سانپ کاٹتا ہے۔‘‘ عثمان انھیں لیکچر دے کر مسجد کی طرف بھاگ گیا۔’’ہاں یار نماز پڑھ کے مجھے پیپر میں کامیابی کی دعا بھی تو مانگنی ہے۔‘‘ساجد نے کہاتو شاہد نے بھی اس کے ساتھ عثمان کے پیچھے دوڑ لگادی۔
میں سوچ رہا تھا کہ شاید ان بچوں کو کسی نے بتایا ہی نہیں کہ چوری کرنا، کسی کو تکلیف پہنچانا اور حق دار کا حق مارنے والے کو کتنا گناہ ملے گا اور اسے قبر میں کتنا بڑا سانپ کاٹے گا۔

دل ہے مسلماں میرا نہ تیرا
تو بھی نمازی میں بھی نمازی

حصہ